4 7 1یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح ہم نے آپ کو رسول بنا کر آپ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح آپ سے پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے، ان کے ساتھ دلائل اور معجزات بھی تھے، لیکن قوموں نے ان کی تکذیب کی، ان پر ایمان نہیں لائے بالآخر ان کے اس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پر ہم نے انھیں اپنی سزا کا نشانہ بنایا اور اہل ایمان کی تائید و نصرت کی جو ہم پر لازم ہے یہ گویا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار و مشرکین کی روش تکذیب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے۔ نیز کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو گذشتہ قوموں کا ہوچکا ہے۔ کیونکہ اللہ کی مدد تو بالآخر مومنوں ہی کو حاصل ہوگی، جس میں پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔ حقا کان کی خبر ہے جو مقدم ہے نصر المومنین اس کا اسم ہے۔
[٥٥] وہ روشن دلیلیں کیا تھیں ؟ وہ اللہ کی کتاب تھی، رسولوں کی اپنی پاکیزہ سیرت تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی نبوت کے طور پر پیش کیا۔ پھر ان نبیوں نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جو احکام الٰہی کا چلتا پھرتا عملی نمونہ تھا۔ اللہ کی کتاب میں اللہ کی ہر سو بکھری ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کی دعوت دی گئی تھی۔ کتاب کی آیات کائناتی آیات کی تائید کرتی تھیں اور کائناتی آیات کتاب کی آیات کی تائید کرتی تھیں۔ یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک دوسری تائید و تصدیق کرتی تھیں۔ پھر بھی لوگ اس نبی پر ایمان نہ لائے اور اکڑ گئے۔ الٹا ایمان لانے والوں ہر ستم ڈھانا شروع کردیئے۔ پھر جب ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی تو ہم نے ایمانداروں کو تو بچا لیا اور انھیں بچا لینا ہی ہماری ذمہ داری بھی تھی۔ اور مجرم لوگوں کو تباہ کر ڈالا۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قیامت برپا ہونے کے دلائل سن کر بھی کفار ایمان نہ لائے اور اپنی ضد ہی پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی کے لیے فرمایا کہ آپ پہلے شخص نہیں جسے جھٹلایا گیا ہو، بلکہ آپ سے پہلے ہم نے بہت سے رسول بھیجے جو اپنی اقوام کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے، جو وحی الٰہی کی آیات بھی تھیں اور پیغمبر کو ملنے والے معجزے بھی، مگر کفار اپنے جرائم پر اڑے رہے تو ہم نے ان مجرموں سے انتقام لیا اور مومنوں کی نصرت فرمائی اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر ہمیشہ سے لازم رہا ہے۔ (کَان استمرار کے لیے ہے) ” المومنین “ میں پیغمبر، ان کے صحابہ اور تمام مومنین شامل ہیں۔
معارف و مسائل - فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا ۭ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ، ہم نے مجرموں کافروں سے انتقام لے لیا اور ہمارے ذمہ تھا کہ ہم مومنین کی مدد کرتے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومنین کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ اس کا تقاضا بظاہر یہ تھا کہ مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں کبھی شکست نہ ہو، حالانکہ بہت سے واقعات اس کے خلاف بھی ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا جواب خود اسی آیت میں موجود ہے کہ مومنین سے مراد وہ مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے کفار سے جنگ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ہی انتقام اللہ تعالیٰ مجرمین سے لیتے ہیں اور ان کو غالب کرتے ہیں، جہاں کہیں اس کے خلاف کوئی صورت پیش آتی ہے وہاں عموماً مجاہدین کی کوئی لغزش ان کی شکست کا سبب بنتی ہے، جیسے غزوہ احد کے متعلق خود قرآن کریم میں ہے اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا ” یعنی شیطان نے ان لوگوں کو لغزش دے دی، ان کے بعض اعمال کی غلطی کے سبب، اور ایسے حالات میں بھی انجام کار اللہ تعالیٰ پھر انہی کو غلبہ اور فتح عطا فرما دیتے ہیں جبکہ ان کو اپنی غلطی پر تنبہ ہوجائے جیسا غزوہ احد میں ہوا اور جو لوگ محض اپنا نام مومن مسلمان رکھ لیں، احکام خداوندی سے غفلت و سرکشی کے عادی ہوں اور غلبہ کفار کے وقت بھی اپنے گناہوں سے تائب نہ ہوں وہ اس وعدہ میں شامل نہیں، وہ نصرت الہیہ کے مستحق نہیں ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بغیر کسی استحقاق کے بھی نصرت و غلبہ عطا فرما دیتے ہیں، اس کی امید رکھنا اور اس سے دعا مانگنا ہر حال میں مفید ہی مفید ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ فَجَــاۗءُوْہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا ٠ ۭ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ٤٧- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ «2» : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
اور ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر ان کی قوموں کے پاس بھیجے جو ان کے پاس اوامرو نواہی اور دلائل لے کر آئے مگر بعض ان میں سے ایمان نہیں لائے سو ہم نے مشرکین سے بذریعہ عذاب انتقام لیا اور اہل ایمان کو رسولوں کے ساتھ بچا لینا اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کردینا ہمارے ذمہ تھا۔
(وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” - مثلاً حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں کو سیلاب کی آفت سے بچالیا گیا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ساتھی بھی تباہی سے محفوظ رہے اور اسی طرح حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے لوگ بھی اللہ کی مدد سے عذاب کی زد میں آنے سے بچ گئے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 71 یعنی ایک قسم کی نشانیاں تو وہ ہیں جو کائنات فطرت میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جن سے انسان کو اپنی زندگی میں ہر آن سابقہ پیش آنا ہے ، جن میں سے ایک ہواؤں کی گردش کا یہ نظام ہے جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ اور دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو انبیاء علیہم السلام معجزات کی صورت میں ، کلام الہی کی صورت میں ، اپنی غیر معمولی پاکیزہ سیرت کی شکل میں ، اور انسانی معاشرے پر اپنی حیات بخش تاثیرات کی شکل میں لے کر آئے ۔ یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں ، اور وہ یہ ہے کہ جس توحید کی تعلیم انبیاء دے رہے ہیں وہی برحق ہے ۔ ان میں سے ہر نشانی دوسری کی مؤید ہے ۔ کائنات کی نشانیاں انبیاء کے بیان کی صداقت پر شہادت دیتی ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئٰ نشانیاں اس حقیقت کو کھولتی ہیں جس کی طرف کائنات کی نشانیاں اشارے کر رہی ہیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 72 یعنی جو لوگ ان دونوں نشانیوں کی طرف سے اندھے بن کر توجہ سے انکار پر جمے رہے اور خدا سے بغاوت ہی کیے چلے گئے ۔