بہترین دعا ۔ بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ہمیں اس کا بکثرت ذکر کرنا چاہئے اور اس پر بھی ہمیں نعمتوں اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھارے بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو راہ اللہ خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے ؟ فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) یہ حدیث پہلے والذاکرین کی تفسیر میں بھی گذر چکی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سنی ہے جسے میں کسی وقت ترک نہیں کرتا ۔ دعا یہ ہے ( اللہم اجعلنی اعظم شکرک واتبع نصیحتک واکثر ذکرک واحفظ وصیتک ) یعنی اے اللہ تو مجھے اپنا بہت بڑا شکر گزار ، فرماں بردار ، بکثرت ذکر کرنے والا اور تیرے احکام کی حفاظت کرنے والا بنا دے ۔ ( ترمذی وغیرہ ) دو اعرابی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ ایک نے پوچھا سب سے اچھا شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو لمبی عمر پائے ، اور نیک اعمال کرے ۔ دوسرے نے پوچھاحضور صلی اللہ علیہ وسلم احکام اسلام تو بہت سارے ہیں مجھے کوئی چوٹی کا حکم بتا دیجئے کہ اس میں چمٹ جاؤں آپ نے فرمایا ذکر اللہ میں ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھ ( ترمذی ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر میں ہر وقت مشغول رہو یہاں تک کہ لوگ تمھیں مجنوں کہنے لگیں ( مسند احمد ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو یہاں تک کہ منافق تمھیں ریا کار کہنے لگیں ۔ ( طبرانی ) فرماتے ہیں جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت افسوس کا باعث بنے گی ۔ ( مسند ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ہر فرض کام کی کوئی حد ہے ۔ پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے ۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے ۔ کھڑے بیٹھے لیٹے رات کو دن کو خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں غنا میں فقر میں صحت میں بیماری پوشیدگی میں ظاہر میں غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیے ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے ۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمھارے لئے ہر وقت دعاگو رہیں گے ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث و آثار ہیں ۔ اس آیت میں بھی بکثرت ذکر اللہ کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے ۔ بزرگوں نے ذکر اللہ اور وظائف کی بہت سی مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے امام نسائی امام معمری وغیرہ ۔ ان سب میں بہترین کتاب اس موضوع پر حضرت امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ، صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو ۔ جیسے فرمایا ( فسبحان اللہ حین ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17 ) 30- الروم:17 ) اللہ کے لئے پاکی ہے ۔ جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو ، اسی کے لئے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور بعد از زوال اور ظہر کے وقت ، پھر اس کی فضیلت بیان کرنے اور اس کی طرف رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے وہ خود تم پر رحمت بھیج رہا ہے ۔ یعنی جب وہ تمھاری یاد رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ تم اس کے ذکر سے غفلت کرو؟ جیسے فرمایا ( كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ١٥١ړ ) 2- البقرة:151 ) جس طرح ہم نے تم میں خود تمہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری کتاب پڑھتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جسے تم جانتے ہی نہ تھے ۔ پس تم میرا ذکر کرو میں تمھاری یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو ۔ حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہوتی ہے ۔ صلوۃ جب اللہ کی طرف مضاف ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی اپنے فرشتوں کے سامنے بیان کرتا ہے ۔ اور قول میں ہے مراد اس کی رحمت ہے ۔ اور دونوں قولوں کا انجام ایک ہی ہے ۔ فرشتوں کی صلوۃ ان کی دعا اور استغفار ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ Ċ ) 40-غافر:7 ) ، عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس والے اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں ، اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومن بندوں کے لئے استغفار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہر چیز کو رحمت و علم سے گھیر لیا ہے ۔ اے اللہ تو انہیں بخش جو توبہ کرتے ہیں اور تیری راہ پر چلتے ہیں ۔ انہیں عذاب جہنم سے بھی نجات دے ۔ انہیں ان جنتوں میں لے جا جن کا تو ان سے وعدہ کر چکا ہے ۔ اور انہیں بھی ان کے ساتھ پہنچا جو ان کے باپ دادوں بیویوں اور اولادوں میں سے نیک ہیں ، انہیں برائیوں سے بچا لے ۔ وہ اللہ اپنی رحمت کو تم پر نازل فرما کر اپنے فرشتوں کی دعا کو تمھارے حق میں قبول فرما کر تمھیں جہالت و ضلالت کی اندھیریوں سے نکال کر ھدایت و یقین کے نور کی طرف لے جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مومنوں پر رحیم و کریم ہے ۔ دنیا میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں گھبراہٹ اور ڈر خوف سے بچا لے گا ۔ فرشتے آکر انہیں بشارت دیں گے کہ تم جہنم سے آزاد ہو اور جنتی ہو ۔ کیونکہ ان فرشتوں کے دل مومنوں کی محبت و الفت سے پُر ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے اصحاب کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا بچہ راستے میں تھا اس کی ماں نے ایک جماعت کو آتے ہوئے دیکھا تو میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی اور بچے کو گود میں لے کر ایک طرف ہٹ گئی ۔ ماں کی اس محبت کو دیکھ کر صحابہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیال تو فرمائیے کیا یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مطلب کو سمجھ کر فرمانے لگے قسم اللہ کی اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کو آگ میں نہیں ڈالے گا ۔ ( مسند احمد ) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیدی عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے بچے کو دیکھتے ہی اٹھا لیا اور اپنے کلیجے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آپ نے فرمایا بتاؤ تو اگر اس کے اختیار میں ہو تو کیا یہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ صحابہ نے کہا ہرگز نہیں آپ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ، اللہ کی طرف سے ان کا ثمرہ جس دن یہ اس سے ملیں گے سلام ہو گا ۔ جیسے فرمایا ( سلام قولا من رب رحیم ) قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے گا ۔ اس کی تائید بھی آیت ( دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١0 ۧ ) 10- یونس:10 ) ، سے ہوتی ہے ۔ اللہ نے ان کے لئے اجر کریم یعنی جنت مع اس کی تمام نعمتوں کے تیار کر رکھی ہے ۔ جن میں سے ہر نعمت کھانا پینا پہننا اوڑھنا عورتیں لذتیں منظر وغیرہ ایسی ہیں کہ آج تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں ۔ چہ جائیکہ دیکھنے میں یا سننے میں آئیں ۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ۔۔ : ان آیات کی پچھلی آیات کے ساتھ مناسبت بعض اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب تمہیں زینب (رض) کے نکاح جیسے معاملات میں منافقین اور اسلام کے دوسرے دشمنوں کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑے تو ان کے ساتھ الجھنے یا انھیں برا بھلا کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح کثرت سے کرو، اس سے تمہیں اطمینان عطا ہوگا، اسلام پر استقامت ملے گی اور فتنے کا دروازہ جلدی بند ہوگا۔ خصوصاً ” وسبحوہ “ کے مفہوم میں منافقین کی باتوں سے اپنے بری ہونے کا اظہار بھی شامل ہے، یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی مومن پر کسی طعن یا بہتان کا ذکر ہو تو اس سے اپنی براءت کا اظہار کرو، جیسا کہ عائشہ (رض) پر بہتان کے متعلق فرمایا : (وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ) [ النور : ١٦ ] ” اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ “- ذِكْرًا كَثِيْرًا : طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے اس آیت اور اس کے بعد کی دو آیات کی تفسیر ذکر فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : ” لَا یَفْرِضُ اللّٰہُ عَلٰی عِبَادِہِ فَرِیْضَۃً إِلاَّ جَعَلَ لَہَا حَدًّا مَعْلُوْمًا، ثُمَّ عَذَرَ أَہْلَہَا فِيْ حَالِ عُذْرٍ ، غَیْرَ الذِّکْرِ ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَجْعَلْ لَہُ حَدًّا یَنْتَہِيْ إِلَیْہِ وَ لَمْ یَعْذُرْ أَحَدًا فِيْ تَرْکِہِ إِلَّا مَغْلُوْبًا عَلٰی عَقْلِہِ قَالَ : (فاذکروا اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبکم) بِاللَّیْلِ وَ النَّہَارِ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ، وَ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ ، وَالْغِنٰی وَالْفَقْرِ ، وَالسَّقَمِ وَالصِّحَّۃِ ، وَالسِّرِ وَالْعَلاَنِیَۃِ ، وعَلٰی کُلِّ حَالٍ ، وَ قَالَ : (وَّسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ صَلّٰی عَلَیْکُمْ ہُوَ وَ مَلاَءِکَتُہُ قَال اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ : (هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ ) “ [ طبري : ٢٨٧٦٤ ] ” یعنی اللہ نے ہر فرض کی کوئی نہ کوئی حد مقرر فرمائی ہے، پھر عذر کی حالت میں وہ بھی معاف ہے، لیکن نہ اللہ کے ذکر کی کوئی حد ہے، نہ وہ کسی عذر سے معاف ہوتا ہے۔ ہاں عقل یا ہوش نہ رہے تو الگ بات ہے، فرمایا : ” اللہ کا ذکر کرو کھڑے، بیٹھے، لیٹے “ رات اور دن میں، خشکی اور تری میں، سفر اور حضر میں، غنا اور فقر میں، صحت اور بیماری میں، پوشیدگی اور ظاہر میں، غرض ہر حال میں اللہ کا ذکر لازم ہے اور فرمایا : ” اور اس کی تسبیح کرو پہلے پہر اور پچھلے پہر “ جب تم یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے فرشتے تمہارے لیے دعائیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وہی ہے جو تم پر صلاۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے۔ “ اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کے متعلق کئی احادیث اسی سورت کی آیت (٣٥) : (وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ) کی تفسیر میں ذکر ہوچکی ہیں۔ اس کے متعلق اہل علم نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ابن قیم (رض) نے ” الو ابل الصیب “ میں ذکر کے ایک سو فوائد تفصیل سے ذکر فرمائے ہیں۔- وَّسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا : زمخشری نے فرمایا : ” پچھلی آیت میں ذکر کثیر کا حکم تھا، اب تسبیح کا حکم دیا۔ تسبیح بھی ذکر میں شامل ہے، اس کا خاص طور پر ذکر اسی طرح فرمایا جیسے فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر فرمایا، تاکہ دوسرے اذکار پر اس کی فضیلت بیان کرے، کیونکہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو ان تمام صفات و افعال سے پاک بیان کرنا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں۔ دوسرے اذکار پر اس کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی کے تمام اوصاف مثلاً نماز، روزے وغیرہ کی کثرت وغیرہ پر اس بات کی فضیلت ہے کہ وہ شرک و بدعت کی نجاست اور ہر قسم کے گناہوں کی آلودگی سے پاک ہے۔ پھر پہلے اور پچھلے پہر تسبیح کا خصوصاً ذکر فرمایا، مراد تمام نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا ہے، کیونکہ نماز دوسری چیزوں سے افضل ہے، یا فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مراد ہے، کیونکہ ان کی ادائیگی میں زیادہ مشقت ہے۔ “ (کشاف) بعض اہل علم نے اس سے مراد فجر اور عصر لی ہے۔ تسبیح بول کر نماز مراد لینے کے لیے دیکھیے سورة طہ (١٣٠) ۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو تم (احسانات آلہیہ کو عموماً اور ایسے اکمل رسل کی بعثت کے احسان کو خصوصاً یاد کر کے اس کا یہ شکر ادا کرو کہ) اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو (اس میں سب طاعات آگئیں) اور (اس ذکر وطاعت پر دوام رکھو پس) صبح وشام (یعنی علی الدوام) اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتے رہو (یعنی دل سے بھی اور اعضاء سے بھی اور زبان سے بھی پس جملہ اولیٰ سے عموم اعمال و طاعات کا اور جملہ ثانیہ میں عموم از منہ و اوقات کا حاصل ہوگیا یعنی نہ تو ایسا کرو کہ کوئی حکم بجا لائے اور کوئی نہ بجا لائے، اور نہ ایسا کرو کہ کسی دن کوئی کام کرلیا کسی دن نہ کیا، اور جیسا اس نے تم پر بہت احسان کئے ہیں اور آئندہ بھی کرتا رہتا ہے پس بالضرورة مستحق ذکر و شکر ہے، چنانچہ) وہ ایسا (رحیم) ہے کہ وہ (خود بھی) اور (اس کے حکم سے) اس کے فرشتے (بھی) تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں (اس کا رحمت بھیجنا تو رحمت کرنا ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا رحمت کی دعاء کرنا ہے کماقال (آیت) الذین یحملون العرش (الیٰ قولہ) وقہم السیات، اور یہ رحمت بھیجنا اس لئے ہے) تاکہ حق تعالیٰ (ببرکت اس رحمت کے) تم کو (جہالت و ضلالت کی) تاریکیوں سے (علم اور ہدایت کے) نور کی طرف لے آئے (یعنی خدائی رحمت اور دعاء ملائکہ کی برکت ہے کہ تم کو علم اور ہدایت کی توفیق اور اس پر ثبات حاصل ہے کہ یہ ہر وقت متجدد ہوتی رہتی ہے) اور (اس سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے (اور یہ رحمت تو مومنین کے حال پر دنیا میں ہے اور آخرت میں بھی وہ مورد رحمت ہوں گے، چنانچہ) وہ جس روز اللہ سے ملیں گے تو ان کو جو سلام ہوگا وہ یہ ہوگا کہ (اللہ تعالیٰ خود ان سے ارشاد فرما دے گا) السلام علیکم (کہ اولاً خود سلام ہی علامت اعزاز کی ہے، پھر جب کہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو کما قال (آیت) سلام قولاً من رب رحیم اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اہل جنت سے فرمائے گا السلام علیکم، رواہ ابن ماجہ وغیرہ اور یہ سلام تو روحانی انعام ہے جس کا حاصل اکرام ہے) اور (آگے جسمانی انعام کی خبر بعنوان عام ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان (مومنین کے لئے) عمدہ صلہ (جنت میں) تیار کر رکھا ہے (کہ ان کے جانے کی دیر ہے، یہ گئے اور وہ ملا، آگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ) اے نبی (آپ مشتے چند معترضین کے طعن سے مغموم نہ ہوں، اگر یہ سفہاء آپ کو نہ جانیں تو کیا ہوا ہم نے تو ان بڑی بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا جو کہ خطاب مومنین میں مذکور ہوئی ہیں، آپ ہی کو واسطہ بنایا ہے اور آپ کے مخالفین کی سزا کے لئے خود آپ کا بیان کافی قرار دیا گیا ہے کہ ان کے مقابلہ میں آپ سے ثبوت نہ لیا جائے گا، پس اس سے ظاہر ہے کہ آپ ہمارے نزدیک کس درجہ محبوب و مقبول ہیں، چنانچہ) ہم نے بیشک آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ (قیامت کے روز امت کے اعتبار سے خود سرکاری) گواہ ہوں گے (کہ آپ کے بیان کے موافق ان کا فیصلہ ہوگا کما قال انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہدا علیکم اور ظاہر ہے کہ خود صاحب معاملہ کو دوسرے فریق اہل معاملہ کے مقابلہ میں گواہ قرار دینا اعلیٰ درجہ کا اکرام اور علو شان ہے جس کا قیامت کے روز ظہور ہوگا) اور (دنیا میں جو آپ کی صفات کمال ظاہر ہیں وہ یہ ہیں کہ) آپ (مومنین کے) بشارت دینے والے ہیں اور (کفار کے) ڈرانے والے ہیں اور (عام طور پر سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں (اور یہ تبشیر وانذار دعوت تبلیغاً ہے) اور (یوں خود اپنی ذات وصفات و کمالات و عبادات و عادات وغیرہا مجموعی حالات کے اعتبار سے) آپ (سرتاپا نمونہ ہدایت ہونے میں بمنزلہ) ایک روشن چراغ (کے) ہیں (کہ آپ کی ہر حالت طالبان انوار کے لئے سرمایہ ہدایت ہے، پس قیامت میں ان مومنین پر جو کچھ رحمت ہوگی وہ آپ ہی کی ان صفات بشیر و نذیر و داعی وسراج منیر کے واسطہ سے ہے۔ پس آپ اس غم و پریشانی کو الگ کیجئے) اور (اپنے منصبی کام میں لگئے یعنی) مومنین کو بشارت دیجئے کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے اور (اسی طرح کافروں اور منافقوں کو ڈراتے رہئے جس کو ایک خاص عنوان سے تعبیر کیا ہے وہ یہ کہ) کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ کیجئے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تو امکان ہی نہ تھا کہ آپ کفار و منافقین کے کہنے میں آ کر تبلیغ و دعوت چھوڑ دیں، لیکن لوگوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے ممکن تھا کہ آپ اس عملی تبلیغ میں جو نکاح زینب کے ذریعہ مقصود تھی کوئی سستی کریں اس کو کفار کا کہنا ماننے سے تعبیر کردیا گیا) اور ان (کافروں اور منافقوں) کی طرف سے جو (کوئی) ایذاء پہنچے (جیسا اس نکاح میں کہ تبلیغ فعل ہے ایذاء قولی پہنچی) اس کا خیال نہ کیجئے اور (فعلی ایذاء کا بھی اندیشہ نہ کیجئے) اور اگر اس کا وسوسہ آئے تو اللہ پر بھروسہ کیجئے اور اللہ کافی کارساز ہے، (وہ آپ کو ہر ضرر سے بچائے گا اور اگر تبلیغ میں کوئی ظاہری ضرر پہنچتا ہے وہ باطناً نفع ہوتا ہے، وہ وعدہ کفایت و وکالت کے منافی نہیں) ۔- معارف ومسائل - سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم اور آپ کی ایذاء رسانی سے بچنے کے لئے ہدایات کے ضمن میں حضرت زید اور زینب کا قصہ اور اس کی مناسبت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاتم النبیین ہونا بیان ہوا ہے، آگے بھی آپ کی صفات کمال کا بیان آنے والا ہے۔ اور آپ کی ذات وصفات سب مسلمانوں کے لئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہیں، ان کا شکر ادا کرنے کے لئے آیت مذکورہ میں ذکر اللہ کی کثرت کا حکم دیا گیا ہے۔- ذکر اللہ ایسی عبادت ہے جس کے لئے کوئی شرط نہیں اور اس کے بکثرت کرنے کا حکم ہے :- (آیت) یایہا الذین امنوا ذکر واللہ ذکراً کثیراً ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسی عبادت عائد نہیں کی جس کی کوئی خاص حد مقرر نہ ہو، نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں، روزے ماہ رمضان کے متعین اور مقرر ہیں، حج بھی خاص مقام پر خاص اعمال مقررہ کرنے کا نام ہے، زکوٰة بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوتی ہے، مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین ہے، نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لئے کوئی خاص ہئیت قیام یا نشست کی مقرر ہے نہ اس کے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے۔ ہر وقت ہر حال میں ذکر اللہ بکثرت کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی میں ہو یا دریا میں، رات ہو یا دن ہر حال میں ذکر اللہ کا حکم ہے۔- اسی لئے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں، بجز اس کے عقل و حواس ہی نہ رہیں بےہوش ہوجائے، اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری اور مجبوری کے حالات میں انسان کو معذور قرار دے کر عبادت میں اختصار اور کمی یا معافی کی رخصتیں بھی ہیں، مگر ذکر اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی۔ اس لئے اس کے ترک میں کسی حال کوئی عذر مسموع بھی نہیں، اور اس کے فضائل و برکات بھی بیشمار ہیں۔- امام احمد نے حضرت ابو الدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کر کے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو تمہارے سب اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہے، اور تمہارے درجات بلند کرنے والی ہے اور تمہارے لئے سونے چاندی کے صدقہ و خیرات سے بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو اور تمہارا دشمن سے معاملہ ہو تم ان کی گردنیں مار دو وہ تمہاری، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون سی چیز اور کونسا عمل ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذکر اللہ عزوجل، ” یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد (ابن کثیر)- نیز امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دعاء سنی ہے جس کو میں کبھی نہیں چھوڑتا، وہ یہ ہے :- ” یا اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا شکر بہت کروں اور تیری نصیحت کا تابع رہوں اور تیرا ذکر کثرت سے کیا کروں اور تیری وصیت کو محفوظ رکھوں “- اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کی کہ ذکر اللہ کی کثرت کی توفیق عطا ہو۔ - ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اسلام کے اعمال و فرائض و واجبات تو بہت ہیں، آپ مجھے کوئی ایسی مختصر جامع بات بتلا دیں کہ میں اس کو مضبوطی سے اختیار کرلوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہنی چاہئے “- اور حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی تم اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ دیکھنے والے تمہیں دیوانہ کہنے لگیں “- اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں جس میں اللہ کا ذکر نہ آئے تو قیامت کے روز یہ مجلس ان کے لئے حسرت ثابت ہوگی۔ (رواہ احمد، ابن کثیر)
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا ٤١ۙ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(٤١۔ ٤٢) اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ جو دل اور زبان سے طاعت و معصیت کے وقت خوب یاد کرو اور صبح و شام نمازیں پڑھو۔
آیت ٤١ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا ” اے اہل ایمان اللہ کا ذکر کیا کرو کثرت کے ساتھ۔ “- مراد یہ ہے کہ انسان ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کو یاد رکھے اور ایک پنجابی کہاوت ” ہتھ کا رول ‘ دل یا رول “ کے مصداق اپنے روز مرہ معمولاتِ زندگی کے دوران بھی ہر گھڑی ‘ ہر قدم پر اللہ کی یاد اس کے دل میں مستحضر رہے۔ عملی طور پر ” ذکر کثیر “ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم مسنون دعائوں کو یاد کر کے انہیں اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہر کیفیت اور ہر موقع محل کے لیے دعائیں تعلیم فرمائی ہیں۔ مثلاً گھر میں داخل ہونے کی دعا ‘ گھر سے باہر نکلنے کی دعا ‘ بازار میں داخل ہونے اور باہر جانے کی دعا ‘ بیت الخلاء میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کی دعا۔ اگر ہم ان مسنون دعائوں کو اپنے معمولات میں شامل کرلیں تو کوئی اضافی وقت صرف کیے بغیر اپنے کام کاج کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مسلسل اپنا تعلق قائم رکھ سکتے ہیں۔ نمازِ پنجگانہ بھی اللہ کے ذکر کی بہترین صورت ہے۔ البتہ بندئہ مومن کے لیے اللہ کا سب سے اعلیٰ ذکر قرآن کریم کی تلاوت ہے ‘ جیسا کہ سورة العنکبوت کی اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ۔ ” تلاوت کرتے رہا کریں اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کریں۔ یقینا نماز روکتی ہے بےحیائی سے اور برے کاموں سے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو۔ “