زمین کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مضمر ہے ممکن ہے بر یعنی خشکی سے مراد میدان اور جنگل ہوں اور بحریعنی تری سے مراد شہر اور دیہات ہوں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بر کہتے ہیں خشکی کو اور بحر کہتے ہیں تری کو خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا پیداوار کا نہ ہونا قحط سالیوں کا آنا ۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا جس سے پانی کے جانور اندھے ہوجاتے ہیں ۔ انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کا فساد ہے ۔ بحر سے مراد جزیرے اور بر سے مراد شہر اور بستیاں ہیں ۔ لیکن اول قول زیادہ ظاہر ہے اور اسی کی تائید محمد بن اسحاق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضور نے ایلہ کے بادشاہ سے صلح کی اور اس کا بحریعنی شہر اسی کے نام کردیا پھلوں کا اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان زمین کے بگاڑنے والے ہیں ۔ آسمان وزمین کی اصلاح اللہ کی عبادت واطاعت سے ہے ۔ ابو داؤد میں حدیث ہے کہ زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے ۔ یہ اس لیے کہ حد قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے ۔ اور جب گناہ نہ ہونگے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہونگی ۔ چنانچہ آخر زمانے میں جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلا خنزیر کا قتل صلیب کی شکست جزئیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ پھر جب آپ کے زمانے میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہوجائیں گے یاجوج ماجوج تباہ ہوجائیں گے تو زمین سے کہا جائیے گا کہ اپنی برکتیں لوٹادے اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کرلیں ۔ ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے کو کفایت کرے گا ۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہونگی جیسے جیسے عدل وانصاف مطابق شرع شریف بڑھے گا ویسے ویسے خیر وبرکت بڑھتی چلی جائے گی ۔ اس کے برخلاف فاجر شخص کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر بندے شہر درخت اور جانور سب راحت پالیتے ہیں ۔ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ زیاد کے زمانے میں ایک تھیلی پائی گئی جس میں کجھور کی بڑی گھٹلی جیسے گہیوں کے دانے تھے اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں اگتے تھے جس میں عدل وانصاف کو کام میں لایا جاتا تھا ۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ فساد سے شرک ہے لیکن یہ قول تامل طلب ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ مال اور پیداوار کی اور پھر اناج کی کمی بطور آزمائش کے اور بطور ان کے بعض اعمال کے بدلے کے ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ١٦٨ ) 7- الاعراف:168 ) ہم نے انہیں بھلائیوں برائیوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوٹ جائیں ۔ تم زمین میں چل پھر کر آپ ہی دیکھ لو کہ تم سے پہلے جو مشرک تھے اس کے نتیجے کیا ہوئے؟ رسولوں کی نہ ماننے اللہ کیساتھ کفر کرنے کا کیا وبال ان پر آیا ؟ یہ دیکھو اور عبرت حاصل کرو ۔
4 1 1خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ وبالا ہوجاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ اس لیے اس کا اطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل و خونریزی عام ہوگئی ہے اور ان ارضی و سماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط، کثرت موت، خوف اور سیلاب وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنالیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال و کردار کا رخ برائیوں کی جانب پھرجاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن و سکون ختم اور اس کی جگہ خوف و دہشت، سلب و نہب اور قتل و غارت گری عام ہوجاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں توبہ کرلیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہوجائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار آدمی فوت ہوجاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔
[٤٧] یہاں بر و بحر سے مراد پورا مشرق وسطی بھی ہوسکتا ہے جو ان دنوں روم اور فارس کی جنگوں کی وجہ سے ظلم اور فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اور عرب کا علاقہ بھی۔ کیونکہ اکثر عربی قباول کا پیشہ ہی مار دھاڑ، لوٹ کھسوٹ اور قتل غارت تھا۔ اور اس فساد سے محفوظ اگر کوئی جگہ تھی تو وہ صرف حرم مکہ کی حدود تھیں۔ اور اس ظلم و فساد اور طغیانی کی اصل وجہ یہی تھی کہ وہ لوگ نہ بعث بعدالموت کے قائل تھے اور اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی اور جزاء و سزا کے۔ لہذا ہر شخص اپنے ذاتی اور دنیوی مفادات کی خاطر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتا تھا اور نتیجتاً یہ سرزمین ظلم و جور سے بھر گئی تھی۔- [ ٤٨] یعنی یہ فساد ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ اور یہ ان کے اعمال کا بدلہ تھا۔ بلکہ اللہ کی طرف سے تھوڑا سا بدلہ تھا۔ اور اس تھوڑے سے بدلہ سے عام لوگ سخت پریشان حال تھے اور ان کے لئے زندگی اجیرن بن گئی تھی۔ اور یہ تھوڑی سی سزا اللہ نے انھیں اس لئے دی کہ شاید اب بی وہ غور کرکے اس ظلم و فساد کی اصل وجہ تلاش کرلیں۔ اور اصل دین فطرت کی طرف لوٹ آئیں۔ آخرت کی جوابدہی سے ڈر جائیں اور اللہ کے فرمانبردار بن جائیں۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۔۔ : خشکی سے مراد زمین کے میدان، پہاڑ اور صحرا وغیرہ ہیں اور سمندر سے مراد سمندری جزیرے، ساحلوں پر آباد شہر اور بستیاں اور سمندروں میں سفر کرنے والے جہاز اور کشتیاں ہیں۔ فساد (خرابی) سے مراد ہر آفت اور مصیبت ہے، چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط، بیماری، فصلوں کی تباہی، بدحالی، سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں ہو۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے بحر و بر میں جو فتنہ و فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں، یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں۔ جب سے لوگوں نے توحید اور دین فطرت کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے۔ شرک جیسے قولی اور اعتقادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہے، جو فسق و فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس بات کی تعیین کہ آیت میں ” بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ “ (جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا) سے مراد شرک ہے، اگلی آیت کے ساتھ ہوتی ہے، فرمایا : (قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ ۭ كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِيْنَ ) [ الروم : ٤٢ ] ” کہہ دے زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے، ان کے اکثر مشرک تھے۔ “ ان اقوام کی دوسری خرابیاں، جن کا قرآن نے ذکر فرمایا ہے اور جن کی وجہ سے ان پر عذاب آیا، ان کا اصل بھی شرک تھا، اگر وہ ایک اللہ پر ایمان لاتے تو ہرگز ایسے گناہوں کے اجتماعی طور پر مرتکب نہ ہوتے۔- 3 اس کے برعکس جس معاشرے کی بنیاد اللہ کی توحید اور اس کے احکام و حدود کی اقامت پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیشمار برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (٦٥، ٦٦) اور اعراف (٩٦) ۔- لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا ۔۔ : پوری سزا تو آخرت میں ملے گی، مگر یہ تھوڑے سے عذاب کا نمونہ ہے، تاکہ لوگ شرک اور نافرمانی چھوڑ کر توحید اور فرماں برداری کی راہ اختیار کرلیں۔ دیکھیے سورة سجدہ (٢١) اور توبہ (١٢٦) ۔
خلاصہ تفسیر - (شرک و معصیت ایسی بری چیز ہے کہ) خشکی اور تری (یعنی تمام دنیا) میں لوگوں کے (برے) اعمال کے سبب بلائیں پھیل رہی ہیں (مثلاً قحط و وباء و طوفان) تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعضے اعمال (کی سزا) کا مزہ ان کو چکھا دے تاکہ وہ (اپنے ان اعمال سے) باز آجائیں (جیسا دوسری آیت میں ہے وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ ، اور بعض اعمال کا مطلب یہ ہے کہ اگر سب اعمال پر یہ عقوبتیں مرتب ہوں تو ایک دم زندہ نہ رہیں، کقولہ تعالیٰ وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ ، اسی معنی سے آیت بالا میں وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ فرمایا ہے، یعنی بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں، بعض ہی اعمال کی سزا دیتے ہیں۔ غرض جب اعمال بد مطلقاً سبب وبال ہیں تو شریک و کفر تو سب سے بڑھ کر موجب عذاب ہوگا اور اگر مشرکین کو اس کے ماننے میں تردد ہو تو) آپ (ان سے) فرما دیجئے کہ ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جو (کافر و مشرک) لوگ پہلے ہو گذرے ہیں ان کا اخیر کیسا ہوا ان میں اکثر مشرک ہی تھے (سو دیکھ لو وہ عذاب آسمانی سے کس طرح ہلاک ہوئے جس سے صاف واضح ہوا کہ شرک کا بڑا وبال ہے اور بعضے کفر کی دوسری انواع میں مبتلا تھے، جیسے قوم لوط اور قارون اور جو لوگ مسخ ہو کر بندر اور خنازیر ہوگئے تھے، کیونکہ آیات کی تکذیب اور نہی کی مخالفت کر کے مبتلائے کفر و لعن ہوئے۔ اور شاید شرک کا بالتخصیص ذکر اس لئے ہو کہ کفار مکہ کی خاص اور مشہور حالت یہی تھی اور جب شرک کا موجب وبال ہونا محقق ہوگیا) سو (اے مخاطب) تم اپنا رخ اس دین راست (یعنی توحید اسلامی) کی طرف رکھو قبل اس کے کہ ایسا دن آئے جس کے واسطے پھر خدا کی طرف سے ہٹنا نہ ہوگا (یعنی جیسے دنیا میں خاص عذاب کے وقت کو اللہ تعالیٰ قیامت کے وعدہ پر ہٹانا جاتا ہے، جب وہ موعود دن آجائے گا پھر اس کو نہ ہٹائے گا اور توقف و امہال نہ ہوگا۔ اس جملہ میں شرک کے وبال اخروی کا ذکر ہوگیا جیسا اوپر ظَهَرَ الْفَسَاد الخ اور كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الخ میں وبال دنیوی مذکور تھا اور) اس دن (یہ ہوگا کہ) سب (عمل کرنے والے) لوگ (باعتبار جزاء کے) جدا جدا ہوجائیں گے (اس طور پر کہ) جو شخص کفر کر رہا ہے اس پر تو اس کا (وبال) کفر پڑے گا اور جو نیک عمل کر رہا ہے سو یہ لوگ اپنے (نفع کے) لئے سامان کر رہے ہیں جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے فضل سے (نیک) جزا دے گا جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور اس سے کفار محروم رہیں گے جیسا اوپر فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ سے معلوم ہوا جس کی وجہ یہ ہے کہ) واقعی اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا) بلکہ ان کے کفر پر ان سے ناخوش ہے۔ )- معارف و مسائل - ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ، یعنی خشکی اور دریا میں سارے جہان میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا، نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہوجانا وغیرہ آفات ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسانوں کے گناہ اور اعمال بد ہوتے ہیں جن میں شرک و کفر سب سے زیادہ اشد ہیں، اس کے بعد دوسرے گناہ ہیں۔- اور یہی مضمون دوسری ایک آیت میں اس طرح آیا ہے وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ، یعنی تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے۔ یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں، اگرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے، بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے، بعض بعض گناہوں پر ہی گرفت ہوتی اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔ اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو تو حق تعالیٰ معاف ہی فرما دیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا، بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایا جاتا ہے جیسا کہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا یعنی تاکہ چکھاوے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے برے اعمال کا اور اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اعمال بد اور گناہوں کی وجہ سے جو مصیبت و آفت دنیا میں بھیج دی جاتی ہے وہ بھی غور کرو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہی ہے۔ کیونکہ مقصود اس دنیا کی مصیبت سے یہ ہوتا ہے کہ غافل انسان کو تنبیہ ہوجائے اور وہ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے باز آجائے جو انجام کار اس کے لئے مفید اور بڑی نعمت ہے، جیسا کہ آخر آیت میں فرمایا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ۔- دنیا کی بڑی بڑی آفتیں اور مصائب انسانوں کے گناہوں کے سبب سے آتے ہیں :- اسی لئے بعض علماء نے فرمایا کہ جو انسان کوئی گناہ کرتا ہے وہ ساری دنیا کے انسانوں چوپاویوں اور چرندے و پرندے جانوروں پر ظلم کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے گناہوں کے وبال سے جو بارش کا قحط اور دوسرے مصائب دنیا میں آتے ہیں اس سے سب ہی جان دار متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے قیامت کے روز یہ سب بھی گناہگار انسان کے خلاف دعوی کریں گے۔- اور شقیق زاہد نے فرمایا کہ جو شخص حرام مال کھاتا ہے وہ صرف اس پر ظلم نہیں کرتا جس سے یہ مال ناجائز طور پر حاصل کیا ہے، بلکہ پورے انسانوں پر ظلم کرتا ہے (روح) کیونکہ اول تو ایک کے ظلم سے دوسرے لوگوں میں ظلم کرنے کی رسم پڑتی ہے اور یہ سلسلہ ساری انسانیت کو محیط ہوجاتا ہے۔ دوسرے اس کے ظلم کی وجہ سے دنیا میں آفتیں اور مصائب آتے ہیں جس سے سب ہی انسان متاثر ہوتے ہیں۔- ایک شبہ کا جواب :- احادیث صحیحہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ ارشادات بھی موجود ہیں کہ دنیا مومن کے لئے جیل خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے اور یہ کہ کافر کو اس کے نیک اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں بصورت مال و دولت و صحت دے دیا جاتا ہے اور مومن کے اعمال کا بدلہ آخرت کے لئے محفوظ کردیا جاتا ہے اور یہ کہ مومن کی مثال دنیا میں ایک نازک شاخ کی سی ہے، کہ ہوائیں اس کو کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف جھکا دیتی ہیں کبھی سیدھا کردیتی ہیں یہاں تک کہ اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اور یہ کہ اشد الناس بلاء الانبیآء ثم الامثل فالامثل، یعنی دنیا میں بلائیں سب سے زیادہ انبیاء پر آتی ہیں پھر جو ان کے قریب ہو پھر جو ان کے قریب ہو۔ - یہ تمام احادیث صحیحہ بظاہر اس آیت کے مضمون سے مختلف ہیں اور عام دنیا کے مشاہدات بھی یہی بتلاتے ہیں کہ دنیا میں عام طور پر مومن مسلمان تنگی اور تکلیف میں اور کفار فجار عیش و عشرت میں رہتے ہیں۔ اگر آیت مذکورہ کے مطابق دنیا کے مصائب اور تکلیفیں گناہوں کے سبب سے ہوتیں تو معاملہ برعکس ہوتا۔- اس کا جواب یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں گناہوں کو مصائب کا سبب ضرور بتلایا ہے مگر علت تامہ نہیں فرمایا کہ جب کسی پر کوئی مصیبت آئے تو گناہ ہی کے سبب سے ہوگی۔ جس پر کوئی مصیبت آئے اس کا گناہگار ہونا ضروری ہو بلکہ عام اسباب کا جو دنیا میں دستور ہے کہ سبب واقع ہونے کے بعد اس کا سبب اکثر واقع ہوجاتا ہے اور کبھی کوئی دوسرا سبب اس کے اثر کے ظاہر ہونے سے مانع ہوجاتا ہے تو اس سبب کا اثر ظاہر نہیں ہوتا، جیسے کوئی مسہل یا ملین دواء کے متعلق یہ کہے کہ اس سے اسہال ہوں گے، یہ اپنی جگہ صحیح ہے، مگر بعض اوقات کسی دوسری دواء غذاء یا ہوا وغیرہ کے اثر سے اسہال نہیں ہوتے، جو دوائیں بخار اتارنے کی ہیں بعض اوقات ایسے عوارض پیش آجاتے ہیں کہ ان دواؤں کا اثر ظاہر نہیں ہوتا، خواب آور گولیاں کھا کر بھی نیند نہیں آتی۔ جس کی ہزاروں مثالیں دنیا میں ہر وقت مشاہدہ کی جاتی ہیں۔- اس لئے حاصل آیت کا یہ ہوا کہ اصل خاصہ گناہوں کا یہ ہے کہ ان سے مصائب و آفات آئیں، لیکن بعض اوقات دوسرے کچھ اسباب اس کے منافی جمع ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے مصائب کا ظہور نہیں ہوتا، اور بعض صورتوں میں بغیر کسی گناہ کے کوئی آفت و مصیبت آجانا بھی اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ بغیر گناہ کے کوئی تکلیف و مصیبت کسی کو پیش نہیں آتی، بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو کوئی مصیبت و آفت کسی دوسرے سبب سے پیش آجائے جیسے انبیاء و اولیاء کو جو مصیبتیں اور تکلیفیں پیش آتی ہیں ان کا سبب کوئی گناہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی آزمائش اور آزمائش کے ذریعہ ان کے درجات کی ترقی اس کا سبب ہوتی ہے۔- اس کے علاوہ قرآن کریم نے جن آفات و مصائب کو گناہوں کے سبب سے قرار دیا ہے اس سے مراد وہ آفات و مصائب ہیں جو پوری دنیا پر یا پورے شہر یا بستی پر عام ہوجائیں، عام انسان اور جانور ان کے اثر سے نہ بچ سکیں۔ ایسی مصائب و آفات کا سبب عموماً لوگوں میں گناہوں کی کثرت خصوصاً علانیہ گناہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ شخصی اور انفرادی تکلیف و مصیبت میں یہ ضابطہ نہیں بلکہ وہ کبھی کسی انسان کی آزمائش کرنے کے لئے بھی بھیجی جاتی ہے اور جب وہ اس آزمائش میں پورا اترتا ہے تو اس کے درجات آخرت بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مصیبت درحقیقت اس کے لئے رحمت و نعمت ہوتی ہے۔ اس لئے انفرادی طور پر کسی شخص کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہت گناہگار ہے۔ اسی طرح کسی کو خوش عیش بعافیت دیکھ کر یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ بڑا نیک صالح بزرگ ہے۔ البتہ عام مصائب و آفات جیسے قحط، طوفان، وبائی امراض، گرانی اشیاء ضرورت، چیزوں کی برکت مٹ جانا وغیرہ اس کا اکثر اور بڑا سبب لوگوں کے علانیہ گناہ اور سرکشی ہوتی ہے۔- فائدہ : حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا کہ اس دنیا میں خیر و شر یا مصیبت و راحت، مشقت و سہولت کے اسباب دو طرح کے ہیں۔ ایک ظاہری، دوسرے باطنی، ظاہری اسباب تو وہی مادی اسباب ہیں جو عام دنیا کی نظر میں اسباب سمجھے جاتے ہیں اور باطنی اسباب انسانی اعمال اور ان کی بناء پر فرشتوں کی امداد و نصرت یا ان کی لعنت و نفرت ہیں۔ جیسے دنیا میں بارش کے اسباب اہل فلسفہ و اہل تجربہ کی نظر میں سمندر سے اٹھنے والے بخارات (مان سون) اور پھر اوپر کی ہوا میں پہنچ کر ان کا منجمد ہونا، پھر آفتاب کی شعاعوں سے پگھل کر برس جانا ہیں، مگر روایات حدیث میں ان چیزوں کو فرشتوں کا عمل بتلایا گیا ہے۔ درحقیقت ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، ایک چیز کے اسباب متعدد ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ ظاہری اسباب یہی ہوں اور باطنی سبب فرشتوں کا تصرف ہو یہ دونوں طرح کے اسباب جمع ہوجائیں تو بارش امید اور ضرورت کے مطابق ہو اور جہاں یہ دونوں اسباب جمع نہ ہوں وہاں بارش کے وقوع میں اختلال رہے۔- حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ اس طرح دنیا کے مصائب و آفات کے کچھ اسباب طبعیہ مادیہ ہیں جو نیک و بد کو نہیں پہچانتے۔ آگ جلانے کے لئے ہے وہ بلا امتیاز متقی اور فاجر کے سب کو جلائے ہی گی بجز اس کے کسی خاص فرمان کے ذریعہ اس کو اس عمل سے روک دیا جائے، جیسے نار نمرود ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے برد وسلام بنادی گئی۔ پانی وزنی چیزوں کو غرق کرنے کے لئے ہے وہ یہی کام کرے گا اسی طرح دوسرے عناصر جو خاص خاص کاموں کے لئے ہیں وہ اپنی مفوّضہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں، یہ اسباب طبعیہ کسی انسان کے لئے راحت و سہولت کے سامان بھی فراہم کرتے ہیں اور کسی کے لئے مصیبت و آفت بھی بن جاتے ہیں۔- انہی اسباب ظاہرہ کی طرح مصائب و آفات اور راحت و سہولت میں موثر انسان کے اپنے اعمال خیر و شر بھی ہیں۔ جب دونوں ظاہری اور باطنی اسباب کسی فرد یا جماعت کی راحت و آرام اور سہولت و خوش عیشی پر جمع ہوجاتے ہیں تو اس فرد یا جماعت کو دنیا میں عیش و راحت مکمل طور پر حاصل ہوتی ہے جس کا مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل جس فرد یا جماعت کے لئے اسباب طبعیہ مادیہ بھی مصیبت و آفت لا رہے ہوں اور اس کے اعمال بھی مصیبت و آفت کے مقتضی ہوں تو اس کی مصیبت و آفت بھی مکمل ہوتی ہے جس کا عام مشاہدہ ہوتا ہے۔- اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسباب طبعیہ مادیہ تو مصیبت و آفت پر مجتمع ہیں، مگر اس کے اعمال حسنہ باطنی طور پر راحت و سکون کے مقتضی ہیں ایسی صورت میں یہ اسباب باطنہ اس کی ظاہری آفتوں کو دور کرنے یا کم کرنے میں صرف ہوجاتے ہیں اس کی عیش و راحت مکمل طور پر سامنے نہیں آتی۔ اسی طرح اس کے برعکس بعض اوقات اسباب مادیہ عیش و آرام کے مقتضی ہوتے ہیں مگر اسباب باطنیہ یعنی اس کے اعمال بری ہونے کی وجہ سے ان کا تقاضا مصیبت و آفت لانے کا ہوتا ہے، تو ان متضاد تقاضوں کی وجہ سے نہ عیش و راحت مکمل ہوتی ہے اور نہ بہت زیادہ مصیبت و آفت ان کو گھیرتی ہے۔- اسی طرح بعض اوقات مادی اسباب طبعیہ کو کسی بڑے درجہ کے نبی و رسول اور ولی و مقبول کے لئے ناسازگار بنا کر اس کی آزمائش و امتحان کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس تفصیل کو سمجھ لیا جائے تو آیات قرآن اور مذکورہ احادیث کا باہم ارتباط اور اتفاق واضح ہوجاتا ہے، تعارض و تضاد کے شبہات رفع ہوجاتے ہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم - مصائب کے وقت ابتلاء و امتحان یا سزا و عذاب میں فرق :- مصائب و آفات کے ذریعہ جن لوگوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دی جاتی ہے اور جن نیک لوگوں کو رفع درجات یا کفارہ سیئات کے لئے بطور امتحان مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے، ظاہری صورت ابتلاء کی ایک ہی سی ہوتی ہے، ان دونوں میں فرق کیسے پہچانا جائے ؟ اس کی پہچان حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ لکھی ہے کہ جو نیک لوگ بطور ابتلاء و امتحان کے گرفتار مصائب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب کو مطمئن کردیتے ہیں اور وہ ان مصائب و آفات پر ایسے ہی راضی ہوتے ہیں جیسے بیمار کڑوی دواء یا آپریشن پر باوجود تکلیف محسوس کرنے کے راضی ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے مال بھی خرچ کرتا ہے۔ سفارشیں مہیا کرتا ہے۔ بخلاف ان گنہگاروں کے جو بطور سزا مبتلا کئے جاتے ہیں ان کی پریشانی اور جزع و فزع کی حد نہیں رہتی، بعض اوقات ناشکری بلکہ کلمات کفر تک پہنچ جاتے ہیں۔- سیدی حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے ایک پہچان یہ بتلائی کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اپنے گناہوں پر تنبہ اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہوجائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ قہر نہیں بلکہ مہر اور عنایت ہے اور جس کو یہ صورت نہ بنے بلکہ جزع و فزع اور معاصی میں اور زیادہ انہماک بڑھ جائے وہ علامت قہر الہی اور عذاب کی ہے۔ واللہ اعلم
رکوع نمبر 8- ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ ٤١- ظَاهَرَ- وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ- [ الكهف 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی:- وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18]- ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- برَّ- البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر :- أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل .- والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته .- ( ب رر)- البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔.- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
خشکی اور تری میں لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے بلائیں پھیل رہی ہیں خشکی کے علاقے میں تو ان بلاؤں کا سبب وہ قابیل کا اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنا ہے اور تری میں وہ جلندن کا لوگوں کی کشتیوں کا غصب کرنا ہے۔- یا یہ کہ قحط سالی جانوروں کا مرجانا پیداوار کا کم ہونا خواہ خشکی ہو یا تری میدان ہو یا پہاڑ جنگل ہو یا دیہات و شہر ہوں ہر جگہ یہ تمام چیزیں لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے پھیل رہی ہیں تاکہ وہ اپنے گناہوں سے باز آجائیں اور یہ تکالیف ان سے دور ہوجائیں۔
آیت ٤١ (ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ ) ” - یہ آیت جس شان سے آج دنیا کے افق پر نمایاں ہوئی ہے شاید اپنے نزول کے وقت اس کی یہ کیفیت نہیں تھی۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے نہ تو دنیا کی وسعت کے بارے میں لوگوں کو صحیح اندازہ تھا اور نہ ہی ” فساد “ کی اقسام میں وہ تنوع سامنے آیا تھا جس کا نظارہ آج کی دنیا کر رہی ہے۔ آج پوری دنیا میں جس جس نوعیت کے فسادات رونما ہو رہے ہیں ان کی تفصیلات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آج چونکہ پوری دنیا سمٹ کر ” گلوبل ویلج “ کی صورت اختیار کرچکی ہے اس لیے دنیا کے کسی بھی گوشے میں رونما ہونے والے ” فساد “ کے اثرات ہر انسان کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ چناچہ ان حالات میں آج اس آیت کا مفہوم واضح تر ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔- (لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا) ” - اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے کہ وہ انسانوں کے سب اعمال کی سزا دنیا میں نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہو تو روئے زمین پر کوئی انسان بھی زندہ نہ بچے : (وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج) ( فاطر : ٤٥) ” اور اگر اللہ گرفت کرے لوگوں کی ان کے اعمال کے سبب تو اس (زمین) کی پشت پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے ‘ لیکن وہ ڈھیل دیتا رہتا ہے ان کو ایک مقررہ مدت تک “۔ اس اصول کے تحت اگرچہ اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی کی حد تک انسانوں کی زیادہ تر نافرمانیوں کو نظر انداز کرکے ان کی سزا کو مؤخر کرتا رہتا ہے لیکن بعض گناہوں یا جرائم کی گرفت وہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور اس گرفت کا مقصد یہ ہوتا ہے :- (لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ) ” - کہ شاید اس سے کچھ لوگوں کو ہوش آجائے اور وہ توبہ کر کے اپنی روش تبدیل کرلیں۔ آج دنیا بھر کے مسلمان جس ذلت و خواری کو اپنا مقدر سمجھے بیٹھے ہیں شاید ایسی کسی گرفت سے انہیں بھی غور کرنے کی توفیق مل جائے کہ : - ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند - گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں (غالبؔ )- شاید ایسی کسی ٹھوکر سے وہ جاگ جائیں اور انہیں اللہ کے اس وعدے پر غور و خوض کرنے کی فرصت میسر آجائے : (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) ( آل عمران) ” اور تم لوگ ہی سر بلند ہو گے اگر تم (حقیقی) مؤمن ہو گے “۔ اور اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ ان کے تمام مسائل کا سبب ایمان حقیقی کا فقدان ہے۔ اور شاید اس طرح انہیں قرآن سے براہ راست ہم کلام ہونے کا بھی موقع مل جائے اور خود قرآن انہیں ان کی ذلت و خواری کی وجہ بتادے کہ تم اس حالت کو اس لیے پہنچے ہو کہ تم نے اپنے دین کے حصے بخرے کردیے ہیں ‘ تم دین کے صرف ان احکام پر عمل کرتے ہو جو تمہیں پسند ہیں اور جو احکام تمہاری نجی اور معاشرتی زندگی کے معمول سے مطابقت نہیں رکھتے انہیں نظر انداز کردیتے ہو : (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ الاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ( البقرۃ) ” تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور دوسرے کو نہیں مانتے ؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میں سے سوائے دنیا کی زندگی کی ذلت و رسوائی کے ‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف ‘ اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو “۔ چناچہ موجودہ حالات کے تناظر میں ہم میں سے ہر ایک کو اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک بڑے عذاب سے پہلے جو مہلت ہمیں دستیاب ہے اس سے فائدہ اٹھا لیں اور توبہ کر کے اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں۔ - یہاں پر زیر مطالعہ چار سورتوں ( العنکبوت ‘ الروم ‘ لقمان اور السجدۃ) کے ذیلی گروپ کے بارے میں ایک اہم بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ مضامین کی خاص مشابہت کے اعتبار سے یہ سورتیں مزید دو جوڑوں پر مشتمل ہیں۔ چناچہ اس نقطہ نظر سے سورة العنکبوت کی مناسبت سورة لقمان کے ساتھ ہے جبکہ سورة الروم کے مضامین سورة السجدۃ کے مضامین سے مطابقت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر اس سورت کی یہ آیت (آیت ٤١) اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة السجدۃ کی آیت ٢١ کے ساتھ خصوصی مطابقت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ سورة الروم کی ٦٠ آیات ہیں جبکہ سورة السجدۃ کی ٣٠ آیات ہیں۔ چناچہ آیات کی تعداد کے لحاظ سے جو جگہ سورة الروم کی ساٹھ آیات کے اندر اس کی آیت ٤١ کی ہے تقریباً وہی جگہ سورة السجدۃ کی تیس آیات کے اندر اس کی آیت ٢١ کو حاصل ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں آیات کی باہمی مطابقت و مشابہت معنی خیز ہے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 64 یہ پھر اس جنگ کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت روم و ایران کے درمیان برپا تھی جس کی آگ نے پورے شرق اوسط کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے مراد وہ فسق و فجور اور ظلم و جور ہے جو شرک یا دہریت کا عقیدہ اختیار کرنے اور آخرت کو نظر انداز کردینے سے لازما انسانی اخلاق و کردار میں رونما ہوتا ہے ۔ شاید کہ وہ باز آئیں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی آخرت کی سزا سے پہلے اس دنیا میں انسانوں کو ان کے تمام اعمال کا نہیں ، بلکہ بعض اعمال کا برا نتیجہ اس لیے دکھاتا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں اور اپنے تخیلات کی غلطی کو محسوس کر کے اس عقیدہ صالحہ کی طرف رجوع کریں جو انبیاء علیہم السلام ہمیشہ سے انسان کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں ، جس کو اختیار کرنے کے سوا انسانی اعمال کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے کی کوئی دوسری صورت نہیں ہے ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو ، التوبہ ، آیت 126 ۔ الرعد آیت 31 ۔ السجدہ 21 ۔ الطور 47 ۔
20: آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں، اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہئیے۔