3 0 1یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے محتاج ہیں کیونکہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے (ابن کثیر) 3 0 2اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبہ اور بڑائی کے سامنے ہر چیز حقیر اور پست ہے۔
[٤٠] یعنی اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی دلیل تو یہ ہے کہ اس نے رات اور دن کا نظام قائم کیا اور یہ نظام اس قدر پیچیدہ ہے جس کے مطالعہ سے از خود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایسا نظام کوئی کمال درجے کی مقتدر اور حکیم ہستی ہی قائم کرسکتی ہے اور سورج اور چاند بھی اسی نظام کا ایک حصہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کو لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے اور انھیں پکارتے ہیں۔ انہوں نے کیا بنایا ہے کہ انھیں بھی الوہیت کا مستحق اور حصہ دار بنایا جائے ؟ اور اس کا جواب نفی میں ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معبود سراسر باطل ہیں۔- [ ٤١] یعنی کائنات کی ہر چیز سے اس کی شان بھی بلند اور بڑائی میں بھی کائنات کی ہر چیز سے بڑا ہے اور ان دونوں صفات کا مجموعہ تم استوطی علی العرش میں پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی پایا جاتا ہے اللہ کی ان صفات کے مقابلہ میں بندہ میں انتہائی پستی اور تذلیل (یہی دراصل عبادت کا معنی ہے) اللہ ہی کے لئے ہونا چاہئے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ : یعنی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمایا ہے کہ تم جان لو کہ وہی حق ہے جو حقیقی فاعل و مختار ہے، کیونکہ وہ ازلی و ابدی ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اپنے وجود میں وہ کسی کا محتاج نہیں۔- وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ : اور اس کے سوا مشرک جس کی بھی عبادت کرتے ہیں سب باطل ہیں، ان کا کہیں وجود ہی نہیں۔ یہاں نہ کوئی لات ہے، نہ منات، نہ داتا، نہ دستگیر، نہ گنج بخش، نہ غریب نواز۔ سب ان مشرکوں کے خیال اور وہم کی تخلیق ہیں اور انھوں نے اپنے پاس سے فرض کرلیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل رکھتے ہیں اور انھیں مشکل کشائی اور حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں، حالانکہ فی الواقع ان میں سے کوئی بھی نہ خدائی اختیارات کا مالک ہے، نہ کسی کو پکارنا اور اس سے فریاد کرنا حق ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٦٦) اور سورة نجم (١٩ تا ٢٣) ۔- 3 ان آیات میں دہریوں کا بھی رد ہے جو اس کائنات کو ازلی اور ابدی سمجھتے ہیں اور مشرکوں کا بھی جو فانی چیزوں کو معبود بنائے بیٹھے ہیں۔- وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ : یعنی کائنات کی ہر چیز سے اس کی شان بلند ہے اور بڑائی میں بھی وہ کائنات کی ہر چیز سے بڑا ہے۔ ان دونوں صفات کا مجموعہ ” ثم استوی علی العرش “ میں پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک واضح اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ بلندی اور بڑائی جب اللہ ہی کی شان ہے تو اس کے مقابلے میں ساری مخلوق پست، عاجز اور حقیر ہے، جس کے مفہوم کو لفظ ” عبد “ ادا کرتا ہے، فرمایا : (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا) [ مریم : ٩٣ ] ” آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔ “ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ اس علی و کبیر کے اختیارات اس کی پیدا کردہ ہستیوں کے لیے سمجھ لیے جائیں جو اس کے عباد اور اس کے سامنے بالکل پست، عاجز اور حقیر ہیں ؟
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ ٠ ۙ وَاَنَّ اللہَ ہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ٣٠ ۧ- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا
اور یہ قدرت کا اظہار اس لیے کیا تاکہ تم جان جاؤ کہ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت برحق ہے اور جن چیزوں کی یہ لوگ اللہ کے علاوہ عبادت کر رہے ہیں وہ بالکل بیہودہ اور جھوٹی ہیں اور اللہ ہی عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔
آیت ٣٠ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُلا) ” - لغوی اعتبار سے ہر وہ چیز ” باطل “ ہے جو اگرچہ نظر تو آرہی ہو مگر اس کا وجود حقیقی نہ ہو۔ جیسے ” سراب “ کہ دور سے دیکھنے پر پانی نظر آتا ہے مگر اصل میں وہ پانی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا جس کسی کو بھی کوئی معبود سمجھ کر پکارتا ہے وہ محض دھوکہ اور سراب ہے ۔
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :52 یعنی حقیقی فاعل مختار ہے ، خلق و تدبیر کے اختیارات کا اصل مالک ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :53 یعنی وہ سب محض تمہارے تخیلات کے آفریدہ خدا ہیں ۔ تم نے فرض کر لیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل رکھتے ہیں اور فلاں حضرت کو مشکل کشائی و حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں ۔ حالانکہ فی الواقع ان میں سے کوئی صاحب بھی کچھ نہیں بنا سکتے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :54 یعنی ہر چیز سے بالا تر جس کے سامنے سب پست ہیں ، اور ہر چیز سے بزرگ جس کے سامنے سب چھوٹے ہیں ۔