[ ٦٩] صحابہ کرام (رض) پر صلوٰۃ وسلام :۔ یصلی کا صلہ علیٰ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی اللہ کا بندے پر اپنی مہربانی اور رحمت نازل کرنا ہوتا ہے اور اگر یہ نسبت فرشتوں کی طرف ہو تو دعائے رحمت کرنا اور اگر بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی دعائے رحمت بھی، دعائے جنازہ بھی اور نماز جنازہ بھی اور درود پڑھنا اور بھیجنا بھی ہوتا ہے۔ اسی سورة کی آیت نمبر ٥٦ میں مذکور ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت اور دعائے رحمت بھیجتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ کرام (رض) اور پیروکاروں کو بھی اس فضل و رحمت میں شریک فرمایا۔- [ ٧٠] یعنی اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرنے کے نتیجہ میں اللہ تم پر اپنی رحمت فرماتا ہے اور یہ رحمت فرشتوں کے توسط سے نازل ہوتی ہے اور یہ اللہ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہے کہ تمہیں کفر کی جہالتوں سے چھٹکارا حاصل ہوا اور علم اور ایمان کی روشنی اور دولت نصیب ہوئی اور اس میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ ۔۔ : صلاۃ کا معنی رحمت بھی ہے، ذکر خیر بھی اور دعا بھی۔ صحیح بخاری میں ابو العالیہ سے نقل ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی صلاۃ کا مطلب اس کا فرشتوں کے پاس تعریف کرنا ہے اور فرشتوں کی صلاۃ کا مطلب دعا کرنا ہے۔ “ قاموس میں ہے : ” اَلصَّلَاۃُ الدُّعَاءُ وَالرَّحْمَۃُ وَالْإِسْتِغْفَارُ وَ حَسَنُ الثَّنَاءِ مِنَ اللّٰہِ عزَّ وَجَلَّ عَلٰی رَسُوْلِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ عِبَادَۃٌ فِیْھَا رُکُوْعٌ وَ سُجُوْدٌ، اسْمٌ یُوْضَعُ مَوْضِعَ الْمَصْدَرِ “ ” صلاۃ سے مراد دعا، رحمت، استغفار، اللہ عزوجل کی طرف سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف اور رکوع و سجود والی عبادت ہے۔ یہ اسم ہے جو مصدر کے قائم مقام ہے۔ “- 3 فرشتوں کی صلاۃ سے مراد مسلمانوں کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا ہے۔ اس کی دلیل ابوہریرہ (رض) سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الْمَلاَءِکَۃَ تُصَلِّيْ عَلٰی أَحَدِکُمْ مَا دَامَ فِيْ مُصَلاَّہُ مَا لَمْ یُحْدِثْ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، اللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ ، لَا یَزَالُ أَحَدُکُمْ فِيْ صَلاَۃٍ مَا دَامَتِ الصَّلاَۃُ تَحْبِسُہُ ، لَا یَمْنَعُہُ أَنْ یَنْقَلِبَ إِلٰی أَہْلِہِ إِلاَّ الصَّلَاۃُ ) [ بخاري، الأذان، باب من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔ : ٦٥٩ ] ” یقیناً فرشتے تم میں سے ہر اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جو اپنی نماز کی جگہ میں رہے، جب تک وہ بےوضو نہ ہو کہ اے اللہ اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما۔ جب تک نماز نے اسے گھر جانے سے روک رکھا ہو، نماز کے سوا اسے کوئی چیز مانع نہ ہو۔ “ سورة مومن کی آیات (٧ تا ٩) میں بھی فرشتوں کی اس دعا کا ذکر ہے جو وہ مومنوں کے لیے کرتے ہیں۔- 3 اس آیت کا پچھلی آیت سے تعلق دو طرح سے ہے، ایک تو یہ کہ پچھلی آیت میں اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم دیا، اس آیت میں اس کا نتیجہ بیان فرمایا کہ جب تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرو گے تو وہ فرشتوں کے سامنے تمہارا ذکر خیر کرے گا، لوگوں میں تمہاری اچھی شہرت فرمائے گا، تم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے گا اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کریں گے۔ اس رحمت و مغفرت کے ذریعے سے دنیا میں وہ تمہیں جہالت اور نافرمانی کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور علم و عمل کی روشنی میں لے آئے گا۔ اور قیامت کے دن عطا ہونے والی نعمت کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ ، وَ أَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِيْ ، فَإِنْ ذَکَرَنِيْ فِيْ نَفْسِہِ ذَکَرْتُہُ فِيْ نَفْسِيْ ، وَ إِنْ ذَکَرَنِيْ فِيْ مَلَأٍ ذَکَرْتُہُ فِيْ مَلَأٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ ، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا، وَ إِنْ أَتَانِيْ یَمْشِيْ أَتَیْتُہُ ہَرْوَلَۃً ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و یحذرکم اللہ نفسہ ) ۔۔ : ٧٤٠٥ ] ” میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے، سو اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہو تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہو تو میں دونوں ہاتھ پھیلانے کے برابر اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ چلتا ہوا میری طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں۔ “- دوسری طرح اس کا پہلی آیات سے تعلق یہ ہے کہ اس آیت میں ذکر کثیر اور صبح و شام تسبیح کا حکم دینے کی وجہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ وہ ہے جو تمہارے کسی استحقاق کے بغیر محض اپنی بےپایاں رحمت کی وجہ سے تم پر صلاۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں، تاکہ وہ تمہیں دنیا میں اندھیروں سے روشنی میں لائے اور آخرت میں اجر کریم عطا کرے۔ سو تم پر لازم ہے کہ ایسے مہربان رب کا ذکر کثیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : (كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ) [ البقرۃ : ١٥١، ١٥٢ ] ” جس طرح ہم نے تم میں ایک رسول تمھی سے بھیجا ہے، جو تم پر ہماری آیات پڑھتا اور تمہیں پاک کرتا اور تمہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ سو تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ “ یعنی ہمارے رسول بھیجنے کی نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ تم میرا ذکر کرو اور میرا شکر کرو۔- وَكَان بالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا : یعنی ان تمام مہربانیوں کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ایمان والوں پر بیحد رحم کرنے والا ہے۔ ہمیشہ کا مفہوم ” کان “ کا لفظ ادا کر رہا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت دوسری نعمتوں کے ساتھ انھیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانا ہے اور آخر ت میں اس کی رحمت کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
(آیت) ہو الذین یصلی علیکم وملئکة، یعنی جب تم ذکر اللہ کی کثرت کے عادی ہوگئے اور صبح و شام کی تسبیح پر مداومت کرنے لگے تو اس کا اعزازو اکرام اللہ کے نزدیک یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحمت نازل فرمائے گا اور اس کے فرشتے تمہارے لئے دعا کریں گے۔- آیت مذکورہ میں لفظ صلوٰة اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور فرشتوں کے لئے بھی، لیکن مصداق صلوٰة کا الگ الگ ہے۔ اللہ کی صلوٰة تو یہ ہے کہ وہ رحمت نازل فرمائے، اور فرشتے خود تو کسی کام پر قادر نہیں ان کی صلوٰة یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نزول رحمت کی دعا مانگیں۔- اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ صلوٰة اللہ کی طرف سے رحمت ہے اور فرشتوں کی طرف سے استغفار یعنی دعا مغفرت اور باہمی ایک دوسرے کی دعا، لفظ صلوٰة ان تینوں معنی کے لئے شامل ہے جو عموم مشترک جائز قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک یہ لفظ معنی میں مشترک ہے، اور تینوں مراد ہیں جو عموم مشترک کو قواعد عربیہ کی رو سے جائز نہیں سمجھتے وہ بطور عموم مجاز کے ان سب معنوں پر لفظ صلوٰة کا اطلاق قرار دیں گے۔
ہُوَالَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُہٗ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ٠ ۭ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا ٤٣- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
خدا کی صلوٰۃ کیا ہے ؟- قول باری ہے (ھوالذی یصلی علیکم وملا ئکتہ۔ وہ ایسا کہ وہ خود اور اس کے فرشتے تمہارے اوپر رحمت بھیجتے رہتے ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں اور بندوں کی طرف سے صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشی کا شعر ہے۔- علیک مثل الذی صلیت فاغمضی - نوما فان لجنب المرء مضطجعا - تجھ پر بھی اس جیسی دعائیں اتریں جو تونے بھیجی ہیں اب نیند میں اپنی آنکھیں بند کرلے اور سوجا کیونکہ انسان کے پہلو کے لئے لیٹنے کی جگہ ہوتی ہے۔- معمر نے حسن سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا تھا کہ آیا تمہارا رب نماز پڑھتا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات بہت گراں گزری تھی تاہم آپ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ ہی لیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ انہیں بتادو کہ اللہ بھی نماز پڑھتا ہے لیکن اس کی نماز اس کی وہ رحمت ہے جو اس کے غضب پر غالب آگئی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ تمہارا ایک اصول یہ ہے کہ ایک نقطہ سے دو مختلف معنی نہیں لئے جاتے جبکہ قرآن میں صلاۃ کا لفظ آیا ہے جس کے دو معنی ہیں یعنی رحمت اور دعا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ہمارے نزدیک مجمل الفاظ کی صورت میں جائز ہے۔- صلاۃ ایک مجمل اسم ہے جو بیان کا محتاج ہے اس لئے اس لفظ میں مختلف معانی کا ارادہ کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ قتادہ نے قول باری (ویسبحوہ بکرۃ واصیلا۔ اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو) کہ تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے چاشت اور عصر کی نمازمراد ہے۔
وہ ایسا ہے کہ تمہاری مغفرت فرما رہتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور وہ تمہیں کفر سے ایمان کی روشنی کی طرف لے آیا ہے اور وہ مومنین پر بہت مہربان ہے۔- شان نزول : هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ (الخ)- عبد بن حمید نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جس وقت ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی (الخ) یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے جو بھی آپ پر خیر اور اچھائی کی بات نازل کی ہے اس میں ہمیں شریک کیا ہے (اور اس قیام پر شریک نہیں کیا) تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
آیت ٤٣ ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ” وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا رہتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے بھی ‘ تاکہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف۔ “- یہاں پر اہل ایمان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہونے کے حوالے سے وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو اسی سورت کی آیت ٥٦ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے آئے ہیں۔ وہاں فرمایا گیا : اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ” یقینا اللہ اور اس کے فرشتے رحمتیں بھیجتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر “۔ بہر حال یہ آیت مومنین کے حق میں ایک بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اللہ کی رحمتوں اور عنایتوں میں سے ہر اہل ایمان کو بھی حصہ عطا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے بھی اہل ایمان کے حق میں دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔- وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا ” اور اہل ایمان کے حق میں وہ بہت مہربان ہے۔ “
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :79 اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کڑھن اس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اس رسول کی بدولت تمہارے اوپر ہوئی ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی ، کفر و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے ۔ اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو ۔ اسی کا غصہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسول پر نکال رہے ہیں ۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محرم ہو جاؤ ۔ صلوٰۃ کا لفظ جب علیٰ کے صلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت ، مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں ۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں ، یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ان پر فضل فرما اپنی عنایات سے انہیں سرفراز کر ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکر الجمیل فی عباداللہ ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے بندوں کے درمیان ناموری عطا فرماتا ہے اور تمہیں اس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلق خدا تمہاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمہاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں ۔