2 7 1پانی سے مراد آسمانی بارش اور چشموں نالوں اور وادیوں کا پانی ہے، جسے اللہ تعالیٰ بنجر زمین کے علاقوں کی طرف بہا کرلے جاتا ہے اس سے پیداوار ہوتی ہے جو انسان کھاتے ہیں اور جو بھوسا چارہ ہوتا ہے وہ جانور کھاتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص زمین یا علاقہ مراد نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ جر ہر بےآباد، بنجر اور چٹیل زمین کو شامل ہے۔
[ ٢٩] یعنی بارش کا ریلا یا نہروں کا پانی جب بنجر زمین کو سیراب کرتا ہے تو بےآب وگیاہ اور بنجر زمین بھی لہلہانے لگتی ہے۔ اس پربہار آجاتی ہے۔ جس سے ہر قسم کے جانداروں کو رزق مہیا ہوتا ہے۔ بعینہ یہی صورت وحی الٰہی کی بارش کی بھی ہوتی ہے۔۔۔ خطہ عرب جس میں توحید کی آواز نکالنا بھی اپنے لئے مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ اور لوگوں کے دل حق کی دعوت کو قبول کرنے کے سلسلہ میں بالکل مردہ ہوچکے ہیں۔ اگر بارش کا ریلا بنجر زمین کو لہلہاتے کھیت میں تبدیل کرسکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خطہ وحی کی بارش سے توحید کی اواز سے لہلہانے لگے مردہ لوگوں میں زندگی عود کر آئے۔ لوگ سمجھنے سوچنے لگ جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ اسلام کو اتنا فروغ بخشے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ پھر اسلام کی برکات سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق مستفید اور سرشار ہوجائے۔
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ ۔۔ : یہ توحید و رسالت کے ساتھ سورت کے تیسرے بنیادی مضمون کا تذکرہ ہے، یعنی کیا ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے بارش کے پانی کے ساتھ بنجر زمین سے کھیتیوں کو پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جن میں سے وہ بھی کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمام مردوں کو دوبارہ زندگی بخش کر حساب کے لیے سامنے لا کر کھڑا کرے گا۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٧) ، روم (٥٠) اور یٰس (٣٣ تا ٣٥) ۔
(آیت) اولم یرو انا نسوق الماء الی الارض الجرز فنخرج بہ زرعاً ، ” یعنی کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی کو (بعض مواقع میں) زمین پر چلا کرلے جاتے ہیں، جس سے ان کی کھیتیاں اگتی ہیں “ جرز خشک زمین کو کہتے ہیں جس میں درخت نہیں اگتے۔- زمین کی آب پاشی کا ایک خاص حکیمانہ نظام :- خشک زمین کو سیراب کرنے اور اس میں نباتات اگانے کا ذکر قرآن کریم میں جا بجا اس طرح آیا ہے کہ اس زمین پر بارش برستی ہے، اس سے زمین تروتازہ ہو کر اگانے کے قابل ہوجاتی ہے۔ مگر اس آیت میں بارش کے بجائے پانی کو زمین پر چلا کر خشک زمین کی طرف لے جانے اور اس سے درخت اگانے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی بارش کسی دوسری زمین پر نازل کی جاتی ہے وہاں سے ندی نالوں کے ذریعہ زمین پر چلا کر پانی کو خشک زمین کی طرف لے جایا جاتا ہے جہاں بارش نہیں ہوتی۔- اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ بعض زمینیں ایسی خام اور نرم ہوتی ہیں جو بارش کی متحمل نہیں ہوتیں، اگر وہاں پوری بارش برسائی جائے تو عمارتیں منہدم ہوجائیں، درخت اکھڑ جائیں۔ اس لئے قدرت نے ایسی زمینوں کے لئے یہ نظام بنایا ہے کہ بارش تو اس زمین پر نازل کی جاتی ہے جو اس کی متحمل ہے، پھر یہاں سے پانی بہا کر ایسی زمینوں کی طرف لے جایا جاتا ہے جو بارش کی متحمل نہیں، جیسے مصر کی زمین ہے۔ اور بعض مفسرین نے یمن اور شام کی بعض زمینوں کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ (کما روی عن ابن عباس و الحسن)- اور صحیح یہ ہے کہ یہ مضمون ایسی تمام زمینوں کو شامل ہے، اور مصر کی زمین خصوصیت سے اس میں شامل ہے، جہاں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ مگر بلاد حبشہ افریقہ کی بارشوں کا پانی دریائے نیل کے ذریعہ مصر میں آتا ہے اور وہاں کی سرخ مٹی ساتھ لاتا ہے جس میں انبات کا مادہ زیادہ ہے۔ اس لئے مصر کے لوگ اپنے ملک میں بارش نہ ہونے کے باوجود ہر سال نئے پانی اور نئی مٹی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْہُ اَنْعَامُہُمْ وَاَنْفُسُہُمْ ٠ ۭ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ ٢٧- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - سُّوقُ- : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ .- اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - جرز - قال عزّ وجل : صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف 8] ، أي : منقطع النبات من أصله، وأرض مَجْرُوزَة : أكل ما عليها، والجَرُوز : الذي يأكل ما علی الخوان، وفي المثل : لا ترضی شانئة إلا بِجَرْزَة «5» ، أي : باستئصال، والجَارِز : الشدید من السّعال، تصوّر منه معنی الجرز، والجَرْزُ :- قطع بالسیف، وسیف جُرَاز .- ( ج ر ز) جرز ۔ وہ زمین جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا ہو فرمایا ؛ صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف 8] بنجر میدان ۔۔ یعنی جس پر گھاس درخت وغیرہ کوئی چیز نہ ہو ۔ ارض مجروزۃ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو ۔ الجروز جو دسترخوان کو صاف کرڈٖالے ۔ مثل مشہور ہے ۔ لا ترضی شانیہ الا بجرزہ یعنی اس کے دشمن اس کا استیصال کئے بغیر خوش نہیں ہوں گے ۔ الجارز سخت کھانسی ( اس میں معنی جرز کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الجراز تلوار سے کاٹنا ۔ سیف جراز شمشیر بزان - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - زرع - الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] - ( ز ر ع ) الزرع - اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
کیا کفار مکہ نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ ہم خشک بنجر زمین کی طرف پانی پہنچاتے ہیں پھر اس ذریعے سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے مویشی اور وہ خود کھاتے ہیں۔- کیا پھر بھی نہیں جانتے کہ یہ سب چیزیں اللہ کی طرف سے ہیں۔
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :40 سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں یہ ذکر حیات بعدالموت پر استدلال کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے ، جیسا کہ قرآن میں بالعموم ہوتا ہے ، بلکہ اس سلسلۂ کلام میں یہ بات ایک اور ہی مقصد کے لیے فرمائی گئی ہے ۔ اس میں دراصل ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح ایک بنجر پڑی ہوئی زمین کو دیکھ کر آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زار بن جائے گی ، مگر خدا کی بھیجی ہوئی برسات کا ایک ہی ریلا اس کا رنگ بدل دیتا ہے ، اسی طرح یہ دعوت اسلام بھی اس وقت تم کو ایک نہ چلنے والی چیز نظر آتی ہے ، لیکن خدا کی قدرت کا ایک ہی کرشمہ اس کو وہ فروغ دے گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے ۔