3 0 1یعنی ان مشرکین سے اعراض کرلیں اور تبلیغ و دعوت کا کام اپنے انداز سے جاری رکھیں، جو وحی آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے، اس کی پیروی کریں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا " اتبع ما اوحی الیک من ربک لا الہ الا ہو واعرض عن المشرکین " آپ خود اس طریقت پر چلتے ہیں رہیے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے۔ 3 0 2یعنی اللہ کے وعدے کا کہ کب پورا ہوتا ہے اور تیرے مخالفوں پر تجھے غلبہ عطا فرماتا ہے ؟ یقینا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ 3 0 3یعنی کافر منتظر ہیں کہ شاید یہ پیغمبر ہی گردشوں کا شکار ہوجائے اور اس کی دعوت ختم ہوجائے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا فرمایا اور آپ پر گردشوں کے منتظر مخالفوں کو ذلیل خوار کیا یا ان کو آپ کا غلام بنایا دیا۔
[ ٣١] آپ ان سے الجھنا اور بحث کرنا چھوڑ دیجئے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ آپ اس بات کے منتظر رہئے کہ کب اللہ کا وعدہ پورا ہوتا ہے اور وہ انشاء اللہ ضرور پورا ہوگا اور وہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ تم اور تمہاری یہ چھوٹی اور کمزور سی جماعت کب گردش ایام کا شکار ہوتی ہے۔
فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ : جو لوگ قیامت کا انکار محض اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں اس کا وقت نہیں بتایا گیا، انھیں سمجھانا بےسود ہے، آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور انتظار کریں کہ اللہ کا وعدہ کب پورا ہوتا ہے، جو ہر حال میں پورا ہو کر رہنے والا ہے۔- اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ : یقیناً وہ بھی انتظار کرنے والے ہیں کہ آپ اور آپ کی یہ چھوٹی سی جماعت کب زمانے کی کسی گردش کا شکار ہوتی ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٩٨) اور سورة طور میں فرمایا : (اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِيْنَ ) [ الطور : ٣٠، ٣١ ] ” یا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس پر ہم زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں ؟ کہہ دے انتظار کرو، پس بیشک میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔ “
فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّہُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ ٣٠ۧ- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
سو اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بنی خزیمہ کی باتوں کا خیال نہ کیجیے اور آپ فتح مکہ کے دن ان کی ہلاکت کے منتظر رہیے یہ بھی انتظار ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے دن ان لوگوں کو ہلاک کردیا۔ تمت بالخیر
آیت ٣٠ (فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّہُمْ مُّنْتََََظِرُوْنَ ) ۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایّاکم بالآیات والذِّکر الحکیم