Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) اس لیے وہ زید بن حارثہ (رض) کے بھی باپ نہیں ہیں جس پر انھیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا ؟ بلکہ ایک زید (رض) ہی کیا وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید تو حارثہ کے بیٹے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو انھیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انھیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ حقیقتا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صلبی بیٹے نہیں تھے اسی لیے (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ ) 33 ۔ الاحزاب :5) کے نزول کے بعد انھیں زید بن حارثہ ہی کہا جاتا تھا علاوہ ازیں حضرت خدیجہ سے آپ کے تین بیٹے قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہوا لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر) 40۔ 2 خاتم مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت و رسالت کا خاتمہ کردیا گیا آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع و اتفاق ہے قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی بن کر آئیں گے اس لیے ان کا نزول عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٤] معترضین کے اس نکاح کے بارے میں اعتراضات :۔ اس جملے میں دشمنان اسلام کے اس طعن کی تردید ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی یعنی اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زید کے باپ ہیں ہی نہیں اور ایک زید ہی کیا کسی بھی مرد کے باپ نہیں۔ یعنی ان کی کوئی اولاد ایسی نہیں جو جوان ہو اور مرد کہلائے جانے کے قابل ہو۔ واضح رہے کہ رسول اللہ کے دو بیٹے قاسم اور طیب (جنہیں طاہر بھی کہا جاتا ہے) فوت ہوچکے تھے اور ابراہیم ابھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ حسن اور حسین آپ کے نواسے تھے۔ جنہیں آپ نے اپنا بیٹا بھی فرمایا مگر ایک تو وہ حقیقی بیٹے نہ تھے۔ دوسرے وہ بھی کمسن تھے جنہیں مرد نہیں کہا جاسکتا۔- [ ٦٥] ہنگامہ بپا کرنے والوں کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر زید کی مطلقہ بیوی سے آپ کا نکاح جائز بھی تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ آپ اس سے نکاح کرتے۔ یہ بات ویسے بھی کہی جاسکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ انھیں تو وہ کام بہرحال کرنا ہوتا ہے جو اللہ کا حکم ہو اور اللہ کا حکم یہی ہے کہ اس بری رسم کی اصلاح کا آغاز نبی کی ذات سے کیا جائے۔- [ ٦٦] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی رسول تو کیا کوئی نبی بھی آنے والا نہیں۔ لہذا آپ کے بعد اس برے دستور کی اصلاح ممکن ہی نہ تھی۔ لہذا ضروری تھا کہ آپ خود اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرتے تاکہ دوسرے مسلمانوں کے لئے یہ راستہ ہموار ہوجائے اور انھیں ایسا کرنے میں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ تاہم یہ جملہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :- (١) عامر الشعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہا تاکہ اس آیت کا مضمون صادق آجائے کہ آپ کسی کے باپ نہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- (٢) آپ خاتم النبییّن ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میری اور اگلے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا۔ اس کو خوب آراستہ پیراستہ کیا۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس میں آتے جاتے اور تعجب کرتے ہیں کہ اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی۔ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبییّن ہوں ۔ بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب خاتم النبیّین )- (٣) سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ البتہ میرے بعد کثرت سے خلفاء پیدا ہوں گے (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفائ)- (٤) سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ : آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب چھوٹے دجال ظاہر نہ ہو یعنی ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوت فی الاسلام)- (٥) اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور کہنے لگا : اگر محمد اپنے بعد مجھے اپنا جانشین بنائیں تو میں ان کی تابعداری کرتا ہوں اور مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لایا تھا۔ آپ اس کے پاس چلے گئے اور آپ کے ساتھ ثابت بن قیس (بن شماس۔ خطیب انصار) بھی تھے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : اگر تم محمد سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دوں گا۔ (جانشینی تو دور کی بات ہے) اور اللہ نے جو کچھ تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ اور تو اسلام نہ لائے گا اور اللہ تجھے تباہ کردے گا۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی دشمن ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالیٰ (خواب میں) دکھا چکا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس میری طرف سے تمہیں جواب دے گا یہ کہہ کر آپ واپس چلے گئے۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ (رض) سے آپ کے ارشاد کا مطلب پوچھا تو ابوہریرہ (رض) نے مجھے بتایا کہ آپ نے فرمایا : ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں۔ تو میں بہت پریشان ہوگیا۔ خواب ہی میں مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی یہ تعبیر سمجھی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ۔۔ )- (٦) سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا۔ اگر میری امت سے کوئی ایسا ہو تو وہ عمر بن خطاب ہوتے (حوالہ ایضاً )- اور قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ کا نزول ہوگا تو وہ یہاں رسول اللہ کے امتی بن کر رہیں گے۔ اور آپ ہی کی شریعت کی اتباع کریں گے علاوہ ازیں نبی ہونے کی حیثیت سے بھی ان کا شمار رسول اللہ سے پہلے کے انبیاء میں ہے۔ وہ کوئی نیا دعویٰ نہیں کریں گے۔- ختم نبوت اور آپ کے بعد وحی کے انقطاع کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ اس آیت، ان صریح احادیث صحیحہ اور اجماع کے علی الرغم قادیان ضلع گورداسپور میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ہم یہاں مختصراً اس کے اس دعویٰ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں :- (١) مرزا صاحب پہلے خود بھی ختم نبوت کے قائل اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھتے تھے۔ چناچہ حمامۃ البشریٰ میں لکھتے ہیں کہ بھلا نبی کریم کے بعد نبی آئے تو کیسے آئے جبکہ آپ کی وفات کے بعد وحی بند ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے (حمامۃ البشرٰی ٢٠) پھر اسی کتاب کے صفحہ ٧٩ پر لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافروں میں جاملوں اس وقت تک آپ کا صرف مجدد ہونے کا دعویٰ تھا۔- (٢) مرزا قادیانی کی نبوت کے تدریجی مراحل :۔ پھر اس کے بعد آپ مثیل مسیح بنے۔ پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اسی بنا پر آپ نے رفع عیسیٰ کا انکار کردیا بلکہ بذریعہ کشف والہام کشمیر میں آپ کی قبر کی نشاندہی بھی فرما دی اور اعلان فرمایا کہ :- ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے - پھر اس کے بعد آپ نے کھل کر اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا اور یہ بھی کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور میں اللہ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ پھر جب آپ ہی کی تحریروں کے مطابق علماء نے آپ پر گرفت کی تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں کوئی مستقل نبی نہیں نہ ہی کوئی صاحب شریعت رسول ہوں بلکہ آپ کی اطاعت ہی کی وجہ سے نبی ہوا ہوں اور آپ ہی کا ظل اور بروز (یعنی سایہ یا عکس) ہوں آپ کی اسی ظلی اور بروزی کی اصطلاح پر مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر روزنامہ زمیندار نے ایک بار یوں تبصرہ کیا تھا :- بروزی ہے نبوت قادیان کی برازی ہے خلافت قادیان کی - گویا آپ بتدریج نبی بنے تھے، پہلے مجددیت کے مدعی تھی پھر مثیل مسیح کے، پھر مسیح موعود کے پھر جب کچھ کام چلتا دیکھا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور قادیان کی سرزمین کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا :- زمین قادیان ارض حرم ہے ہجوم خلق سے اب محترم ہے - اگر غور کیا جائے تو آپ کی تدریجی نبوت ہی آپ کے نبوت کے دعویٰ کے ابطال کے لئے بہت کافی ہے کیونکہ تمام تر سلسلہ انبیاء میں سے کوئی نبی اس طرح بتدریج نبی نہیں بنایا گیا تاہم آپ کی پیش کردہ توجیہات کا بھی ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔- (٣) ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح : آپ کی پہلی توجیہ یہ ہے کہ آپ کو رسول اللہ کی اطاعت کرتے کرتے یہ درجہ ظلی نبوت حاصل ہوا۔ گویا آپ کے نظریہ کے مطابق نبوت وہبی نہیں بلکہ کسبی چیز ہے اس نظریہ کی قرآن نے (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ، ) کہہ کر بھرپور تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں اگر نبوت کسبی چیز ہوتی اور آپ کی اتباع کامل کی وجہ سے حاصل ہوسکتی ہے تو اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابہ کرام تھے۔ بالخصوص سیدنا عمر جن کے متعلق صراحت سے احادیث مبارکہ میں آیا ہے ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ اور ظل اور بروز کا نظریہ تو کئی لحاظ سے آپ کی نبوت کا ابطال کرتا ہے۔ مثلاً- (٤) رسول اللہ شاعر نہیں تھے۔ آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری آپ کے شایان شان بھی نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورة یسین کی آیت نمبر ٦٩ اور اس کا حاشیہ) جبکہ مرزا صاحب شاعر تھے۔ آپ نے اردو، عربی، فارسی میں بہت سے اشعار اور قصیدے لکھے حتیٰ کہ ایک بہت بڑی کتاب بطور کلیات مرزا صاحب مسمی بہ درثمین تصنیف اور شائع کی ہے۔ اگر آپ رسول اللہ کے کا ظل اور بروز ہیں تو آپ تو شاعر نہیں تھے۔ یہ عکس میں شاعری کہاں سے آگئی ؟ مطلب واضح ہے کہ مرزا صاحب رسول اللہ کا عکس نہیں۔- (٥) آپ کی تضاد بیانی کا یہ حال ہے کہ ایک وقت آپ دعویٰ نبوت کو کفر سمجھتے تھے پھر مثیل مسیح بنے، پھر مسیح موعود بنے، پھر نبوت کا دعویٰ کیا پھر یہ بھی دعویٰ کردیا کہ تمام انبیاء کی خوبیاں مجھ میں جمع اور موجود ہیں۔ چناچہ اس درثمین میں اردو زبان میں کہا کہ : میں کبھی عیسیٰ کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں۔۔ نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بےشمار - فارسی میں کہا :- انبیاء کرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زک سے۔۔ آنچہ داد ست ہر نبی را جام داد آں جام را مرابہ تمام - ترجمہ : اگر انبیاء بہت گزرے ہیں تاہم میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ ان میں جس کسی کو کوئی جام معرفت دیا گیا وہ سب کے سب جام مجھے دیئے گئے ہیں۔- اپنی ذات سے متعلق ایسی تضاد بیانی کو رسول اللہ کا عکس کہا جاسکتا ہے ؟ یا سابقہ انبیاء میں سے کسی کو تدریجاً کبھی نبی بنایا گیا ہے ؟- (٦) چھٹی بات آپ کے مخالفوں کے حق میں آپ کی بدزبانی ہے جنہیں آپ ولدالزنا اور ولد الحرام کہہ کر پکارا کرتے ہیں اور آئینہ کمالات اسلام میں فرمایا کہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا (یعنی کنجریوں کی اولاد) کے علاوہ ہر مسلمان نے مجھے قبول کیا اور میری دعوت کی تصدیق کی بالفاظ دیگر جن مسلمانوں نے میری نبوت کی تصدیق نہیں کی وہ سب کنجریوں کی اولاد ہیں اور ایک بار اپنے مخالف پر لعنت بھیجنے کو جی چاہا تو ہزار بار لعنت کہنے یا لکھنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فی الواقع ہزار بار لعنت کا لفظ لکھ کر کتاب کے تین چار صفحے سیاہ کر ڈالے۔ کیا یہ بھی رسول اللہ کی اطاعت کا نمونہ اور ان کا عکس ہے ؟ کیا رسول اللہ سے اپنے مخالفوں کے حق میں ایسی غلیظ گالیاں ثابت کی جاسکتی ہیں ؟- (٧) آپ کی نبوت کی تردید پر دلائل :۔ اور جب اپنی کسر نفسی پر آتے ہیں تو بھی غلیظ زبان استعمال کرتے اور حقائق کا منہ چڑاتے ہیں۔ درثمین ہی میں فرماتے ہیں :- کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں۔۔ ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار - یعنی اے میرے پیارے میں نہ تو مٹی کا کیڑا ہوں اور نہ آدم کی نسل سے ہوں۔ بلکہ میں بشر کی جائے نفرت ہوں جس سے سب لوگوں کو شرم آئے۔- اب آپ خود ہی فیصلہ فرما لیجئے کہ وہ بشر کی جائے نفرت کیا چیز ہوسکتی ہے۔ بس وہی چیز مرزا صاحب تھے۔ بایں ہمہ آپ کا دعویٰ یہ ہے آپ کا عکس ہیں۔ نیز آپ نہ مٹی سے پیدا ہوئے تھے نہ آدم کی نسل سے تھے۔ تو پھر کیا تھے ؟ سابقہ انبیاء تو سب آدم زاد ہی تھے۔- (٨) قرآن اور احادیث میں جہاد فی سبیل اللہ اور بالخصوص قتال فی سبیل اللہ پر جس قدر زور دیا گیا ہے اور جتنے فضائل کتاب و سنت میں مذکور ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ نے خود سترہ غزوات میں حصہ لیا۔ اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ یہ جہاد تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس جہاد کی ممانعت کا یوں فتوی دیا کہ :- اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستوں خیال۔۔ دین کے لئے حرام ہے اب جنگ و قتال - دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد۔۔ منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد - (درثمین ص ٥٣) آخری مصرع میں نبی سے مراد غالباً مرزا صاحب خود ہیں۔ غور فرمائیے کہ ایسا شخص رسول اللہ کا عکس ہوسکتا ہے ؟ جبکہ رسول اللہ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا کہ : میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب من تمنی الشہادۃ) پھر یہ بھی غور فرمایئے مرزا صاحب رسول اللہ کا عکس ہیں یا ان کی آرزو اور تعلیم کو ملیا میٹ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ان کی ضد ہیں۔- (٩) جہاد بالسیف کی بھرپور مخالفت :۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے حکومت وقت کا ساتھ دیا ہو بلکہ نبی کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کرے اور سرکاری درباری حضرات، آسودہ حال طبقہ اور چودھری لوگ ہمیشہ انبیاء کے مخالف رہے ہیں۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اور ان کی نبوت انگریز بہادر کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھتی ہے۔ اور آپ بھی ہر وقت گورنمنٹ عالیہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں نیز وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو گورنمنٹ کا خود کا شتہ پودا ہونے کا اقرار فرماتے ہیں۔ اب دو ہی باتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انگریز کی حکومت کو صحیح اسلامی حکومت تسلیم کرلیا جائے۔ اس صورت میں مرزاصاحب کی نبوت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ نبی ہمیشہ بگاڑ کی اصلاح کے لئے آتا ہے اور دوسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ نبی اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہو۔ اور یہی صورت حال مرزا صاحب کی نبوت پر صادق آتی ہے۔- آپ کا اپنے بارے میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کا اعتراف :۔ ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان میں انگریز بہادر کی حکومت قائم ہوگئی تو ساتھ ہی زیر زمین جہاد کی تحریک شروع ہوگئی جس سے انگریز کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا۔ اس نے اس کا حل یہ سوچا کہ مسلمانوں کی آپس میں پھوٹ ڈال دی جائے اور دوسرے جہاد کی روح کو حتی الامکان مسلمانوں کے اذہان سے خارج کردیا جائے۔ ان کاموں کے لئے اس کی نظر انتخاب مرزا غلام احمد قادیانی پر پڑی۔ مرزا صاحب نے انگریز بہادر کے دونوں کام سرانجام دیئے۔ جہاد بالسیف کی جی بھر کر مخالفت کی اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ باقی سب مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مرزائی مسلمانوں کا جنازہ تک نہیں پڑھتے۔ قائداعظم کی نماز جنازہ کے وقت سرظفر اللہ خاں پرے ہی کھڑے رہے مگر نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے۔ اور انگریز نے مرزا صاحب کے ان احسانات کا بدلہ یہ دیا کہ ان کی نبوت اور ان کی امت کو پورا پورا تحفظ دیا اور انھیں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں دے کر انھیں حکومت میں آگے لے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزائی اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ علاوہ ازیں ان حضرات کو ہر طرح مراعات بھی دی جاتی ہیں۔- (١٠) محمدی بیگم سے نکاح کی پیشگوئی کا حشر :۔ آپ کی نبوت کے ابطال پر دسویں دلیل آپ کی جھوٹی پیشین گوئیاں ہیں۔ آپ محمدی بیگم سے نکاح کرنا چاہتے تھے۔ تو آپ نے مشہور کردیا کہ مجھے بذریعہ وحی معلوم ہوا ہے کہ میرا محمدی بیگم سے آسمانوں پر نکاح ہوا ہے۔ محمدی بیگم کے اولیاء سے جو مرزا صاحب کی اپنی برادری کے لوگ تھے، مرزا صاحب نے درخواست کی تو انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ جس پر آپ اپنی وحی کی بنا پر کئی طرح کی دھمکیاں اور وعیدیں محمدی بیگم کے اولیاء کو سناتے رہے۔ لیکن ان لوگوں پر مرزا صاحب کی دھمکیوں کا خاک بھی اثر نہ ہوا۔ اور نہ ہی ان دھمکیوں کے مطابق انھیں کچھ نقصان پہنچا۔ انہوں نے محمدی بیگم کو کسی دوسری جگہ بیاہ دیا۔ جہاں اسکے ہاں اولاد بھی ہوئی اور سکھ چین سے زندگی بسر کرتی رہی اور مرزا صاحب اس سے شادی کی حسرت دل میں لئے اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ اور آسمانوں کا نکاح آسمانوں پر ہی رہ گیا زمین پر نہ ہوسکا۔ بعد میں آپ کے متبعین نے مرزا صاحب کے الہامات اور وحیوں کی یہ تاویل فرمائی کہ کسی دور میں مرزا صاحب کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکے کا محمدی بیگم کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکی سے نکاح ضرور ہوگا۔ ایسی اندھی عقیدت بھی قابل ملاحظہ ہے۔- (١١) مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ اور مرزا صاحب کی وفات :۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے مرزا صاحب سخت دشمن تھے۔ کیونکہ وہ بھی ہاتھ دھو کر مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ آخر مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ کو ١٥۔ اپریل ١٩٠٧ ء کو ایک طویل خط لکھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ اے اللہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو میں ثناء اللہ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کذاب اور مفتری کی لمبی عمر نہیں ہوتی۔ اور اگر ثناء اللہ جھوٹا ہے تو اسے میری زندگی میں نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے اور ساتھ ہی مرزا صاحب نے یہ استدعا بھی کی کہ میرے اس خط کو من و عن اپنے اخبار میں شائع کردیا جائے۔ چناچہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مرزا صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس طویل خط کو اپنے ہفت روزہ اہلحدیث کی ٢٥ مئی ١٩٠٧ ء کی اشاعت میں شائع کردیا۔- اس خط کا انداز بیان اگرچہ دعائیہ تھا تاہم مرزا صاحب نے بذریعہ الہام اس بات کی توثیق فرما دی کہ ان کی دعا قبول ہوگئی اور یہ الہام البدر قادیان ٢٥ اپریل ١٩٠٧ ء میں شائع ہوا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا صاحب اس سے تیرہ ماہ بعد ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء کو بعارضہ ہیضہ بمقام لاہور انتقال کر گئے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اللہ کے فضل سے مارچ ١٩٤٨ ء تک یعنی مرزا صاحب کی وفات سے چالیس سال بعد تک زندہ رہے۔- مرزا صاحب کے انتقال کے بعد جب یہ شور اٹھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوائے نبوت میں جھوٹے ثابت ہوئے تو اتباع مرزا نے اس شرط کو بدل دینا چاہا کہ شرط دراصل یہ تھی کہ جو جھوٹا ہوگا وہ زندہ رہے گا اور مباحثہ کرنا چاہا اور خود ہی یہ صورت پیش کی کہ فیصلہ کے لئے ایک غیر مسلم ثالث ہوگا اور ہم اگر ہار جائیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کو تین سو روپے (یعنی آج کے لحاظ سے کم از کم تیس ہزار روپے) دیں گے۔ ورنہ مولوی ثناء اللہ ہمیں اتنی ہی رقم دے۔ اس اعلان کے مطابق اپریل ١٩١٢ ء میں بمقام لودھیانہ مباحثہ ہوا جس میں ثالت سردار بچن سنگھ جی پلیڈر لودھیانہ مقرر ہوئے۔ اس مباحثہ میں ثالث نے مولانا ثناء اللہ کے حق میں فیصلہ دیا اور انعام یا شرط کی مجوزہ رقم آپ کو مل گئی۔ یہ تھی مرزا صاحب کی ذات گرامی جو اپنے آپ کو رسول اللہ کا ظل اور بروز ہونے کی مدعی تھی۔- اور جو حکومت پاکستان نے ١٩٧٤ ء میں قومی اسمبلی میں کثرت رائے کی بنا پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا تو اس کی وجہ ان صریح احادیث کا انکار ہے جو ہم ابتدا میں درج کر آئے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی رسالت پر ایمان بھی لائے پھر ان کی بات بھی نہ مانے بلکہ آپ کے ارشادات کے علی الرغم نہ صرف ان احادیث کا انکار کرے بلکہ اپنی نبوت و رسالت کا بھی دعویٰ کرے۔- خ حکومت پاکستان کا مرزائیوں کو کافر قرار دینا :۔ مرزائی حضرات مرزا صاحب کی نبوت کی صداقت پر عموما سورة الحاقہ کی آیات نمبر ٤٤ تا ٤٦ پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر یہ رسول (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمہ لگا دے تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جان کاٹ دیں اور وجہ استدلال یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے اور مرزا صاحب تو اس مدت سے زیادہ زندہ رہے اگر انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا تو اللہ کی طرف سے ایسی کوئی سزا ضرور ملنا چاہئے تھی اور جب ایسی سزا نہیں ملی تو معلوم ہوا کہ آپ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے تھے۔ اس کا تفصیلی جواب تو ہم سورة الحاقہ میں ہی دیں گے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایسا افترا کوئی نبی لگائے تو اسے تو یقینا ایسی سزا بھی ملے گی۔ لیکن کوئی عام شخص اللہ پر جھوٹ باندھے تو یہ سزا نہیں ملتی جیسے ایک گورنر اپنی طرف سے کوئی فرمان جاری کرکے اسے صدر مملکت کے ذمہ لگائے تو اس سے ضرور مواخذہ ہوگا۔ لیکن ایک خاکروب یا کوئی عام آدمی صدر کے خلاف جو جی چاہے بکتا رہے۔ اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ مرزا صاحب کو ایسی سزا نہ ملنے سے تو الٹا آپ کی نبوت کی تردید ہوجاتی ہے۔- خ قادیانیوں کی طرف سے آپ کی نبوت پر دلائل اور ان کا جواب :۔ مرزائی حضرات نبوت کے اجراء کے لئے ایک عقلی دلیل بھی دیا کرتے ہیں۔ کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جس کے لوگ ہر وقت محتاج ہیں۔ بالخصوص آج کے دور انحطاط میں تو ایسی رحمت کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا خاتم کے معنی مہر تصدیق ہونا چاہیں۔ یعنی اس نبی کی نبوت درست ہوگی جو رسول اللہ کی تصدیق کرتا ہو اور آپ کی شریعت کا متبع ہو۔ اس دلیل کے جوابات درج ذیل ہیں :- ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ 40؀ ) 33 ۔ الأحزاب :40) اور ساتھ ہی فرما دیا کہ : (وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀ ) 33 ۔ الأحزاب :40) یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کو بھی خوب جانتا ہے کہ آئندہ تاقیامت کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔- ٢۔ یہ دلیل جو کچھ بھی ہے بہرحال ایک عقلی دلیل ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس یا عقل کے گھوڑے دوڑانا حرام ہے۔- ٣۔ ان حضرات کا دعوائے ضرورت اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ رسول اللہ نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ میری امت میں سے ایک فرقہ تاقیامت حق پر قائم رہے گا صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ وہ کون سا گروہ ہوگا۔ آپ نے فرمایا : جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب الافتراق ھذہ الامۃ)- گویا آج صرف دیکھنے کا کام یہ ہے کہ وہ کون سا فرقہ یا گروہ ہے جو صرف کتاب و سنت سے رہنمائی لیتا ہے۔ اس میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتا نہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں کسی دوسری شخصیت کا قول یا فتویٰ قبول کرتا ہے اور نہ ہی دین میں کوئی نئی بات، خواہ عقیدہ سے تعلق رکھتی ہو یا عمل سے، شامل کرتا ہے۔ اور ایسے گروہ کی موجودگی کسی نئے نبی کی آمد کی ضرورت کو ختم کردیتی ہے۔ اور ایسا فرقہ چونکہ تاقیامت باقی رہے گا لہذا تاقیامت کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہی۔- خنئے نبی کی ضرورت کس صورت میں ہوتی ہے :۔ علاوہ ازیں انبیاء کی بعثت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سابقہ قومیں یا امتیں کتاب اللہ میں تحریف کر ڈالتی ہیں یا ان میں علمائے امت کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کرکے کتاب اللہ کو گڈ مڈ کردیتی ہیں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو سچی الہامی تعلیم ہوتی ہے اس کی نشاندہی کرتا اور اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ لیکن امت مسلمہ میں یہ صورت بھی نہیں ان کے پاس کتاب اللہ اسی صورت میں موجود اور محفوظ ہے جس صورت میں آپ پر نازل ہوئی تھی۔ پھر کتاب اللہ کے علاوہ اس کی تشریح و تفسیر بھی، جسے حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، امت کے پاس موجود اور محفوظ ہے۔ تو پھر آخر کسی نئے نبی کی ضرورت بھی کیا تھی ؟ کیا یہی کہ وہ کتاب اللہ پر ایمان رکھنے والوں میں انتشار ڈال دے اور باقی سب مسلمانوں پر کفر کے فتوے صادر کرنے لگے ؟- [ ٦٧] یعنی وہ ان لوگوں کے اعمال سے خوب واقف ہے جنہوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اور وہ اپنے احکام کی مصلحتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ : یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگرچہ زید کو متبنّٰی بنایا، مگر وہ آپ کے بیٹے نہیں، نہ آپ اس کے حقیقی باپ ہیں، اس لیے انھیں زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ ہی کہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی بیٹا اتنی دیر زندہ نہیں رہا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ خدیجہ (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین بیٹے قاسم، طیب اور طاہر پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ماریہ قبطیہ (رض) سے ابراہیم پیدا ہوئے، وہ بھی دودھ پینے ہی کی عمر میں فوت ہوگئے، بیٹیاں چار پیدا ہوئیں، جو خدیجہ (رض) کے بطن سے تھیں، یعنی زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ، تین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فوت ہوگئیں اور فاطمہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا صدمہ دیکھا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چھ ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ (ابن کثیر)- مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ ۔۔ : اس ایک آیت میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کر رہے تھے، یا کرسکتے تھے۔ پہلا اعتراض یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، جب کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کو خود ہی حرام کہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں “ یعنی آپ نے جس شخص (زید) کی مطلقہ سے نکاح کیا ہے وہ آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں، تم خود جانتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی بیٹا نہیں، تو وہ بہو کیسے بن گئی ؟ دوسرا اعتراض یہ ہوسکتا تھا کہ متبنّٰی حقیقی بیٹا نہ سہی، مگر اس کی بیوی سے نکاح زیادہ سے زیادہ جائز تھا، آخر اس کا کرنا ضروری تو نہیں تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا ” اور لیکن وہ اللہ کا رسول ہے “ یعنی رسول ہونے کی وجہ سے اس کی ذمہ داری ہے کہ جن رسوم کی وجہ سے حلال چیزوں کو تم نے حرام کر رکھا ہے، ان کے باطل ہونے کا پیغام اپنی زبان کے ساتھ ہی نہیں اپنے عمل کے ساتھ بھی پہنچائے۔ پھر مزید تاکید فرمائی کہ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو یہ پیغام پہنچائے۔ اس لیے آپ پر لازم ہے کہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کا ہر پیغام پہنچا دیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، یعنی اسے خوب معلوم ہے کہ جاہلیت کی کس رسم کو کس طرح ختم کرنا ہے۔- وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ ۔۔ : یہ آیت صریح دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی نہیں، جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بالاولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ نبی عام ہے اور رسول خاص ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے جب کہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری نبی ہونے کے متعلق بہت سے صحابہ کرام (رض) سے متواتر احادیث آئی ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کذّاب قرار دیا، ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَاءِلُ مِنْ أُمَّتِيْ بالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی یَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ وَ إِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِيٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذّابون : ٢٢١٩، و قال الألباني صحیح ] ” قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “ سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) سے کہا : ( أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلَّا أَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب۔ : ٢٤٠٤ ] ” تم مجھ سے اس مرتبے پر ہو جس پر ہارون ( (علیہ السلام) ) موسیٰ ( (علیہ السلام) ) سے تھے، مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “- انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَ النُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَ لَا نَبِيَّ ، قَالَ فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ لٰکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ ، فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا الْمُبَشِّرَاتُ ؟ قَالَ رُؤْیَا الْمُسْلِمِ وَ ہِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاء النُّبُوَّۃِ ) [ ترمذي، الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات : ٢٢٧٢، و قال الألباني صحیح الإسناد ] ” رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔ “ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ نے فرمایا : ” لیکن مبشرات باقی ہیں۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ مبشرات کیا ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مَثَلِيْ وَ مَثَلَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِيْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَ أَجْمَلَہُ ، إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَ یَعْجَبُوْنَ لَہُ ، وَ یَقُوْلُوْنَ ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَۃُ ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَۃُ ، وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ ) [ بخاري، المناقب، باب خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٣٥٣٥ ] ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے ایک مکان بنایا، اسے ہر لحاظ سے خوب صورت بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور اس پر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی ؟ تو میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں۔ “ یہ تمام احادیث اور دوسری بہت سی احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ رہا عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول تو وہ ختم نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ انھیں نبوت آپ سے پہلے مل چکی ہے۔ اب وہ آپ کے امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر چلیں گے۔ آج تک پوری امت کا یہی متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لیے ختم نبوت کا منکر قطعی کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہونے اور خاتم النّبیین رسول ہونے کے درمیان ایک اور مناسبت بھی ہے، جو صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) نے بیان فرمائی ہے اور وہ مناسبت اللہ تعالیٰ کے ” بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا “ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ (رض) سے پوچھا کہ آپ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : ( مَاتَ صَغِیْرًا، وَ لَوْ قُضِيَ أَنْ یَّکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُہُ ، وَ لٰکِنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَہُ ) [ بخاري، الأدب، باب من سمی بأسماء الأنبیاء : ٦١٩٤ ] ” وہ چھوٹی عمر ہی میں فوت ہوگئے اور اگر فیصلہ ہوتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبی ہو تو آپ کا بیٹا زندہ رہتا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی نہیں۔ “ یہ بات اگرچہ ابن ابی اوفیٰ (رض) پر موقوف ہے، مگر یہ اپنی رائے سے کہنا مشکل ہے، کیونکہ نبی کا بیٹا نبی ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (پہلی آیات میں نکاح زینب کا تبلیغ عملی ہونے اور سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے محمود ہونا بتلایا گیا تھا، آگے ان معترضین کا جواب ہے جو اس نکاح کو مذموم سمجھ کر طعنہ زنی کرتے تھے، یعنی) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں (یعنی جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علاقہ اولاد نہیں رکھتے، جیسا کہ اس آیت میں عام صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا رجالکم یعنی تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ اس میں نسبت عام لوگوں کی طرف دی گئی، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نسبت قطع کی گئی۔ اس لئے اپنے خاندان کے افراد میں سے کسی مرد کا باپ ہونا اس کے منافی نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام امت کے لوگوں کے ساتھ آپ کو ایسی ابوت حاصل نہیں جو کسی دلیل صحیح سے ان کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہونے کا موجب ہو) لیکن (ہاں ایک دوسری قسم کی ابوت روحانی ضرور حاصل ہے، چنانچہ) اللہ کے رسول ہیں (اور ہر رسول روحانی مربی ہونے کی وجہ سے امت کا روحانی باپ ہوتا ہے) اور (اس ابوت روحانیہ میں اس درجہ کامل ہیں کہ سب رسولوں سے افضل واکمل ہیں، چناچہ آپ) سب نبیوں کے ختم پر ہیں (اور جونہی ایسا ہوگا وہ ابوت روحانیہ میں سب سے بڑھ کر ہوگا، کیونکہ آپ کی ابوت روحانیہ کا سلسلہ قیامت تک چلے گا، جس کے نتیجہ میں آپ کی روحانی اولاد سب سے زیادہ ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ امت کے لئے آپ کی ابوت جسمانی اور نسبی نہیں ہے جس سے حرمت نکاح متعلق ہوتی ہے بلکہ ابوت روحانی ہے۔ اس لئے متبنیٰ بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کوئی قابل اعتراض نہیں، بلکہ اس روحانی ابوت کا تقاضا یہ ہے کہ سب لوگ آپ پر مکمل اعتماد و اعتقاد رکھیں، آپ کے کسی قول و فعل پر شک و شبہ نہ کریں) اور (اگر یہ وسوسہ ہو کہ یہ نکاح ناجائز تو نہیں تھا، لیکن اگر نہ ہوتا تو بہتر ہوتا تاکہ لوگوں کو اعتراض اور طعن کا موقع ہی نہ ملتا تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ) اللہ تعالیٰ ہر چیز (کے وجود یا عدم کی مصلحت) کو خوب جانتا ہے۔- معارف ومسائل - آیت مذکورہ میں لوگوں کے خیال کا رد ہے جو اپنی رسم جاہلیت کے مطابق زید بن حارثہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیٹا کہتے تھے، اور ان کی طلاق کے بعد حضرت زنیب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح پر طعن کرتے تھے، کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس کے رد کے لئے یہ کہہ دینا کافی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید کے باپ نہیں بلکہ زید کے باپ حارثہ ہیں، مگر اس میں مبالغہ اور تاکید کیلئے ارشاد فرمایا (آیت) ماکان محمد ابا احدمن رجالکم، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ بھی نہیں، تو ایسے شخص پر جس کی اولاد میں کوئی بھی مرد نہ ہو یہ طعن دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے، کہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور اس کی مطلقہ بیوی آپ کے بیٹے کی بیوی ہونے کی وجہ سے آپ پر حرام ہے۔- اس مضمون کے بیان کے لئے مختصر الفاظ یہ تھے کہ (ابا احد منکم) کہا جاتا، اس کے بجائے قرآن حکیم نے لفظ رجال کا اضافہ کر کے اس شبہ کو دور کردیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو چار فرزندوں کے والد ہیں، تین فرزند حضرت خدیجہ سے قاسم، طیب، طاہر ہیں اور ایک حضرت ماریہ قبطیہ سے ابراہیم، کیونکہ یہ سب بچپن ہی میں وفات پا گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی رجال کی حد میں داخل نہیں ہوا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نزول آیت کے وقت آپ کا کوئی فرزند نہ تھا۔ قاسم، طیب، اور طاہر کی وفات ہوگئی تھی اور ابراہیم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔- مخالفین کے اعتراض اور طعن کا جواب اسی جملہ سے ہوگیا تھا، مگر آگے دوسرے شبہات کے ازالہ کے لئے فرمایا ولکن رسول اللہ حرف لکن عربی زبان میں اس کام کے لئے آتا ہے کہ پچھلے کلام میں جو کوئی شبہ ہوسکتا تھا اس کو دور کیا جائے۔ یہاں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ بیان کیا گیا کہ آپ امت کے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو اس پر شبہ ہوسکتا تھا کہ ہر نبی و رسول اپنی امت کا باپ ہوتا ہے، اس لحاظ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے سبھی مردوں کے بلکہ ہر مرد و عورت کے باپ ہیں آپ سے ابوت کی نفی گویا نبوت کی نفی ہے۔- اس کا جواب لکن رسول اللہ کے لفظ سے یہ دیا گیا کہ حقیقی اور نسبی باپ ہونا اور چیز ہے جس پر نکاح کے حلال و حرام کے احکام عائد ہوتے ہیں اور بحیثیت نبوت امت کا روحانی باپ ہونا دوسری چیز ہے جس سے یہ احکام متعلق نہیں ہوتے، تو گویا مطلب اس پورے جملے کا یہ ہوگیا کہ آپ امت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں، لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔- اس میں ایک دوسرے طعن کا جواب بھی ہوگیا، جو بعض مشرکین نے کیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذ اللہ ابتر (یعنی مقطوع النسل) ہیں۔ یعنی کوئی نرینہ اولاد آپ کی نہیں ہے، جس سے نسب چلے، اور آپ کا یہ پیغام آگے بڑھے، چند روز کے بعد ان کا قصہ ہی ختم ہوجائے گا۔ الفاظ مذکور نے یہ واضح کردیا کہ اگرچہ نسبی اولاد نرینہ آپ کی نہیں لیکن آپ کی رسالت ونبوت کے پیغام کو پھیلانے اور قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے نسبی اولاد کی ضرورت نہیں، اس کے لئے روحانی اولاد کام کیا کرتی ہے۔ اور چونکہ آپ رسول اللہ ہیں، اور رسول امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، اس لئے آپ پوری امت کے روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے تم سب سے زیادہ کثیر الاولاد ہیں۔- یہاں جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت کا ذکر آیا، اور اس منصب نبوت میں آپ تمام دوسرے انبیاء سے خاص امتیازی فضیلت رکھتے ہیں تو آگے آپ کی مخصوص شان اور تمام انبیاء (علیہم السلام) پر آپ کا فائق ہونا اس لفظ سے واضح ہوگیا وخاتم النبین، لفظ خاتم میں دو قراتیں ہیں، امام حسن اور عاصم کی قرات خاتم بفتح تاء ہے اور دوسرے آئمہ قرات خاتم بکسر تاء پڑھتے ہیں۔ حاصل معنی دونوں کا ایک ہی ہے، یعنی انبیاء کو ختم کرنے والے، کیونکہ خاتم خواہ بکسر التاء ہو یا بفتح التاء دونوں کے معنی آخر کے بھی آتے ہیں، اور مہر کے معنی میں بھی یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، اور نتیجہ دوسرے معنی کا بھی وہی آخر کے معنی ہوتے ہیں کیونکہ مہر کسی چیز پر بند کرنے کے لئے آخر ہی میں کی جاتی ہے۔ لفظ خاتم بالکسر والفتح دونوں کے معنی لغت عربی میں تمام کتابوں میں مذکور ہیں۔ قاموس، صحاح، لسان العرب، تاج العروس وغیرہ اسی لئے تفسیر روح المعانی میں خاتم بمعنی مہر کا حاصل بھی وہی معنی آخر کے بتلائے ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں والخاتم اسم الہ لما یختم بہ کالطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبین الذی ختم النبیون بہ ومالہ اخر النبین۔ یہی مضمون تفسیر بیضاوی اور احمدی میں بھی مذکور ہے اور امام راغب نے مفرادات القرآن میں فرمایا وخاتم النبوة الایۃ ختم النبوة ای تممہا بمجیہ، یعنی آپ کو خاتم نبوت اس لئے کہا گیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل کردیا ہے۔- اور محکم ابن سیدہ میں ہے وخاتم کل شئی وخاتمتہ عاقبتہ واخرہ یعنی ہر چیز کا خاتم اور خاتمہ اس کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قراءت خواہ بفتح تاء کی لی جائے یا بکسر تاء کی، معنی دونوں صورتوں میں یہ ہیں کہ آپ ختم کرنے والے ہیں انبیاء کے، یعنی سب کے آخر اور بعد میں آپ مبعوث ہوئے ہیں۔- صفت خاتم الانبیاء ایک ایسی صفت ہے جو تمام کمالات نبوت و رسالت میں آپ کی اعلیٰ فضیلت اور خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ عموماً ہر چیز میں تدریجی ترقی ہوتی ہے اور انتہا پر پہنچ کر اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور جو آخری نتیجہ ہوتا ہے وہی اصل مقصود ہوتا ہے، قرآن کریم نے خود اس کو واضح کردیا ہے (آیت) الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی، یعنی آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے۔ - انبیائے سابقین کے دین بھی اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے مکمل تھے، کوئی ناقص نہ تھا، لیکن کمال مطلق اسی دین مصطفوی کو حاصل ہوا جو اولین و آخرین کے لئے حجت اور قیامت تک چلنے والا دین ہے۔- اس جگہ صفت خاتم النبین کے اضافہ سے اس مضمون کی بھی اور زیادہ وضاحت اور تکمیل ہوگئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقطوع النسل کہنا جہالت ہے، جبکہ ساری امت کے باپ ہونے کی حیثیت سے آپ مصنف ہیں کیوں کہ لفظ خاتم النبین نے یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کے بعد قیامت تک آنے والی سب نسلیں اور قومیں آپ ہی کی امت میں شامل ہوں گی۔ اس وجہ سے آپ کی امت کی تعداد بھی دوسری امتوں سے زیادہ ہوگی اور آپ کی روحانی اولاد دوسرے انبیاء کی نسبت سے بھی زیادہ ہوگی۔- صفت خاتم النبین نے یہ بھی بتلا دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت اپنی اولاد روحانی یعنی پوری امت پر دوسرے تمام انبیاء سے زائد ہوگی، اور آپ قیامت تک پیش آنے والی ضرورتوں کو واضح کرنے کا پورا اہتمام فرمائیں گے۔ کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی اور کوئی وحی دنیا میں آنے والی نہیں، بخلاف انبیاء سابقین کے کہ ان کو اس کی فکر نہ تھی وہ جانتے تھے کہ جب قوم میں گمراہی پھیلے گی تو ہمارے بعد دوسرے انبیاء آ کر اس کی اصلاح کردیں گے، مگر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فکر لاحق تھی کہ قیامت تک امت کو جن حالات سے سابقہ پڑے گا ان سب حالات کے متعلق ہدایات امت کو دے کر جائیں، جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث شاہد ہیں کہ آپ کے بعد جتنے لوگ قابل اقتداء آنے والے تھے اکثر ان کے نام لے کر بتلا دیا ہے۔ اسی طرح جتنے گمراہی کے علمبردار ہیں ان کے حالات اور پتے ایسے کھول کر بتلا دیئے ہیں کہ ذرا غور کرنے والے کو کوئی اشتباہ باقی نہ رہ جائے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے انی ترکتکم علی شریعة بیضاء لیلہا ونہارھا سواء، ” یعنی میں نے تم کو ایسے روشن راستے پر چھوڑا ہے جس میں رات دن برابر ہیں کسی وقت بھی گمراہی کا خطرہ نہیں “- اس آیت میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اوپر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بصفت رسول آیا ہے، اس کے لئے بظاہر مناسب یہ تھا کہ آگے ” خاتم الرسل “ یا ” خاتم المرسلین “ کا لفظ استعمال ہوتا، مگر قرآن حکیم نے اس کے بجائے ” خاتم النبین “ کا لفظ اختیار فرمایا۔- وجہ یہ ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک نبی اور رسول میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ نبی تو ہر شخص کو کہا جاتا ہے جس کو حق تعالیٰ اصلاح خلق کے لئے مخاطب فرمائیں، اور اپنی وحی سے مشرف فرمائیں، خواہ اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت تجویز کریں، یا پہلے ہی کسی نبی کی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہو، جیسے ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب و شریعت کے تابع ہدایت کرنے پر مامور تھے۔- اور لفظ رسول خاص اس نبی کے لئے بولا جاتا ہے جس کو مستقل کتاب و شریعت دی گئی ہو۔ اسی طرح لفظ نبی کے مفہوم میں بہ نسبت لفظ رسول کے عموم زیادہ ہے، تو آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ انبیاء کے ختم کرنے والے اور سب سے آخر میں ہیں خواہ وہ صاحب شریعت نبی ہوں یا صرف پہلے نبی کے تابع۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی جتنی قسمیں اللہ کے نزدیک ہو سکتی ہیں وہ سب آپ پر ختم ہوگئیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔- ” یعنی یہ آیت نص صریح ہے اس عقیدہ کے لئے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اور جب نبی نہیں تو بدرجہ اولیٰ رسول بھی نہیں، کیونکہ لفظ نبی عام اور لفظ رسول خاص ہے اور یہ وہ عقیدہ ہے جس پر احادیث متواترہ شاہد ہیں، جو صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں “- اس آیت کی لفظی تشریح میں کسی قدر تفصیل سے اس لئے کام لیا گیا کہ ہمارے ملک میں مرزا قادیانی مدعی نبوت نے اس آیت کو اپنے راستہ کی رکاوٹ سمجھ کر اس کی تفسیر میں طرح طرح کی تحریفات اور احتمالات پیدا کئے ہیں، مذکور الصدر تقریر سے الحمد للہ ان سب کا جواب ہوجاتا ہے۔- مسئلہ ختم نبوت :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاتم النبین ہونا اور آپ کا آخری پیغمبر ہونا، آپ کے بعد کسی نبی کا دنیا میں مبعوث نہ ہونا اور ہر مدعی نبوت کا کاذب و کافر ہونا ایسا مسئلہ ہے جس پر صحابہ کرام سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع و اتفاق رہا ہے۔ اس لئے ضرورت نہ تھی کہ اس پر کوئی تفصیلی بحث کی جائے، لیکن قادیانی فرقہ نے اس مسئلہ میں مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے بڑا زور لگایا ہے، سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں شائع کر کے کم علم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے احقر نے اس مسئلہ کی پوری تفصیل ایک مستقل کتاب ” ختم نبوت “ میں لکھ دی ہے، جس میں ایک سو آیات اور دو سو سے زائد احادیث اور سینکڑوں اقوال وآثار سلف وخلف سے اس مسئلہ کو پورا واضح کردیا ہے اور قادیانی دجل کے شبہ کا مفصل جواب دیا ہے، یہاں اس میں سے چند ضروری باتیں لکھی جاتی ہیں۔- آپ کا خاتم النبیین ہونا آخر زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے منافی نہیں :- چونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ قیامت سے پہلے آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پھر دنیا میں تشریف لائیں گے، اور دجال اعظم کو قتل کریں گے اور اس وقت ہر گمراہی کو ختم کریں گے، جس کی تفصیل احقر کے رسالہ ” التصریح بما تواتر فی نزول المسیح “ میں مذکور ہے۔- مرزائی قادیانی نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ آسمان میں اٹھایا جانا اور پھر آخر زمانے میں تشریف لانا جو قرآن و سنت کی بیشمار نصوص سے ثابت ہیں ان کا انکار کر کے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور استدلال میں یہ پیش کیا کہ اگر حضرت عیسیٰ بن مریم نبی بنی اسرائیل کا پھر دنیا میں آنا تسلیم کیا جائے تو یہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین ہونے کے منافی ہوگا۔- جواب بالکل واضح ہے کہ خاتم النبیین اور آخر النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی شخص عہدہ نبوت پر فائز نہ ہوگا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے پہلے جس کو نبوت عطا ہوچکی ہے ان کی نبوت سلب ہوجائے گی، یا ان میں سے کوئی اس عالم میں پھر نہیں آسکتا۔ البتہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جو بھی آپ کی امت میں اصلاح و تبلیغ کے لئے آئے گا وہ اپنے منصب نبوت پر قائم ہوتے ہوئے اس امت میں اصلاح کی خدمت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات ہی کے تابع انجام دے گا، جیسا کہ احادیث صحیفہ میں تصریح ہے۔- امام ابن کثیر نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا۔- ” یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے سے یہ مراد ہے کہ وصف نبوت آپ کے بعد منقطع ہوگیا، اب کسی کو یہ وصف اور منصب نہیں ملے گا، اس سے اس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جس پر امت کا اجماع ہے اور قرآن اس پر ناطق ہے اور احادیث رسول جو تقریباً درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اس پر شاہد ہیں وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخر زمانے میں نازل ہوں گے، کیونکہ ان کو نبوت اس دنیا میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے مل چکی تھی “- نبوت کے مفہوم کی تحریف ظلی اور بروزی نبوت کی ایجاد :- اس مدعی نبوت نے دعویٰ نبوت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ایک نئی چال یہ چلی کہ نبوت کی ایک نئی قسم ایجاد کی، جس کا قرآن وسنت میں کوئی وجود و ثبوت نہیں اور پھر کہا کہ یہ قسم نبوت کی حکم قرآنی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس نے نبوت کے مفہوم میں وہ راستہ اختیار کیا جو ہندوؤں اور دوسری قوموں میں معروف ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کے جنم میں دوسرے کے روپ میں آسکتا ہے، اور پھر یہ کہا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکمل اتباع کی وجہ سے آپ کا ہم رنگ ہوگیا ہو اس کا آنا گویا خود آپ کا ہی آنا ہے، وہ درحقیقت آپ ہی کا ظل اور بروز ہوتا ہے، اس لئے اس کے دعوے سے عقیدہ ختم نبوت متاثر نہیں ہوتا۔- مگر اول تو خود یہ نو ایجاد نبوت اسلام میں کہاں سے آئی، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ ختم نبوت چونکہ عقائد اسلامیہ کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مختلف عنوانات سے مختلف اوقات میں ایسا واضح کردیا ہے کہ کسی تحریف کرنے والے کی تحریف چل نہیں سکتی۔ اس جواب کی پوری تفصیل تو احقر کی کتاب ختم نبوت ہی میں دیکھی جاسکتی ہے، یہاں چند چیزیں بقدر ضرورت پیش کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔- صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں تمام کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت اسناد صحیح کے ساتھ آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا ہو اور اس کو خوب مضبوط اور مزین کیا ہو مگر اس کے ایک گوشہ میں دیوار کی ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ہو تو لوگ اس کو دیکھنے کے لئے اس میں چلیں پھریں اور تعمیر کو پسند کریں مگر سب یہ کہیں کہ اس مکان بنانے والے نے یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی جس سے تعمیر بالکل مکمل ہوجاتی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ”(قصر نبوت کی) وہ آخری اینٹ میں ہوں، اور بعض الفاظ حدیث میں ہیں کہ میں نے اس خالی جگہ کو پر کر کے قصر نبوت کو مکمل کردیا “- اس تمثیل بلیغ کا حاصل یہ ہے کہ نبوت ایک عالی شان محل کی طرح ہے، جس کے ارکان انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے یہ محل بالکل تیار ہوچکا تھا اور اس میں صرف ایک اینٹ کے سوا کسی اور قسم کی گنجائش تعمیر میں باقی نہیں تھی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ کو پر کر کے قصر نبوت کی تکمیل فرما دی، اب اس میں نہ کسی نبوت کی گنجائش ہے نہ رسالت کی، اگر نبوت یا رسالت کی کچھ اقسام مان لی جائیں تو اب ان میں سے کسی قسم کی گنجائش قصر نبوت میں نہیں ہے۔- صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ کی ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” بنی اسرائیل کی سیاست اور انتقام خود انبیاء کے ہاتھ میں تھا، جب ایک نبی کی وفات ہوجاتی تو دوسرا نبی اس کے قائم مقام ہوجاتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ میرے خلیفہ ہوں گے جو بہت ہوں گے “- اس حدیث نے یہ بھی واضح کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا تو امت کی ہدایت کا انتظام کیسے ہوگا ؟ اس کے متعلق فرمایا کہ آپ کے بعد امت کی تعلیم و ہدایت کا انتظام آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ہوگا، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے مقاصد نبوت کو پورا کریں گے، اگر ظلی بروزی کوئی نبوت کی قسم ہوتی یا غیر تشریعی نبوت باقی ہوتی، تو ضرور تھا کہ یہاں اس کا ذکر کیا جاتا کہ اگرچہ عام نبوت ختم ہوچکی مگر فلاں قسم کی نبوت باقی ہے جس سے اس عالم کا انتظام ہوگا - اس حدیث میں صاف واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ نبوت کی کوئی قسم آپ کے بعد باقی نہیں، اور ہدایت خلق کا کام جو پچھلی امتوں میں انبیاء بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا، وہ اس امت میں آپ کے خلفاء سے لیا جائے گا۔- صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث مرفوع ہے :- ” یعنی نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات کے “- مسند احمد وغیرہ میں حضرت صدیقہ عائشہ اور ام کرز کعبیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات کے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مبشرات کیا چیز ہیں ؟ فرمایا سچے خواب جو مسلمان خود دیکھے یا اس کے متعلق کوئی دوسرا دیکھے “- اس حدیث نے کس قدر وضاحت سے بتلا دیا کہ نبوت کی کوئی قسم تشریعی یا غیر تشریعی اور بقول مرزا قادیانی ظلی یا بروزی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد باقی نہیں، صرف مبشرات یعنی سچے خواب لوگوں کو آئیں گے جن سے کچھ معلومات ہوجائیں گی۔- اور مسند احمد اور ترمذی میں حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” بیشک رسالت اور نبوت میرے بعد منقطع ہوچکی ہے، میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی “ وقال ھذا الحدیث صحیح - اس حدیث نے واضح کردیا کہ غیر تشریعی نبوت بھی آپ کے بعد باقی نہیں، اور ظلی بروزی تو نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں نہ اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز معروف ہے۔- اس جگہ مسئلہ ختم نبوت کی احادیث جمع کرنا مقصود نہیں، وہ تو دو سو سے زیادہ رسالہ ” ختم نبوت “ میں جمع کردی گئی ہیں، صرف چند احادیث سے یہ بتلانا مقصود تھا کہ مرزائی قادیانی نے جو بقاء نبوت کے لئے ظلی اور بروزی کا عنوان ایجاد کیا ہے، اول تو اسلام میں اس کی کوئی اصل و بنیاد نہیں، اور بالفرض ہوتی بھی تو ان احادیث مذکورہ نے واضح طور پر یہ بتلا دیا کہ آپ کے بعد نبوت کی کوئی قسم کسی طرح کی باقی نہیں ہے۔- اسی لئے صحابہ کرام سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے سب طبقات کا اجماع اس عقیدہ پر رہا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی یا رسول نہیں ہوسکتا جو دعوے کرے وہ کا ذب، منکر قرآن اور کافر ہے۔ اور صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا جس کی رو سے مسیلمہ کذاب مدعی نبوت سے خلیفہ اول صدیق اکبر کے عہد میں جہاد کر کے اس کو اور اس کے ماننے والوں کو قتل کیا گیا۔- آئمہ سلف اور علماء امت کے اقوال و تصریحات بھی اس معاملہ میں رسالہ ” ختم نبوت “ کے تیسرے حصہ میں بڑی تفصیل سے لکھ دیئے گئے ہیں، اس جگہ چند کلمات نقل کئے جاتے ہیں۔- ” اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احادیث متواترہ میں خبر دی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ آپ کے بعد جو شخص اس مقام نبوت کا دعویٰ کرے وہ کذاب، مفتری، دجال، گمراہ، گمراہ کرنے والا ہے، اگرچہ وہ کتنی ہی شعبدہ بازی کرے اور قسم قسم کے جادو اور طلسم اور نیرنگیاں دکھلائے کہ سب کے سب محال اور گمراہی میں عقل والوں کے نزدیک جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسود عنسی (مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمن میں اور مسیلمہ کذاب (مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمامہ میں اس طرح کے حالات فاسدہ اور بےہودہ اقوال ظاہر کرائے، جن کو دیکھ کر سن کر ہر عقل و فہم والے نے سمجھ لیا کہ یہ دونوں کاذب اور گمراہ ہیں، اللہ ان پر لعنت فرمائے، اسی طرح جو شخص بھی قیامت تک نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و کافر ہے، یہاں تک کہ مدعیان نبوت کا یہ سلسلہ مسیح دجال پر ختم ہوگا “- امام غزالی نے اپنی کتاب ” الاقتصادفی الاعتقاد “ میں آیت مذکورہ کی تفسیر اور عقیدہ ختم نبوت کے متعلق یہ الفاظ لکھے ہیں :- ” بیشک امت نے اس لفظ (یعنی خاتم النبیین اور لا نبی بعدی) سے اور قرائن احوال سے باجماع یہی سمجھا ہے کہ آپ کے بعد ابد تک نہ کوئی نبی ہوگا، اور نہ کوئی رسول اور یہ کہ نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے نہ تخصیص “- اور قاضی عیاض نے اپنی کتاب شفا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دعویٰ نبوت کرنیوالے کو کافر اور کذاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنیوالا اور آیت مذکورہ کا منکر کہہ کر یہ الفاظ لکھے ہیں :- ” امت نے اجماع کیا ہے کہ اس کلام کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے اور اس پر کہ اس آیت کا نفس مفہوم ہی مراد ہے بغیر کسی تاویل یا تخصیص کے اس لئے ان تمام فرقوں کے کفر میں کوئی شک نہیں، (جو کسی مدعی نبوت کی پیروی کریں) بلکہ ان کا کفر قطعی طور سے اجماع امت اور نقل یعنی کتاب و سنت سے ثابت ہے “- رسالہ ختم نبوت کے تیسرے حصہ میں ائمہ دین اور ہر طبقے کے اکابر علماء کے بہت سے اقوال جمع کردیئے گئے ہیں اور جو یہاں نقل کئے گئے ہیں ایک مسلمان کے لئے وہ بھی کافی ہیں واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝ ٤٠ۧ- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - ختم - الخَتْمُ والطّبع يقال علی وجهين : مصدر خَتَمْتُ وطبعت، وهو تأثير الشیء کنقش الخاتم - انتهيت إلى آخره، فقوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام 46] ، إشارة إلى ما أجری اللہ به العادة أنّ الإنسان إذا تناهى في اعتقاد باطل، أو ارتکاب محظور۔ ولا يكون منه تلفّت بوجه إلى الحقّ- يورثه ذلك هيئة تمرّنه علی استحسان المعاصي، وكأنما يختم بذلک علی قلبه، وعلی ذلك : أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل 108] ، وعلی هذا النّحو استعارة الإغفال في قوله عزّ وجلّ : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] ، واستعارة الكنّ في قوله تعالی: وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، واستعارة القساوة في قوله تعالی: وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] ، قال الجبّائيّ «1» : يجعل اللہ ختما علی قلوب الکفّار، ليكون دلالة للملائكة علی كفرهم فلا يدعون لهم «2» ، ولیس ذلک بشیء فإنّ هذه الکتابة إن کانت محسوسة فمن حقّها أن يدركها أصحاب التّشریح، وإن کانت معقولة غير محسوسة فالملائكة باطّلاعهم علی اعتقاداتهم مستغنية عن الاستدلال . وقال بعضهم : ختمه شهادته تعالیٰ عليه أنه لا يؤمن، وقوله تعالی: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس 65] ، أي : نمنعهم من الکلام، وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ- [ الأحزاب 40] ، لأنه خَتَمَ النّبوّة، أي : تمّمها بمجيئه . وقوله عزّ وجلّ : خِتامُهُ مِسْكٌ- [ المطففین 26] ، قيل : ما يختم به، أي : يطبع، وإنما معناه : منقطعه وخاتمة شربه، أي : سؤره في الطيّب مسك، وقول من قال يختم بالمسک «3» أي : يطبع، فلیس بشیء، لأنّ الشّراب يجب أن يطيّب في نفسه، فأمّا ختمه بالطّيب فلیس ممّا يفيده، ولا ينفعه طيب خاتمه ما لم يطب في نفسه .- ( خ ت م ) الختم والطبع ۔ کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمت اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی کسی چیز پر مہری کی طرح نشان لگانا کے ہیں اور کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جا تا ہے ۔ مجازا کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وتوق حاصل کرلینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کردیا جاتا ہے ۔ کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية 23] اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ۔ اور کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کرلینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر نقش ہوجاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے ۔ یعنی قرآن ختم کرایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور آیت : ۔ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام 46]( ان کافروں سے ) کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان یا دو آنکھیں چجین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ۔ میں عادت الہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل بامحرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف ( التفات نہیں کرنا تو اس کی ہیئت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔ چناچہ اس ی معنی میں فرمایا : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل 108] یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے اسی طرح آیات کریمہ : ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] اور ان کے دلوں سخت کردیا ۔ میں اعفال کن اور قساوۃ سے بھی علی الترتیب یہی معنی مراد ہیں ۔ جبائی کہتے ہیں کہ اللہ کے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے دلوں پر ایسی علامت قائم کردیتے ہیں کہ فرشتے انکے کفر سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے خیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کتابت محسوس ہو تو اصحاب التشریح ( ) کو بھی اس کا ادراک ہونا ضروری ہے اور اگر سراسر عقلی اور غیر محسوس ہے تو ملائکہ ان کے عقائد باطلہ سے مطلع ہونے کے بعد اس قسم کی علامات سے بےنیاز ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مہر لگانے کے معنی ان کے ایمان نہ لانے کی شہادت دینے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس 65] آج ہم ان کے موہوں پر مہر لگادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکیں گے اور آیت میں آنحضرت کو خاتم النبین فرمانے کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے اپنی آمد سے سلسلہ نبوت کی مکمل کردیا ۔ ہے ( اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ) اور آیت کریمہ :۔ خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] جسکی مہر مسک کی ہوگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ختام کے معنی مایختم بہ کے ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگائی جائے مگر آیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا آخری لطف اور برین میں باقی ماندہ جھوٹ مسک کی طرح مہ کے گا اور بعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ اس پر کستوری کی مہر لگی ہوئی ہوگی مگر یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ شراب کو بذات خود لذت ہونا چاہیے اگر وہ بذات خود لذت لذیذ نہ ہو تو اس پر مسک کی مہر لگانا چنداں مفید نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی اس کی لذت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زید کے باپ نہیں بلکہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں کہ آپ کے بعد اب کوئی بھی نبی نہ ہوگا۔- اور اللہ تعالیٰ تمہارے قول و فعل کو خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ ” (دیکھو ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں “- یہاں ایک دوسرے انداز میں واضح کردیا گیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ زید (رض) بن حارثہ محض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ بولے بیٹے تھے۔ اب جبکہ اس ضمن میں ایک واضح حکم نازل ہوچکا ہے تو یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے صاف ہوجانا چاہیے۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں جو نرینہ اولاد ہوئی اسے اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی اٹھا لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری عمر میں حضرت ماریہ قبطیہ (رض) کے بطن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی لیکن وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بیٹے ابراہیم (رض) سے بہت محبت تھی۔ ان کی وفات سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت تکلیف پہنچی ‘ جس کا اظہار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان سے ہوتا ہے : یا ابراہیم انا بِفِراقِک لمحزونون ” اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی میں بہت رنجیدہ ہیں۔ “ - یہ عجیب اتفاق ہے کہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ ( علیہ السلام) کا تعلق بھی مصر سے تھا جن کے بطن سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس بیٹے کا نام ابراہیم (رض) رکھا جو مصر سے تعلق رکھنے والی حضرت ماریہ قبطیہ (علیہ السلام) کے بطن سے تھا۔ - وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ” بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں۔ “- محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئی ‘ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ چناچہ جاہلیت کی غلط رسومات اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم نہ کرتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد پھر اور کون انہیں ختم کرتا ؟ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذاتی مثال قائم کرتے ہوئے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح نہ کرتے تو یہ رسم اس طرح حتمی انداز میں ختم نہ ہوتی۔ - یہاں اس آیت کے حوالے سے رسالت اور نبوت میں لطیف فرق کو بھی سمجھ لیجیے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ نبوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگئی ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اب بھی قائم و دائم ہے اور تا قیام قیامت قائم و دائم رہے گی۔ اپنی حیات مبارکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) براہِ راست بنفس نفیس رسالت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے مگر اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ چناچہ آج دین کے جو خدام قرآن کا پیغام خلق ِخدا تک پہنچا رہے ہیں وہ گویا رسالت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ سورة الانعام کی آیت ١٩ کے یہ الفاظ گویا اسی صورت حال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ” اور میری جانب یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں خبردار کر دوں اس کے ذریعے سے اور اس کو بھی جس تک یہ پہنچ جائے “۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی رسالت کی ترویج و اشاعت کا یہ فریضہ امت کو سونپتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا : (فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ ) ” اب پہنچائیں وہ جو موجود ہیں ان تک جو موجود نہیں ہیں “۔ لہٰذا محمد ٌ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے ذریعے سے مسلسل قائم و دائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ” خاتم “ کا جو لفظ آیا ہے وہ رسالت کے لیے نہیں بلکہ نبوت کے لیے آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دنیا سے پردہ فرمایا وحی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ بھی بند ہوگیا۔ گویا نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ قائم تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے ساتھ ختم ہوگئی ‘ لیکن رسالت ِمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت تک قائم رہے گی۔- وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا ” اور یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :77 اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی صلی اللہ علیہ و لم کے اس نکاح پر کر رہے تھے ۔ ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسول ہیں ، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔ پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔ اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔ وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں ، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔ افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک گروہ نے اس آیت کی غلط تاویلات کر کے ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھول دیا ہے ۔ اس لیے ختم نبوت کے مسئلے کی پوری توضیح اور اس گروہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی تردید کے لیے ہم نے اس سورہ کی تفسیر کے آخر میں ایک مفصل ضمیمہ شامل کر دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: چونکہ حضرت زید بن حارثہؓ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا قرار دیا تھا، اِس لئے لوگ اُن کو زید بن محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہہ کر پکارتے تھے، پچھلی آیتوں میں جب یہ حکم جاری ہوا کہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا قرار نہیں دیاجاسکتا، تو حضرت زیدؓ کو زید بن محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کہنے کی بھی ممانعت ہوگئی، چنانچہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں (کیونکہ آپ کی زندہ رہنے والی اولاد میں صرف بیٹیاں تھیں) لیکن آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہونے کی وجہ سے پوری امت کے رُوحانی باپ ہیں، اور چونکہ آخری نبی ہیں، اور قیامت تک کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں، اس لئے جاہلیت کی رسموں کو اپنے عمل سے ختم کرنے کی ذمہ داری آپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔