نافرمان اپنی بربادی کو آپ بلاوا دیتا ہے کافر اعتراضا کہاکرتے تھے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم جو ہمیں کہاکرتے ہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کردیا ہے کہ تم ہم پر فتح پاؤ گے اور ہم سے بدلے لوگے وہ وقت کب آئے گا ؟ ہم تو مدتوں سے تمہیں مغلوب زیر اور بےوقعت دیکھ رہے ہیں ۔ چھپ رہے ہو ڈررہے ہو اگر سچے ہو تو اپنے غلبے کا اور اپنی فتح کا وقت بتاؤ ۔ اللہ فرماتا ہے کہ جب عذاب اللہ آجائے گا اور جب اس کا غصہ اور غضب اتر پڑتا ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اس وقت نہ تو ایمان نفع دیتا ہے نہ مہلت ملتی ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَمَّا جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ 83 ) 40-غافر:83 ) یعنی جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر دلیلیں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر نازاں ہونے لگے ، پوری دو آیتوں تک ۔ اس سے فتح مکہ مراد نہیں ۔ فتح مکہ والے دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو اسلام لانا قبول فرمایا تھا اور تقریبا دوہزار آدمی اس دن مسلمان ہوئے تھے ۔ اگر اس آیت میں یہی فتح مکہ مراد ہوتی تو چاہے تھا کہ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام ان کا اسلام قبول نہ فرماتے جیسے اس آیت میں ہے کہ اس دن کافروں کا اسلام لانامقبول ہوگا ۔ بلکہ یہاں مراد فتح سے فیصلہ ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١١٨ ) 26- الشعراء:118 ) ہمارے درمیان تو فتح کر یعنی فیصلہ کر ۔ اور جیسے اور مقام پر ہے آیت ( قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ 26 ) 34- سبأ:26 ) یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے آپس کے فیصلے فرمائے گا اور آیت میں ہے ( وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ 15ۙ ) 14- ابراھیم:15 ) یہ فیصلہ چاہتے ہیں سرکش ضدی تباہ ہوئے اور جگہ ہے آیت ( وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا 89 ) 2- البقرة:89 ) اس سے پہلے وہ کافروں پر فتح چاہتے تھے اور آیت میں فرمان باری ہے آیت ( اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ 19ۧ ) 8- الانفال:19 ) اگر تم فیصلے کے آرزومند ہو تو فتح آگئی ۔ پھر فرماتا ہے آپ ان مشرکین سے بےپرواہ ہوجائیے جو رب نے اتارا ہے اسے پہنچاتے رہیے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اپنے رب کی وحی کی اتباع کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ۔ پھر فرمایا تم اپنے رب کے وعدوں کو سچا مان لو اسکی باتیں اٹل ہیں اس کے فرمان سچے ہیں وہ عنقریب تجھے تیرے مخالفین پر غالب کرے گا وہ وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ بھی منتظر ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ آپ پر کوئی آفت آئے لیکن ان کی یہ چاہتیں بےسود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے والوں کو بھولتا نہیں نہ انہیں چھوڑتا ہے بھلا جو رب کے احکام پر جمے رہیں اللہ کی باتیں دوسروں کو پہنچائیں وہ تائید ایزدی سے کیسے محروم کردئیے جائیں؟ یہ جو کچھ تم پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان پر اترے گا بدبختی ( نکبت ) وادبار میں ہائے وائے واویلا میں گرفتار کئے جائیں گے ۔ رب کے عذابوں کا شکار ہونگے ۔ کہدو کہ اللہ ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔
2 8 1اس فیصلے (فتح) سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب ہے جو کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ فی الحال تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ تجھ پر ایمان لانے والے چھپے پھرتے ہیں۔
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ ۔۔ : مشرکین جب قیامت قائم ہونے کے دلائل کے سامنے لاجواب ہوتے تو کہتے، اچھا بتاؤ، یہ فیصلہ کب ہوگا، قیامت کب آئے گی ؟ اس سے ان کی جہالت واضح ہوتی ہے کہ جب ایک چیز کا آنا یقینی ہو تو صرف اس وجہ سے اس سے غفلت برتنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ ہمیں اس کے وقت کا علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس سوال کا متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة نازعات (٤٢ تا ٤٥) اور بنی اسرائیل (٤٩ تا ٥١) ۔
(آیت) ویقولون متیٰ ھذا الفتح، ” یعنی کفار یہ کہتے ہیں کہ وہ فتح کب ہو گی “ جس کا آپ ذکر کرتے ہیں کہ مومنین کو کفار پر غلبہ ہوگا، ہمیں تو کہیں اس کے آثار نظر نہیں آتے، ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان خائف ہیں، چھپتے پھرتے ہیں۔
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٢٨- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- متی - مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] ، - ( م ت ی ) متی - ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا )- فتح ( قيامت)- وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة،- میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
اور بنی خزیمہ اور بنی کنانہ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کب فتح ہوگا اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ مکہ فتح ہوگا یہ خاندان والے اس طریقہ سے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔- شان نزول : وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (الخ)- ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ صحابہ نے فرمایا ہمارے لیے ایک ایسا دن آئے گا جس میں ہم آرام پائیں گے اور دشمن سے راحت میں ہوں گے اس پر مشرکین کہنے لگے وہ ایسی کامیابی کا دن کب آئے گا اگر تم سچے ہو تب یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ فیصلہ کب ہوگا۔ الخ
آیت ٢٨ (وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْفَتْحُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ )- مشرکین کا یہ سوال قیامت کے بارے میں بھی تھا اور عذاب سے متعلق بھی کہ اے مسلمانو اگر تم لوگ اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی یا جس عذاب کا تم ہمیں ڈراوا دیتے رہتے ہو وہ آخر کب آئے گا ؟
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :41 یعنی تم جو کہتے ہو کہ آخر کار اللہ کی مدد آئے گی اور ہمیں جھٹلانے والوں پر اس کا غضب ٹوٹ پڑے گا ، تو بتاؤ وہ وقت کب آئے گا ؟ کب ہمارا تمہارا فیصلہ ہو گا ؟