امی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ان کی تعریف ہو رہی ہے جو اللہ کی مخلوق کو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور امانت اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہیں کرتے ، کسی کی سطوت و شان سے مرعوب ہو کر پیغام اللہ کا پہنچانے میں خوف نہیں کھاتے ۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کافی ہے ۔ اس منصب کی ادائیگی میں سب کے پیشوا بلکہ ہر اک امر میں سب کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ خیال فرمائیے کہ مشرق و مغرب کے ہر ایک بنی آدم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کی تبلیغ کی ۔ اور جب تک اللہ کا دین چار دانگ عالم میں پھیل نہ گیا ، آپ مسلسل مشقت کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت میں مصروف رہے ۔ آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم ہی کی طرف آتے رہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف اللہ کے رسول بن کر آئے تھے ۔ قرآن میں فرمان الٰہی ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں سلام علیہ ۔ پھر آپ کے بعد منصب تبلیغ آپ کی امت کو ملا ۔ ان میں سب کے سردار آپ کے صحابہ ہیں رضوان اللہ علیہم ۔ جو کچھ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا ، سب کچھ بعد والوں کو سکھا دیا ۔ تمام اقوال و افعال جو احوال دن اور رات کے ، سفر و حضر کے ، ظاہر و پوشیدہ دنیا کے سامنے رکھ دئیے ۔ اللہ ان پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔ پھر ان کے بعد والے ان کے وارث ہوئے اور اسی طرح پھر بعد والے اپنے سے پہلے والوں کے وارث بنے اور اللہ کا دین ان سے پھیلتا رہا ۔ اور قرآن و حدیث لوگوں تک پہنچتے رہے ہدایت والے ان کی اقتدا سے منور ہوتے رہے اور توفیق خیر والے ان کے مسلک پر چلتے رہے ۔ اللہ کریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کر دے ۔ مسند احمد میں ہے تم میں سے کوئی اپنا آپ ذلیل نہ کرے ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے فرمایا خلاف شرع کام دیکھ کر ، لوگوں کے خوف کے مارے خاموش ہو رہے ۔ قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی کہ تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ کہے گا کہ لوگوں کے ڈر سے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا سب سے زیادہ خوف رکھنے کے قابل تو میری ذات تھی ، پھر اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ کہا جائے ۔ لوگ جو زید بن محمد کہتے تھے جس کا بیان اوپر گذر چکا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زید کے والد نہیں ۔ یہی ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد بلوغت کو پہنچی ہی نہیں ۔ قاسم ، طیب اور طاہر تین بچے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بچہ ہوا جس کا نام حضرت ابراہیم لیکن یہ بھی دودھ پلانے کے زمانے میں ہی انتقال کر گئے ۔ آپ کی لڑکیاں حضرت خدیجہ سے چار تھیں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان میں سے تین تو آپ کی زندگی میں ہی رحلت فرما گئیں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ کے چھ ماہ بعد ہوا ۔ پھر فرماتا ہے بلکہ آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں جیسے فرمایا اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھتا ہے ۔ یہ آیت نص ہے اس امر پر کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور جب نبی ہی نہیں تو رسول کہاں ؟ کوئی نبی ، رسول آپ کے بعد نہیں آئے گا ۔ رسالت تو نبوت سے بھی خاص چیز ہے ۔ ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔ متواتر احادیث سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ختم الانبیاء ہونا ثابت ہے ۔ بہت سے صحابہ سے یہ حدیثیں روایت کی گئی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ میری مثال نبیوں میں ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورامکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی جہاں کچھ نہ رکھا لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی بناوٹ سے خوش ہوتے لیکن کہتے کیا اچھا ہو تاکہ اس اینٹ کی جگہ پُر کر لی جاتی ۔ پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں ۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ بات گراں گذری تو آپ نے فرمایا لیکن خوش خبریاں دینے والے ۔ صحابہ نے پوچھا خوشخبریاں دینے والے کیا ہیں ۔ فرمایا مسلمانوں کے خواب جو نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہیں ۔ یہ حدیث بھی ترمذی شریف میں ہے اور امام ترمذی اسے صحیح غریب کہتے ہیں محل کی مثال والی حدیث ابو داؤد طیالسی میں بھی ہے ۔ اس کے آخر میں یہ ہے کہ میں اس اینٹ کی جگہ ہوں مجھ سے انبیا علیہم الصلوۃ السلام ختم کئے گئے ۔ اسے بخاری مسلم اور ترمذی بھی لائے ہیں ۔ مسند کی اس حدیث کی ایک سند میں ہے کہ میں آیا اور میں نے اس خالی اینٹ کی جگہ پر کر دی ۔ مسند میں ہے میرے بعد نبوت نہیں مگر خوشخبری والے ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہیں ؟ فرمایا اچھے خواب یا فرمایا نیک خواب ۔ عبدالرزاق وغیرہ میں محل کی اینٹ کی مثال والی حدیث میں ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر محل والے سے کہتے ہیں کہ تو نے اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی ؟ پس میں وہ اینٹ ہوں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے تمام انبیاء پر چھ فضیلتیں دی گئی ہیں ، مجھے جامع کلمات عطافرمائے گئے ہیں ۔ صرف رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔ میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی ، میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا گیا ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں محل مثال والی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ میں آیا اور میں نے اس اینٹ کی جگہ پوری کر دی ۔ مسند میں ہے میں اللہ کے نزدیک نبیوں کا علم کرنے والا تھا اس وقت جبکہ آدم پوری طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ اور حدیث میں ہے میرے کئی نام ہیں ، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میری وجہ سے کفر کو مٹادے گا اور میں حاشر ہوں تمام لوگوں کا حشر میرے قدموں تلے ہو گا اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں ( بخاری و مسلم ) حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے گویا کہ آپ رخصت کر رہے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا میں امی نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ میں فاتح کلمات دیا گیا ہوں جو نہایت جامع اور پورے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ جہنم کے داروغے کتنے ہیں اور عرش کے اٹھانے والے کتنے ہیں ۔ میرا اپنی امت سے تعارف کرایا گیا ہے ۔ جب تک میں تم میں ہوں میری سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ۔ جب میں رخصت ہوجاؤں تو کتاب اللہ کو مضبوط تھام لو اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو ( مسندامام احمد ) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اس وسیع رحمت پر اس کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے رحم وکرم سے ایسے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف بھیجا اور انہیں ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء بنایا اور یکسوئی والا ، آسان ، سچا اور سہل دین آپ کے ہاتھوں کمال کو پہنچایا ۔ رب العالمین نے اپنی کتاب میں اور رحمتہ للعامین نے اپنی متواتر احادیث میں یہ خبر دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ پس جو شخص بھی آپ کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ گو وہ شعبدے دکھائے اور جادوگری کرے اور بڑے کمالات اور عقل کو حیران کردینے والی چیزیں پیش کرے اور طرح طرح کی بیرنگیاں دکھائے لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ یہ سب فریب دکھوکہ اور مکاری ہے ۔ یمن کے مدعی نبوت عنسی اور یمانہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو دیکھ لو کہ دنیا نے انہیں جیسے یہ تھے سمجھ لیا اور ان کی اصلیت سب پر ظاہر ہو گئ ۔ یہی حال ہوگا ہر اس شخص کا جو قیامت تک اس دعوے سے مخلوق کے سامنے آئے گا کہ اس کا جھوٹ اور اس کی گمراہی سب پر کھل جائے گی ۔ یہاں تک کہ سب سے آخری دجال مسیح آئے گا ۔ اس کی علامتوں سے بھی ہر عالم اور ہر مومن اس کا کذاب ہونا جان لے گا پس یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کہ ایسے جھوٹے دعوے داروں کو یہ نصیب ہی نہیں ہوتا کہ وہ نیکی کے احکام دیں اور برائی سے روکیں ۔ ہاں جن احکام میں ان کا اپنا کوئی مقصد ہوتا ہے ان پر بہت زورر دیتے ہیں ۔ ان کے اقوال ، افعال افترا اور فجور والے ہوتے ۔ جیسے فرمان باری ہے ۔ ( هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ ٢٢١ۭ ) 26- الشعراء:221 ) یعنی کیا میں تمھیں بتاؤں کہ شیاطن کن کے پاس آتے ہیں ؟ ہر ایک بہتان بازگنہگار کے پاس ۔ سچے نبیوں کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے وہ نہایت نیکی والے ، بہت سچے ہدایت والے ، استقامت والے ، قول و فعل کے اچھے ، نیکیوں کا حکم دینے والے ، برائیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان کی تائید ہوتی ہے ۔ معجزوں سے اور خارق عادت چیزوں سے ان کی سچائی اور زیادہ ظاہر ہوتی ہے ۔ اور اس قدر ظاہر واضح اور صاف دلیلیں ان کی نبوت پر ہوتی ہیں کہ ہر قلب سلیم ان کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے تمام سچے نبیوں پر قیامت تک درود سلام نازل فرماتا رہے ۔
39۔ 1 اس لئے کسی کا ڈر یا خوف انھیں صرف اللہ کا پیغام پہنچانے میں مانع بنتا نہ طعن و ملامت کی انھیں کوئی پرواہ ہوتی تھی۔ 39۔ 2 یعنی ہر جگہ وہ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے موجود ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہے اور اللہ کے دین کی تبلیغ و دعوت میں انھیں جو مشکلات آتیں ان میں وہ چارہ سازی فرماتا اور دشمنوں کے مذموم ارادوں اور سازشوں سے انھیں بچاتا ہے۔
[ ٦٣] باز پرس سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کے خطرے اور پریشانیوں کے مقابلہ میں اللہ کافی ہے۔
الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ ۔۔ : پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ کا یہی طریقہ ان لوگوں میں رہا ہے جو اس سے پہلے تھے۔ اب ان کی تعریف فرمائی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی طرح اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے اور اس کے سوا کسی سے نہ ڈرنے کی تلقین ہے، جیسا کہ فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ) [ الأنعام : ٩٠ ] ” یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ “- وَكَفٰى باللّٰهِ حَسِيْبًا : ” حَسِيْبًا “ کا معنی حساب لینے والا بھی ہے اور کفایت کرنے والا بھی، جیسا کہ فرمایا : (حَسْبِيَ اللّٰهُ ) [ التوبۃ : ١٢٩ ] ” مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ “ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ اس اکیلے سے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے عمل پر محاسبہ کرنے والا ہے اور اس محاسبے کے لیے وہ اکیلا ہی کافی ہے، اسے کسی معاون کی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ اس کے بندے جب اس کا پیغام پہنچاتے ہیں تو دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلے میں کفایت اور مدد کرنے کے لیے انھیں اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔- 3 ان آیات میں تقیہ کا رد ہے، اس لیے کہ اللہ کے پیغمبر اس کا پیغام صراحت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں، اس میں کسی کے خوف کو خاطر میں نہیں لاتے، نہ کسی سے ڈر کر اسے چھپاتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے سردار ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام مشرق و مغرب میں تمام بنی آدم تک پہنچایا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو تمام دینوں پر غالب کردیا۔ پھر آپ کے صحابہ یہ پیغام پہنچانے میں آپ کے بہترین وارث بنے، انھوں نے اپنی زبان، اپنے ہاتھ اور اپنی تلوار کے ساتھ آپ کا دین کل عالم تک پہنچا دیا۔ آپ کے رات دن، سفرو حضر، گھر اور باہر کے تمام اقوال و افعال اور احوال امت تک پہنچا دیے۔ اس کے بعد ہر زمانے کے لوگ یہ پیغام آگے پہنچاتے رہے، اگر ان میں سے کوئی خوف کے مارے تقیہ اختیار کرتا تو اللہ کا دین ہم تک کیسے پہنچتا اور اس کے قیامت تک باقی رہنے کی کیا صورت ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں بھی ان میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
آگے ان انبیاء (علیہم السلام) کی خاص صفات کا ذکر ہے، جن کے لئے پچھلے زمانے میں متعدد بیویاں رکھنے کی اجازت اوپر معلوم ہوئی ہے، فرمایا (آیت) الذین یبلغون رسلت اللہ، یعنی یہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) سب ہی اللہ تعالیٰ کے پیغامات اپنی اپنی امتوں کو پہنچاتے تھے۔- ایک حکمت :- شاید اس میں انبیاء (علیہم السلام) کی کثرت ازواج کی حکمت کی طرف بھی اشارہ ہو کہ ان کے تمام اعمال و اقوال امت کو پہنچنا ضروری ہیں، اور مردوں کا ایک بڑا حصہ وقت کا اپنے زنانے مکان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ گزرتا ہے، اس وقت میں جو کوئی وحی نازل ہو یا خود پیغمبر کوئی حکم صادر فرما دیں یا کوئی عمل کریں، یہ سب امت کی امانت ہے جس کو ازواج ہی کے ذریعہ سے باآسانی امت تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ دوسری صورتیں مشکلات سے خالی نہیں، اس لئے انبیاء کے لئے اگر بیبیاں زیادہ ہوں تو ان کی خانگی زندگی کے افعال و اقوال اور ان کی خانگی سیرت عام امت تک پہنچنا سہل ہوجائے گا۔ واللہ اعلم - دوسری صفت انبیاء (علیہم السلام) کی یہ بیان کی گئی کہ (آیت) ویخشونہ ولایخشون احداً الا اللہ، یعنی یہ حضرات اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ بمصالح دینیہ اگر ان کو کسی کام کی عملی تبلیغ کا مامور کیا جاتا ہے وہ اس میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے، اگر کچھ لوگ اس پر طعنہ کریں تو اس سے نہیں ڈرتے۔- ایک اشکال اور جواب :- یہاں جبکہ تمام زمرہ انبیاء کا یہ حال بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو اس سے پہلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ ارشاد ہے کہ تخشی الناس (یعنی آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں) یہ کس طرح درست ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں انبیاء کا غیر اللہ سے نہ ڈرنا تبلیغ رسالات کے معاملے میں بیان ہوا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوف طعنہ زنی کا ایک ایسے کام میں پیش آیا جو بظاہر ایک دنیوی کام تھا، تبلیغ و رسالت سے اس کا تعلق نہ تھا۔ پھر جب آیات مذکورہ سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ نکاح بھی عملی تبلیغ و رسالت کا ایک جز ہے تو اس کے بعد آپ کو بھی کسی کا خوف طعن وتشنیع مانع عمل نہیں ہوا، اور یہ نکاح عمل میں لایا گیا، اگرچہ بہت سے کفار نے اعتراضات کئے اور آج تک کرتے رہتے ہیں۔
الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللہِ وَيَخْشَوْنَہٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللہَ ٠ ۭ وَكَفٰى بِاللہِ حَسِيْبًا ٣٩- بَلَاغ : التبلیغ،- نحو قوله عزّ وجلّ : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم 52] ، وقوله عزّ وجلّ :- بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف 35] ، وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس 17] ، فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد 40] .- والبَلَاغ : الکفاية، نحو قوله عزّ وجلّ : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء 106] ، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ- [ المائدة 67] ، أي : إن لم تبلّغ هذا أو شيئا مما حمّلت تکن في حکم من لم يبلّغ شيئا من رسالته، وذلک أنّ حکم الأنبیاء وتکليفاتهم أشدّ ، ولیس حكمهم كحكم سائر الناس الذین يتجافی عنهم إذا خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا، وأمّا قوله عزّ وجلّ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، فللمشارفة، فإنها إذا انتهت إلى أقصی الأجل لا يصح للزوج مراجعتها وإمساکها .- ويقال : بَلَّغْتُهُ الخبر وأَبْلَغْتُهُ مثله، وبلّغته أكثر، قال تعالی: أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف 62] ، وقال : يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة 67] ، وقال عزّ وجلّ : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود 57] ، وقال تعالی: بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] ، وفي موضع : وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم 8] ، وذلک نحو : أدركني الجهد وأدركت - البلاغ ۔ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم 52] یہ ( قرآن ) لوگوں کے نام ( خدا ) پیغام ہے ۔ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف 35]( یہ قرآن ) پیغام ہے سود اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے ۔ وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس 17] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد 40] تمہارا کام ہمارے احکام کا ) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے ۔ اور بلاغ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں جیسے : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء 106] عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں ( خدا کے حکموں کی ) پوری پوری تبلیغ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة 67] اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نے یہ یا کوئی دوسرا حکم جس کا تمہیں حکم جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے نہ پہنچا یا تو گویا تم نے وحی الٰہی سے ایک حکم کی بھی تبلیغ نہیں کی یہ اس لئے کہ جس طرح انبیاء کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں اسی طرح ان پر احکام کی بھی سختیاں ہوتی ہیں اور وہ عام مومنوں کی طرح نہیں ہوتے جو اچھے اور برے ملے جلے عمل کرتے ہیں اور نہیں معاف کردیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] پھر جب وہ اپنی میعاد ( یعنی انقضائے عدت ) کو پہنچ جائیں تو ان کو ( زوجیت میں ) رہنے دو ۔ میں بلوغ اجل سے عدت طلاق کا ختم ہونے کے قریب پہنچ جا نامراد ہے ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو خاوند کے لئے مراجعت اور روکنا جائز ہی نہیں ہے ۔ بلغتہ الخبر وابلغتہ کے ایک ہی معنی ہیں مگر بلغت ( نفعیل ) زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف 62] تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں ۔ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة 67] اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود 57] 1. اگر تم رو گردانی کردگے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ می نے تمہیں پہنچا دیا ہے ۔ 2. اور قرآن پاک میں ایک مقام پر : بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] 3. کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ آیا ہے یعنی بلوغ کی نسبت کبر کی طرف کی گئی ہے ۔ اور دوسرے مقام پر ۔ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم 8] 4. اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ۔ ہے یعنی بلوغ کی نسبت متکلم کی طرف ہے اور یہ ادرکنی الجھد وادرکت الجھد کے مثل دونوں طرح جائز ہے مگر بلغنی المکان یا ادرکنی کہنا غلط ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔
ان حضرات کی شادی کے بارے میں بھی جو احکام خداوندی کو پہنچایا کرتے تھے یعنی داؤد و سلیمان (علیہما السلام) اور رسول اکرم اور احکام پہنچانے میں اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ حساب لینے والا کافی ہے۔
آیت ٣٩ نِ الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ ” وہ (اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور صرف اسی سے ڈرتے ہیں “- یعنی سابقہ انبیاء و رسل (علیہ السلام) بھی اللہ تعالیٰ کے پیغامات کی بلاخوفِ لومۃ لائم تبلیغ کرتے رہے ہیں اور اس معاملے میں انہوں نے کسی کی پروا نہیں کی۔- وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا ” اور وہ نہیں ڈرتے کسی سے سوائے اللہ کے۔ اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :76 اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً ۔ اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے ۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کسی اور کی باز پرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔