Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

391یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ) 30 ۔ الروم :39) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا (جو تم عطیہ دو ) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔ 392زکوٰۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر وثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہوجائے گا (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت کے سلسلہ میں نازل ہوئی، پھر سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٣٠ کی رو سے مسلمانوں کو سود در سود سے روک دیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے چار ماہ پیشتر سورة بقرہ کی آیات نمبر ٢٧٥ تا ٢٨١ کی رو سے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ چونکہ شراب کی طرح سود بھی اہل عرب کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ لہذا ایسی برائیوں کلی استیصال بتدریج ہی ممکن تھا۔- اب اصل مسئلہ کی طرف آئے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سود سے مال بڑھتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں دولت مندوں کی تعداد غریبوں کی تعداد کی نسبت بہت قلیل ہوتی ہے اور سود لینے والے دولت مند ہوتے ہیں اور دینے والے غریب اور محتاج۔ اب سود سے فائدہ تو ایک شخص اٹھاتا ہے اور نقصان سینکڑوں غریبوں کا ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کی نظروں میں اس کی سب مخلوق یکساں ہے بلکہ اسے دولتمندوں کے مفاد سے غریبوں کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ اور سود خور سود کے ذریعہ بیشمار غریبوں کا مال کھینچ کر انھیں مزید مفلس اور کنگال بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تو اسی حقیقت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ سود کے ذریعہ مال بڑھتا نہیں بلکہ گھٹتا ہے۔ یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہوا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ علم معیشت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ کہ جس معاشرہ میں دولت کی گردش جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی وہ معاشرہ خوشحال ہوگا اور اس کی قومی دولت میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر دولت کا بھاؤ غریب سے امیر کی طرف ہوگا تو یہ گردش بہت کم ہوجائے گی۔ کیونکہ امیر طبقہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود قومی معیشت پر تباہ کن اثر ڈالتا ہے۔ اور اگر دولت کا بہاو و امیر سے غریب کی طرف ہو اور یہ بات صرف زکوٰ ۃ و صدقات کی صورت میں ہی ممکن ہوتی ہے، تو دولت کی گردش میں تیز ہوجائے گی۔ کیونکہ ایک تو غریبوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے دوسرے ان کی ضروریات محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اٹکی ہوتی ہیں۔ لہذا دولت کی گردش میں تیزی آنے کی وجہ سے ایک تو سارا معاشرہ خوشحال ہوتا جائے گا دوسری قومی معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ( يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦۔ ) 2 ۔ البقرة :276) یعنی جس معاشرہ میں سود کا رواج ہوگا اس میں برکت نہیں رہے گا وہ بالآخر قلاش ہوجائے گا۔ غریب طبقہ کی تعداد دن بدن بڑھتی جائے گی اور وہ اپنا پیٹ پالنے کی خاطر امیر طبقہ پر جائز اور ناجائز طریقوں سے حملہ آور ہو کر ان کا مال ان سے چھین لے اور اس غرض کے لئے اگر اس کا کام چوری اور ڈاکہ، لوٹ مار سے چلتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ قتل و غارت سے بھی کبھی دریخ نہ کرے گا۔- اسلامی اقتصادیات یا اسلامی نظام معیشت پر بڑی لمبی چوڑی تصانیف بازار سے دستیاب ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول صرف دو ہی ہیں۔ ایک ملک سے سود کا خاتمہ اور دوسرے اس کے بجائے نظام زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج۔ سود ہی وہ لعنت ہے جو نظام سرمایہ داری کی جان ہے۔ اس کے خاتمہ سے نظام سرمایہ داری کی جان از خود نکل جاتی ہے۔ رہی سہی کسر اسلام کا قانون میراث نکال دیتا ہے۔ سود کے خاتمہ کے بعد جب نظام زکوٰۃ و صدقات اس کی جگہ لے لیتا ہے تو طبقاتی تقسیم از خود ختم ہوجاتی ہے۔ اور معاشرہ خوشحال بن جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے معاشیات کی کتابیں پڑھنے اور اس کے اصول سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف تجربہ کی ضرورت ہے اور تجربہ ہر انسان کم از کم اپنے خاندان میں کرکے اس کے ثمرات و برکات کو بچشم خود ملاحظہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ اتنے چھوٹے پیمانے پر سود کے خاتمہ اور زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج سے پورے ثمرات تو حاصل نہیں ہوسکتے۔ تاہم ایسے خاندان کی حالت پہلے سے بدرجہا بہتر ہوسکتی ہے۔ غریب کی امیر سے نفرت۔ حسد اور کینہ وغیرہ جیسے قبیح جذبات ماند پڑجاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ مروت، ہمدری اور اخوت جیسی اعلیٰ قدریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جس سے ایک طرف تو معاشرہ میں کشیدگی کے بجائے محبت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے دولت کی ناہموار تقسیم میں خصوصی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جس سے معاشرہ کے ہر فرد کو کم از کم بنیادی ضروریات ضرور مہیا ہوتی رہتی ہیں۔- [ ٤٥] اس کا ایک مطلب تو اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جو لوگ اللہ کی رضا کی خاطر زکوٰ ۃ و خیرات دیتے ہیں۔ تو وہ معاشرہ خوشحال ہوجاتا ہے۔ غریبوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے جس کا فائدہ بالآخر پھر دولت مند تاجروں اور صنعت کاروں کو ہی پہنچتا ہے اور اس طرح انھیں جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ سود پر روپیہ دینے کی نسبت بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو لوگ صدقات و زکوٰ ۃ ادا کرتے ہیں انھیں قیامت کو اس سے بہت زیادہ اجر ملے گا۔ یہ اجر دس گناہ بھی ہوسکتا ہے۔ ستر گناہ بھی سات سو گنا بھی بلکہ اس سے بھی۔ اور اس اجر کی کمی بیشی کے لئے بھی اللہ کے ہاں چند اصول ہیں۔ مثلاً جس محتاج کی ضرورت پوری کی گئی وہ کس حد تک ضرورت مند تھا۔ خرچ کرنے والے کی نیت میں خلوص کتنا تھا۔ اور پھر اس نے یہ نیکی کرنے کے بعد کوئی ایسا کام تو نہیں کیا جس سے وہ اپنا اجر ضائع کر دے۔ یا خرچ کرتے وقت کچھ ریا کا عنصر تو شامل نہیں تھا اور خرچ کرنے کے وقت شریعت کی ہدایات کو ملحوظ رکھا گیا تھا یا نہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ ۔۔ : یعنی سود سے بظاہر مال بڑھتا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی نحوست دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے، جب کہ زکوٰۃ دینے کے ساتھ دنیا اور آخرت میں مال میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ) [ البقرۃ : ٢٧٦ ] ” اللہ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلرِّبَا وَ إِنْ کَثُرَ ، فَإِنَّ عَاقِبَتَہُ تَصِیْرُ إِلٰی قُلٍّ ) [ مسند أحمد : ١؍٣٩٥، ح : ٣٧٥٣، قال المحقق صحیح ] ” سود خواہ بہت ہو انجام اس کا یقیناً قلت ہی ہوگا۔ “ یہ سورت مکی ہے، مکہ میں ابھی سود حرام نہیں ہوا تھا، مگر کفار مکہ بری طرح سودی کاروبار میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی طرح سود کو بھی تدریجاً حرام کیا۔ اس آیت میں صرف اس کی مذمت بیان فرمائی، اس کے بعد مدینہ میں سورة آل عمران (١٣٠) میں سود در سود کو اور سورة بقرہ (٢٧٥ تا ٢٨١) میں ہر طرح کے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔- 3 بعض اہل علم نے اس آیت میں مذکور حقیقت کی مثال بیان فرمائی : ” یعنی سود (بیاج) سے گو بظاہر مال بڑھتا دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں گھٹ رہا ہے۔ جیسے کسی آدمی کا بدن ورم سے پھول جائے، وہ بیماری یا پیام موت ہے اور زکوٰۃ نکالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کم ہوگا، فی الحقیقت وہ بڑھتا ہے۔ جیسے کسی مریض کا بدن مسہل و تَنقِیَہ سے گھٹتا دکھائی دے مگر انجام اس کا صحت ہو، سود اور زکوٰۃ کا حال بھی انجام کے اعتبار سے ایسا ہی سمجھ لو۔ “- وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ ۔۔ : جیسا کہ فرمایا : (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) [ البقرۃ : ٢٤٥ ] ” کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے۔ “ (مزید دیکھیے بقرہ : ٢٦١) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ إِلَّا أَخَذَہَا اللّٰہُ بِیَمِیْنِہِ فَیُرَبِّیْہَا کَمَا یُرَبِّيْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ أَوْ قَلُوْصَہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ أَوْ أَعْظَمَ ) [ مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتھا : ٦٤؍١٠١٤ ] ” کوئی شخص پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی کرتا ہے تو رحمٰن اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے مالک کے لیے اس کو پالتا بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑی کے بچے کو یا اونٹنی کے بچے کو پالتا بڑھاتا ہے، حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے یا اس سے بھی بڑی۔ “ اور دیکھیے سورة بقرہ (٢٧٦) ۔- 3 اس آیت کی ایک اور تفسیر بھی کی گئی ہے، ابن کثیر فرماتے ہیں : ” یعنی جو شخص کوئی ہدیہ دے جس سے اس کا ارادہ یہ ہو کہ لوگ اسے اس کے ہدیے سے زیادہ دیں گے تو اللہ کے ہاں اس میں کوئی ثواب نہیں۔ “ ابن عباس، مجاہد، ضحاک، قتادہ، عکرمہ، محمد بن کعب اور شعبی نے یہی تفسیر کی ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” یہ کام مباح (جائز) ہے، اگرچہ اس میں ثواب نہیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ یہ ضحاک کا قول ہے اور انھوں نے اللہ کے اس فرمان سے دلیل پکڑی ہے : (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ) [ المدثر : ٦ ] ” اور (اس نیت سے) احسان نہ کر کہ زیادہ لے۔ “ یعنی کوئی عطیہ نہ دے جس سے تو زیادہ حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہو۔ “ ابن عباس (رض) کے اس قول کے متعلق ابن کثیر کے محقق نے فرمایا : ” اسے طبری نے بیان کیا ہے، سند اس کی ضعیف ہے۔ “ حافظ ابن کثیر نے اسی مفہوم کا ابن عباس (رض) کا ایک اور قول نقل فرمایا ہے کہ ” ربا “ دو طرح کا ہے، ایک ربا جو صحیح نہیں، یعنی بیع میں ربا اور ایک ربا جس میں کوئی حرج نہیں۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کوئی ہدیہ دے، جس سے زیادہ حاصل کرنے کا ارادہ ہو، پھر یہ آیت پڑھی۔ ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا : ” سیوطی نے ” در منثور “ میں اسے ابن ابی حاتم کی طرف منسوب کیا ہے، جس میں آیت پڑھنے کا ذکر نہیں۔ “ لیکن میں نے ابن ابی حاتم میں اسے تلاش کیا تو اس میں ہے کہ مخطوطہ سے سورة روم کا حصہ ساقط ہے۔ [ وَ اللّٰہُ أَعْلَمُ بِصِحَّتِہٖ ] - جمال الدین قاسمی فرماتے ہیں : ” اس تفسیر میں کئی لحاظ سے نظر ہے، پہلی یہ کہ یہ آیت سورة بقرہ کی آیت (٢٧٦) : (يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ) کے مشابہ ہے، جو بیع میں سود کے بارے میں ہے، جو اہل مکہ میں اس بری طرح پھیلا ہوا تھا کہ ان کا مزاج بن چکا تھا، جس کے ساتھ وہ تنگ دستوں کا مال اس برے طریقے سے چوس رہے تھے جس کا رحم، نرم دلی اور انسانی ہمدردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس حال کی مذمت فرمائی، تاکہ وہ توبہ کر کے پاک ہوجائیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ربا کا حقیقی معنی سود ہی ہے، جسے سب لوگ جانتے ہیں۔ اس حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لینے کے لیے شرع یا عقل کی کوئی دلیل ہونی چاہیے جو یہاں موجود نہیں۔ تیسری وجہ یہ کہ آیت سے ہبہ و الا معنی مراد لے کر پھر ایسے ہبہ کو مباح قرار دینا محل نظر ہے، کیونکہ آیت کا اسلوب تو اس سے ڈرانے کا اور اس سے بچنے کی ترغیب کا ہے، جو اسے ناجائز چیزوں میں شامل کر رہا ہے اور انداز بیان کی دلالت بہت قوی دلالت ہوتی ہے۔ چوتھی وجہ یہ کہ آیت سورة مدثر کی آیت (٦) : (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ) (اور اس نیت سے احسان نہ کر کہ زیادہ حاصل کرے) کی رو سے یہ دعویٰ کہ ایسا ہبہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حرام تھا، محل نظر ہے۔ کیونکہ اگرچہ لفظوں میں خطاب صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر حکم عام ہے۔ سورة مدثر کے شروع سے دیکھ لیجیے : (يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ) یہ تمام احکام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پوری امت کے لیے بھی ہیں۔ “ خلاصہ یہ کہ اس آیت کی پہلی تفسیر ہی قابل اعتماد ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ ، اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے، جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے۔ وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں نوتہ کہتے ہیں۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اہل قرابت کا جو حق ادا کرنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہے ان کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ ان پر احسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے اور جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ ان کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربو سے تعبیر کر کے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی۔- مسئلہ : ہدیہ اور ہبہ دینے والے کو اس پر نظر رکھنا کہ اس کا بدلہ ملے گا یہ تو ایک بہت مذموم حرکت ہے، جس کو اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن بطور خود جس شخص کو کوئی ہبہ عطیہ کسی دوست عزیز کی طرف سے ملے اس کے لئے اخلاقی تعلیم یہ ہے کہ وہ بھی جب اس کو موقع ملے اس کی مکافات کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ یہی تھی کہ جو شخص آپ کو کوئی ہدیہ پیش کرتا تو اپنے موقع پر آپ بھی اس کو ہدیہ دیتے تھے۔ (کذاروی عن عائشہ قرطبی) ہاں اس مکافات کی صورت ایسی نہ بنائے کہ دوسرا آدمی یہ محسوس کرے کہ یہ میرے ہدیہ کا بدلہ دے رہا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۝ ٣٩- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - رَبَا :- إذا زاد وعلا، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] ، أي : زادت زيادة المتربّي، فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً- [ الحاقة 10] ، وأربی عليه : أشرف عليه، ورَبَيْتُ الولد فَرَبَا من هذا، وقیل : أصله من المضاعف فقلب تخفیفا، نحو : تظنّيت في تظنّنت .- اور اسی سے ربا ہے جس کے معنی بڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] پھر جب ہم اس پر پانی بر سادیتے ہیں تو وہ لہلانے اور ابھرنے لگتی ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة 10] تو خدا نے بھی انہیں بڑا سخت پکڑا ۔ اربی علیہ کسی پر بلند ہونا یا کسی کی نگرانی کرنا ۔ ربیت الوالد فربا میں نے بچے کی تربیت کی چناچہ وہ بڑھ گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ربیت ہے تخفیف کے لئے ایک باء حزف کردی گئی ہے ۔ جیسا کہ تظنیت کہ اصل میں تظننت ہے تحقیقا ایک نون کو یاء سے تبدیل کردیا ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- ضعف ( دوگنا)- ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ «1» ، ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] ، وقال : مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام 160] ، والمُضَاعَفَةُ علی قضيّة هذا القول تقتضي أن يكون عشر أمثالها، وقیل : ضَعَفْتُهُ بالتّخفیف ضَعْفاً ، فهو مَضْعُوفٌ ، فَالضَّعْفُ مصدرٌ ، والضِّعْفُ اسمٌ ، کا لثَّنْيِ والثِّنْيِ ، فَضِعْفُ الشیءِ هو الّذي يُثَنِّيهِ ، ومتی أضيف إلى عدد اقتضی ذلک العدد ومثله، نحو أن يقال : ضِعْفُ العشرةِ ، وضِعْفُ المائةِ ، فذلک عشرون ومائتان بلا خلاف، وعلی هذا قول الشاعر :- 293-- جزیتک ضِعْفَ الوِدِّ لمّا اشتکيته ... وما إن جزاک الضِّعف من أحد قبلي - «3» وإذا قيل : أعطه ضِعْفَيْ واحدٍ ، فإنّ ذلک اقتضی الواحد ومثليه، وذلک ثلاثة، لأن معناه الواحد واللّذان يزاوجانه وذلک ثلاثة، هذا إذا کان الضِّعْفُ مضافا، فأمّا إذا لم يكن مضافا فقلت : الضِّعْفَيْنِ فإنّ ذلك يجري مجری الزّوجین في أنّ كلّ واحد منهما يزاوج الآخر،- فيقتضي ذلک اثنین، لأنّ كلّ واحد منهما يُضَاعِفُ الآخرَ ، فلا يخرجان عن الاثنین بخلاف ما إذا أضيف الضِّعْفَانِ إلى واحد فيثلّثهما، نحو : ضِعْفَيِ الواحدِ ، وقوله : فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ 37] ، وقوله : لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران 130] ، فقد قيل : أتى باللّفظین علی التأكيد، وقیل : بل المُضَاعَفَةُ من الضَّعْفِ لا من الضِّعْفِ ، والمعنی: ما يعدّونه ضِعْفاً فهو ضَعْفٌ ، أي : نقص، کقوله : وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم 39] ، وکقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] ، وهذا المعنی أخذه الشاعر فقال : زيادة شيب وهي نقص زيادتي وقوله : فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف 38] ، فإنهم سألوه أن يعذّبهم عذابا بضلالهم، وعذابا بإضلالهم كما أشار إليه بقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل 25] ، وقوله : لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف 38] ، أي : لكلّ منهم ضِعْفُ ما لکم من العذاب، وقیل : أي : لكلّ منهم ومنکم ضِعْفُ ما يرى الآخر، فإنّ من العذاب ظاهرا و باطنا، وكلّ يدرک من الآخر الظاهر دون الباطن فيقدّر أن ليس له العذاب الباطن .- ( ض ع ف ) الضعف - الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام 160] سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضعفتہ ضعفا فھوا مضعوف ۔ تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضعف مصدر ہوگا اور ضعف اسم جیسا کہ شئی اور شئی ہے اس اعتبار سے ضعف الشئی کے معنی ہیں کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور جس سے وہ چیز دوگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی چند مراد ہوتا ہے لہذا ضعف العشرۃ اور ضعف المابۃ کے معنی بلا اختلاف بیس اور دو سو کے ہوں گے چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جز نیتک ضعف الواد لما اشتیتہ وما ان جزاک الضعف من احد قبلی جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دو چند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دو چند بد لہ نہیں دیا ۔ اور اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سر چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہا یک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضعف کا لفظ مضاعف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے ۔ لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ 37] ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف 38] تو ان کی آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی بار تعالٰ سے مطالیہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں کمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دو گناہ عذاب دیا جائے گا ایک تو انکے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ، ہمیں گمراہ کرنے کا جیسا کہ آیت کریمہ : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل 25] یہ قیامت کے ادن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف 38] کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہور ہا ہے جتنا کہ دوسرے کو نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی ، ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے ( حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے ۔ اور آیت ؛لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران 130] بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اضعافا کے بعد مضاعفۃ کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مضاعفۃ کا لفظ ضعف ( بفتح الضاد ) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ ، دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] کہ اللہ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (286) زیادۃ شیب وھی نقض زیادتی کہ بڑھاپے کی افرزونی دراصل عمر کی کمی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سود کی بےبرکتی - قول باری ہے : (وما اتیتم من ربا لیربو فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ۔ جو سود تم دبتے ہوتا کہ لوگوں کے امول میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا۔ ) حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو کوئی چیز کسی کو ہبہ کرتا ہے اور اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اسے بدلے میں اس سے بڑھ کر چیز دی جائے ، یہی وہ چیز ہے جو اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتی اور نہ ہی اس کے دینے والے کو کوئی اجر ملتا ہے نہ ہی اس پر کوئی گناہ لازم آتا ہے۔- قول باری ہے : (وما اتیتم من زکوٰۃ تریدون وجد اللہ فاولئک ھم المضعفون۔ ) اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو ثواب حاصل کرنے کی نیت سے دیتا ہے۔ عبدالوہاب نے خالد سے اور انہوں نے عکرمہ سے قول باری (وما اتیتم من ربا لیر بو فی اموالی الناس) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” ربوٰ کی دو قسمیں ہیں : حلال ربوٰ اور حرام ربوٰ ۔ پہلی قسم وہ بدیہ ہے جو اس نیت سے کسی کو دیا جائے کہ اس کے ذریعے اس سے افضل چیز حاصل کرنے کی راہ نکالی جائے۔- زکریا نے شعبی سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ سفر کرتا ہے سفر میں وہ اس کی خدمت کرتا اور اس کے آرام وراحت کا خیال رکھتا ہے۔ دوسرا شخص اسے اپنے منافع میں سے بدلے کے طور پر کچھ دے دیتا ہے۔ عبدالعزیز بن ابی رواد نے ضحاک سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس سے حلال ربوٰ ماد ہے۔ ایک شخص دوسرے کو ہدیہ کے طور پر کوئی چیز اس نیت سے دے دے کہ اسے اس کے بدلے میں بہتر چیز دی جائے۔ اس عمل کا اشخص کو نہ کوئی فائدہ ہوگا اور نہ نقصان، اس پر اسے نہ کوئی اجرملے گا اور نہ ہی کوئی گنا ہوگا۔- منصور نے ابراہیم نخعی سے قول باری : (ولا تمنن تستکثر۔ ) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ” اس نیت سے کچھ نہ دو کہ تمہیں اس سے زائد ملے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہو کیونکہ آپ مکارم اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے جس طرح آپ پر صدقہ حرام تھا۔ حسن سے قول (ولا تمنن تستکثر۔ اور کسی کو اس غرض سے مت دو کہ زیادہ معاوضہ ملے) کہ تفسیر میں منقول ہے کہ ” کہ کثرت سے عمل نہ کرو کہ پھر اس کے ذریعے اپنے رب پر احسان جتلائو۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ وہ لوگوں کے مال میں ملکر تمہارے اموال کو زیادہ کر کے لائے تو دوسرے لوگ تمہارے دیے ہوئے اموال سے زیادہ پھر تمہیں دیں تو اس قسم کا دیا ہوا مال اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور نہ قبول ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نہیں دیا گیا ہے۔- اور جو مساکین وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے مال دو گے تو ایسے لوگوں کے صدقات آخرت میں بڑھتے رہیں گے اور دنیا میں بھی ان کے احوال حفاظت و برکت کی وجہ سے زائد ہوتے رہیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج) ” - اس آیت کا حوالہ سورة البقرۃ کی آیت ٢٧٥ کی تشریح کے ضمن میں بھی دیا گیا ہے۔ دراصل اپنے مستقبل کے لیے بچت کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ پھر ہر شخص نہ صرف اپنی بچت کو سنبھال کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بچائی ہوئی رقم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی رہے۔ قرآن اس بچت کو ” العَفْو “ یعنی قدر زائد ( ) قرار دے کر اسے انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں اللہ کے بینک میں جمع کرانے کی ترغیب دیتا ہے : (وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلِ الْعَفْوَ ط) (البقرۃ : ٢١٩) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجیے کہ (وہ سب خرچ کر دو ) جو ضرورت سے زائد ہے “- انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں ایسے مال سے محتاجوں اور ناداروں کی مدد بھی کی جاسکتی ہے اور اسے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے بھی کام میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کا کم تر درجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرض حسنہ کی شکل میں وقتی طور پر کسی ضرورت مند کی مدد کردی جائے۔ بہر حال اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کے راستے میں خرچ کیا ہوا مال اس کے ہاں محفوظ بھی رہے گا اور بڑھتا بھی رہے گا۔ یعنی آخرت میں اس کا اجر کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا۔ - (وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ) ” - دنیا میں جو لوگ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کی صورت میں اللہ کے راستے میں خرچ کر رہے ہیں انہیں آخرت میں اس کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا کردیا جائے گا ‘ بلکہ اللہ اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے اسے اور بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں اجر موعود کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی۔ - اس آیت میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کا تقابل کر کے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کسی شخص کی بچت کا بہترین مصرف ہے۔ اس میں منافع (اجر وثواب) بہت زیادہ بھی ہے اور دائمی بھی۔ دوسری طرف سود پر رقم دینا کسی بچت کا بد ترین مصرف ہے ‘ جس میں ایک شخص بغیر کوئی محنت کیے اور بغیر کوئی خطرہ مول لیے ایک طے شدہ رقم باقاعدگی سے حاصل کرتا رہتا ہے جبکہ اس کی اصل رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ اس کے بارے میں یہاں فرمایا گیا کہ سود کی شکل میں سرمائے میں بظاہر جو اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اللہ کی نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ صدقات اور سود کے تقابل کے حوالے سے دراصل یہاں دو متضاد ذہنیتوں کا تقابل بھی سامنے آتا ہے۔ ایک اس شخص کی ذہنیت ہے جو اپنے مال سے اللہ کی رضا کا متمنیّ ہے جبکہ دوسرا شخص اللہ کے احکام کی پروا کیے بغیر ہر قیمت پر اپنے سرمائے میں اضافہ چاہتا ہے۔ - یہاں ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ لیں کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس سرمایہ ہے مگر وہ خود محنت یا تجارت وغیرہ نہیں کرسکتا اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے سرمائے میں اضافہ ہوتا رہے اس کے لیے شریعت اسلامی میں مضاربت کا طریقہ ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنی رقم کسی دوسرے شخص کو کاروبار وغیرہ کے لیے دے اور اس سے منافع وغیرہ کی شرائط طے کرلے۔ اب اگر اس کاروبار میں منافع ہوگا تو سرمایہ فراہم کرنے والا شخص اس میں سے شرائط کے مطابق اپنے حصے کا حق دار ہوگا لیکن نقصان کی صورت میں تمام نقصان اسے خود ہی برداشت کرنا ہوگا۔ عامل (محنت کرنے والا) اس نقصان میں حصہ دار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں مزید تفصیل کے لیے فقہ کی کتب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 59 قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی ۔ اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ تو سود یہ سمجھتے ہوئے دیتے ہو کہ جس کو ہم یہ زائد مال دے رہے ہیں اس کی دولت بڑھے گی ، لیکن درحقیقت اللہ کے نزدیک سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ سے ہوتی ہے ۔ آگے چل کر جب مدینہ طیبہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا تو اس پر مزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ: يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ( البقرہ ، آیت 276 ) اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے ( بعد کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران ، آیت 130 ۔ البقرہ ، آیات 275 تا 281 ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربو سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعا حرام کیا گیا ہے ، بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں ا سے زیادہ واپس کرے گا ۔ یا معطی کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے گا ، یا اس کا خوشحال ہوجانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہوگا ۔ یہ ابن عباس ، مجاہد ، ضحاک ، قتادہ ، عکرمہ ، محمد بن کعب القرظی اور شعبی ( رضی اللہ عنہم ) کا قول ہے ۔ اور غالبا یہ تفسیر ان حضرات نے اس بنا پر فرمائی ہے کہ آیت میں اس فعل کا نتیجہ صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس دولت کو کوئی افزائش نصیب نہ ہوگی ، حالانکہ اگر معاملہ اس سود کا ہوتا جسے شریعت نے حرام کیا ہے تو مثبت طور پر فرمایا جاتا کہ اللہ کے ہاں اس پر سخت عذاب دیا جائے گا ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں اس سے مراد وہی معروف ربو ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے ۔ یہ رائے حضرت حسن بصری اور سدی کی ہے اور علامہ آلوسی کا خیال ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے ، کیونکہ عربی زبان میں ربو کا لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی تاویل کو مفسر نیسابوری نے بھی اختیار کیا ہے ۔ ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیر صحیح ہے ، اس لیے کہ معروف معنی کو چھوڑنے کے لیے وہ دلیل کافی نہیں ہے جو اوپر تفسیر اول کے حق میں بیان ہوئی ہے ۔ سورہ روم کا نزول جس زمانے میں ہوا ہے اس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہوا تھا ۔ یہ اعلان اس کے کئی برس بعد ہوا ہے ۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں کسی وقت حرام کرنا ہوتا ہے ، اس کے لیے وہ پہلے ذہنوں کو تیار کرنا شروع کردیتا ہے ۔ شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے ، ( النحل ، آیت 67 ) پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے ( البقرہ 219 ) پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ ( النساء ، 43 ) پھر اس کی قطعی حرمت کا فیصلہ کردیا گیا ۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے جس سے دولت کی افزائش ہوتی ہو ، بلکہ حقیقی افزائش زکوۃ سے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد سود در سود کو منع کیا گیا ( آل عمران ، آیت 130 ) اور سب سے آخر میں بجائے خود سود ہی کی قطعی حرمت کا فیصلہ کردیا گیا ۔ ( البقرہ ، آیت 5 ) سورة الروم حاشیہ نمبر : 60 اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبہ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہی کے ساتھ کوئی شخص راہ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالی اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالی اس کو بڑھا کر احد پہاڑ کے برابر کردیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: واضح رہے کہ سورہ روم کی یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، اور یہ پہلی آیت ہے جس میں سود کی مذمّت کی گئی ہے، اُس وقت تک سود کو واضح لفظوں میں حرام نہیں کیا گیا تھا، لیکن اشارہ فرما دِیا گیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سود کی آمدنی بڑھتی نہیں، یعنی سود لینے والا لیتا تو اِسی ارادے سے ہے کہ اس سے اُس کی دولت بڑھے گی، لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ بڑھتی نہیں ہے، کیونکہ اوّل تو دُنیا میں بھی حرام مال اگرچہ گنتی میں بڑھ جائے، لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی، مال و دولت کا اصل فائدہ تو یہ ہے کہ اِنسان کو اس سے آرام و راحت نصیب ہو، لیکن حرام آمدنی کی گنتی بڑھانے والے بکثرت دُنیا میں بھی پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔ اور انہیں راحت نصیب نہیں ہوتی۔ دوسرے دولت کی یہ بڑھوتری آخرت میں کچھ کام نہیں آتی، اس کے برخلاف صدقات، آخرت میں کام آتے ہیں۔ اسی حقیقت کو سورۃ بقرہ میں (۲:۲۷۶) میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے، اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ واضح رہے کہ اِس آیت میں ’’ربا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مشہور معنیٰ ’’سود کے ہیں‘‘، لیکن اس کے ایک معنیٰ اور ہیں اور وہ یہ کہ کوئی شخص اس نیت سے کسی کو کوئی تحفہ دے کہ وہ اُس کو اِس سے زیادہ قیمتی تحفہ دے گا، مثلا شادی بیاہ کے موقع پر ’’نیوتہ‘‘ کی جو رسم ہوتی ہے، اُس کا یہی مقصد ہوتا ہے،؛ چنانچہ بہت سے مفسرین نے یہاں ’’ربا‘‘ کے یہی معنیٰ مراد لئے ہیں، اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں ’’نیوتہ‘‘ کی رسم کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اِس قسم کا تحفہ جس کا مقصد قیمتی تحفہ حاصل کرنا ہو اس کو سورۂ مدثر (آیت نمبر:۶) میں بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ 19: سورۃ آل عمران (۳:۲۶۱) میں فرمایا گیا ہے کہ صدقے کا ثواب سات سو گنا ملتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ جس کے لئے چاہتے ہیں، مزید اضافہ فرما دیتے ہیں۔