مسئلہ سماع موتی باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ جس طرح یہ تیری قدرت سے خارج ہے کہ مردوں کو جو قبروں میں ہوں تو اپنی آواز سناسکے ۔ اور جس طرح یہ ناممکن ہے کہ بہرے شخص کو جبکہ وہ پیٹھ پھیرے منہ موڑے جارہا ہو تو اپنی بات سناسکے ۔ اسی طرح سے جو حق سے اندھے ہیں تو ان کی رہبری ہدایت کی طرف نہیں کرسکتا ۔ ہاں اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے جب وہ چاہے مردوں کو زندوں کو آواز سناسکتا ہے ۔ ہدایت ضلالت اسکی طرف سے ہے ۔ تو صرف انہیں سناسکتا ہے جو باایمان ہوں اور اللہ کے سامنے جھکنے والے اس کے فرمانبردار ہوں ۔ یہ لوگ حق کو سنتے ہیں اور مانتے بھی ہیں یہ تو حالت مسلمان کی ہوئی اور اس سے پہلے جو حالت بیان ہوئی ہے وہ کافر کی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ ۭ وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ 36۬ ) 6- الانعام:36 ) تیری پکار وہی قبول کریں گے جو کان دھر کر سنیں گے مردوں کو اللہ تعالیٰ زندہ کرکے اٹھائے گا پھر سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین سے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے تھے اور بدر کی کھائیوں میں ان کی لاشیں پھینک دی گئی تھی ان کی موت کے تین دن بعد ان سے خطاب کرکے انہیں ڈانٹا اور غیرت دلائی ۔ حضرت عمر نے یہ دیکھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے خطاب کرتے ہیں جو مر کر مردہ ہوگئے ، تو آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم بھی میری اس بات کو جو میں انہیں کہہ رہا ہوں اتنا نہیں سنتے جتنا یہ سن رہے ہیں ۔ ہاں وہ جواب نہیں دے سکتے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس واقعہ کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی سن کر فرمایا کہ آپ نے یوں فرمایا کہ وہ اب بخوبی جانتے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ حق ہے پھر آپ نے مردوں کے نہ سن سکنے پر اسی آیت سے استدالال کیا کہ آیت ( اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ 80 ) 27- النمل:80 ) حضرت قتادۃ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا تھا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات انہوں نے سن لی تاکہ انہیں پوری ندامت اور کافی شرم ساری ہو ۔ لیکن علماء کے نزدیک حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بالکل صحیح ہے کیونکہ اس کے بہت سے شواہد ہیں ۔ ابن عبدالبر نے ابن عباس سے مرفوعا ایک روایت صحت کرکے وارد کی ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر کے پاس گذرتا ہے جسے یہ دنیا میں پہچانتا تھا اور اسے سلام کرتا ہے تو اللہ اسکی روح لوٹادیتا ہے یہاں تک کہ وہ جواب دے ۔
5 2 1یعنی جس طرح مردے فہم شعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ کی دعوت کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ 5 2 2یعنی آپ کا وعظ و نصیحت ان کے لئے بےاثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ 5 2 3یہ ان کے اعراض کی مذید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل ودماغ میں سما سکتی ہے۔
فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ خوش گوار ہواؤں، بارش، بحری جہازوں اور توحیدِ الٰہی پر دلالت کرنے والی دوسری بیشمار نشانیوں کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ غم زدہ نہ ہوں، کیونکہ آپ زندوں کو سنا سکتے ہیں مردوں کو نہیں اور کان والوں کو سنا سکتے ہیں بہروں کو نہیں، جب کہ کفر و عناد پر اڑے ہوئے یہ لوگ زندہ نہیں حقیقت میں مردہ ہیں اور کان رکھنے والے نہیں بلکہ ایسے بہرے ہیں جو پیٹھ دے کر جا رہے ہوں، جنھیں کسی صورت بات پہنچائی جا ہی نہ سکتی ہو، کیونکہ اگر وہ دیکھ رہے ہوتے تو شاید دیکھ کر ہی سمجھ جاتے، مگر جب وہ سماعت سے مرحوم بھی ہیں اور پیٹھ دے کر بھی جارہے ہیں تو آپ ان کو کیسے سنائیں گے ؟- 3 اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلندی اور بلاغت کو تو کسی کا کلام چھو بھی نہیں سکتا، مگر انسانی حد تک ایک شاعر نے یہ مفہوم اچھا ادا کیا ہے - لَقَدْ أَسْمَعْتَ لَوْ أَسْمَعْتَ حَیًّا - وَ لَوْ نَارًا نَفَخْتَ بِھَا أَضَاءَتْ- وَ لٰکِنْ لَا حَیَاۃَ لِمَنْ تُنَادِيْ- وَ لٰکِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي الرَّمَادِ- ” تم نے اپنی بات یقیناً سنا دی اگر تو کسی زندہ کو آواز دیتا، مگر جسے تو آواز دے رہا ہے اس میں زندگی ہی نہیں۔ اور اگر کوئی معمولی سی آگ بھی ہوتی جس میں تو پھونک مارتا تو وہ روشن ہوجاتی، مگر تو تو راکھ میں پھونکیں مار رہا ہے۔ “- 3 اس میں شک نہیں کہ اس آیت میں مردوں اور بہروں سے مراد ایمان نہ لانے والے کافر ہیں، مگر یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فوت شدہ مردے زندہ لوگوں کی بات نہیں سنتے، کیونکہ اگر مردے سنتے ہوں تو ایمان نہ لانے والوں کو مردوں کے ساتھ تشبیہ کس چیز میں دی جا رہی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ مردے نہیں سنتے اور یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ہاں وہ دو مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں، ایک بدر میں کفار کے مقتولین سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطاب جو انھیں کنویں میں پھینکنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا (دیکھیے بخاری : ٣٩٧٦) اور دوسرا میت کا قبر میں دفن کیے جانے کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سننا۔ (دیکھیے بخاری : ١٣٣٨)
فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى، اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ رہا یہ معاملہ کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت ہے یا نہیں اور عام مردے زندہ کا کلام سنتے ہیں یا نہیں ؟ اس مسئلہ کی مختصر تحقیق معارف القرآن سورة نمل کی تفسیر میں گذر چکی ہے، اور مکمل تحقیق احقر کے مستقل رسالہ بزبان عربی میں ہے جس کا نام " تکمیل الحبور بسماع اہل القبور " ہے اور جو احکام القرآن بزبان عربی کے حزب خامس کا جز ہو کر شائع ہوچکا ہے۔
فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ ٥٢- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی:- صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔
آپ حق و ہدایت کی آواز ایسے لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے جو مردوں کی طرح ہیں اور بہروں کو بھی نہیں سنا سکتے خصوصا جبکہ حق و ہدایت سے منہ پھیر کر ہی چل دیں۔
آیت ٥٢ (فَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ) ” - اگر کوئی بہراشخص آپ کے سامنے ہو تو پھر بھی امکان ہے کہ آپ اسے اشاروں کنایوں سے کسی حد تک اپنی بات سمجھا لیں گے لیکن اگر وہ آپ سے منہ پھیر کر دوسری سمت چلا جا رہا ہو تو آپ کسی طور پر بھی اسے اپنا مدعا نہیں سمجھا سکتے۔ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک تو یہ لوگ سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مزید یہ کہ وہ آپ کی بات سننا چاہتے بھی نہیں۔ چناچہ ان تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے ابلاغ کا کوئی امکان نہیں۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 76 یہاں مردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر مر چکے ہیں ، جن کے اندر اخلاقی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی ہے ، جن کی بندگی نفس اور ضد اور ہٹ دھرمی نے اس صلاحیت ہی کا خاتمہ کردیا ہے جو آدمی کو حق بات سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل بناتی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 77 بہروں سے مراد وہ لوگ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دلوں پر ایسے قفل چڑھا رکھے ہیں کہ سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہیں سنتے ۔ پھر جب ایسے لوگ یہ کوشش بھی کریں کہ دعوت حق کی آواز سرے سے ان کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے ، اور داعی کی شکل دیکھتے ہی دور بھاگنا شروع کردیں تو ظاہر ہے کہ کوئی انہیں کیا سنائے اور کیسے سنائے؟