Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

سُوْ رَ ۃُ لُقْمٰنَ31سورت مکی ہے اس میں 34 آیات اور 4 رکوع ہیں

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الۗمّۗ ۝ۚتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یونس کی پہلی آیت کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - الم (اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو اس سورة یا قرآن میں مذکور ہیں) آیتیں ہیں ایک پر حکمت کتاب (یعنی قرآن) کی جو کہ ہدایت اور رحمت (کا سبب) ہے، نیک کاروں کے لئے جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ آخرت کا پورا یقین رکھتے ہیں (سو) یہ لوگ (اس قرآن کے اعتقاد اور عمل کی بدولت) اپنے رب کے سیدھے راستہ پر ہیں اور یہی لوگ (اس ہدایت کی بدولت) فلاح پانے والے ہیں (پس قرآن اس طرح ان کے لئے ہدایت اور رحمت کا جس کا اثر فلاح ہے سبب ہوگیا، پس بعضے آدمی تو ایسے ہیں جیسا بیان کیا گیا) اور (برخلاف ان کے) بعض آدمی ایسا (بھی) ہے جو (قرآن سے اعراض کر کے) ان باتوں کا خریدار بنتا ہے (یعنی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے) جو (اللہ سے) غافل کرنے والی ہیں (سو اول تو لہو کا اختیار کرنا جب کہ اس کے ساتھ آیات آلہیہ سے اعراض بھی ہو خود ہی کفر اور ضلال ہے، پھر خاص کر جب کہ اس کو اس غرض سے اختیار کیا جائے) تاکہ (اس کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ (یعنی دین حق سے) بےسمجھے بوجھے گمراہ کرے اور (اسی گمراہ کرنے کے ساتھ) اس (راہ حق) کی ہنسی اڑا دے (تا کہ دوسروں کے دل سے بالکل اس کی وقعت اور تاثیر نکل جاوے، تب تو کفر بر کفر اور ضلال کے ساتھ اضلال بھی ہے اور) ایسے لوگوں کیلئے (آخرت میں) ذلت کا عذاب (ہونے والا) ہے (جیسا کہ ان کے اضداد کے لئے فلاح کا ہونا معلوم ہوا) اور (اس شخص مذکور کے اعراض کی یہ حالت ہے کہ) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ شخص تکبر کرتا ہوا (ایسی بےالتفاتی سے) منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہیں، جیسے اس کے کانوں میں ثقل ہے (یعنی جیسے بہرا ہے) سو اس (شخص) کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے (یہ تو اعراض کرنے والے کی سزا کا بیان ہوا، آگے اہل ہدیٰ کی جزا کا بیان ہے جو کہ فلاح موعود کی تفصیل ہے، یعنی) البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کے لئے عیش کی جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ نے سچا وعدہ فرمایا ہے اور وہ زبردست حکمت والا ہے (پس کمال قدرت سے وعدہ اور وعید کو واقع کرسکتا ہے اور حکمت سے اس کو حسب وعدہ واقع کرے گا)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 10- سورة لقمان - بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ الۗمّۗ۝ ١ۚتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۝ ٢ۙ- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١ تا ٤) الم اس کے معنی سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ ہی جاننے والا ہے یا یہ کہ تاکیدا یہ ایک قسم کھائی گئی ہے۔ یہ سورت اس قرآن حکیم کی آیات ہیں جو حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو واضح طور پر بیان کرنے والی اور گمراہی سے ہدایت اور عذاب سے رحمت کا سبب ہے ان با اخلاص موحدین کے لیے جو پانچوں نمازوں کے وضو رکوع و سجود اور تمام واجبات کی رعایت رکھتے ہوئے پابندی کرتے ہیں اور اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ آخرت کا پورا یقین رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

سورة البقرۃ کی پہلی آیت بھی انہی تین حروف پر مشتمل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani