Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کافر عذاب الٰہی کے مستحق کیوں ٹھہرے؟ کافروں کی وہ شرارت بیان ہو رہی ہے جس کے باعث وہ اللہ کے عذابوں کے مستحق ہوئے ہیں کہ اللہ کا کلام تازہ بتازہ اس کے افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنتے ہیں ، قبول کرنا ، ماننا اس کے مطابق عمل کرنا تو ایک طرف ، کہتے ہیں کہ دیکھو یہ شخص تمہیں تمہارے پرانے اچھے اور سچے دین سے روک رہا ہے اور اپنے باطل خیالات کی طرف تمہیں بلا رہا ہے یہ قرآن تو اس کا خود تراشیدہ ہے آپ ہی گھڑ لیتا ہے اور یہ تو جادو ہے اور اس کا جادو ہونا کچھ ڈھکا چھپا نہیں ، بالکل ظاہر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان عربوں کی طرف نہ تو اس سے پہلے کوئی کتاب بھیجی گئی ہے نہ آپ سے پہلے ان میں کوئی رسول آیا ہے ۔ اس لئے انہیں مدتوں سے متنا تھی کہ اگر اللہ کا رسول ہم میں آتا اگر کتاب اللہ ہم میں اترتی تو ہم سب سے زیادہ مطیع اور پابند ہو جاتے ۔ لیکن جب اللہ نے ان کی یہ دیرینہ آرزو پوری کی تو جھٹلانے اور انکار کرنے لگے ، ان سے اگلی امتوں کے نتیجے ان کے سامنے ہیں ۔ وہ قوت و طاقت ، مال و متاع ، اسباب دنیوی ان لوگوں سے بہت زیادہ رکھتے تھے ۔ یہ تو ابھی ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے لیکن میرے عذاب کے بعد نہ مال کام آئے ، نہ اولاد اور کنبے قبییل کام آئے ۔ نہ قوت و طاقت نے کوئی فائدہ دیا ۔ برباد کر دیئے گئے جیسے فرمایا ( وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً 26؀ۧ ) 46- الأحقاف:26 ) یعنی ہم نے انہیں قوت و طاقت دے رکھی تھی ۔ آنکھیں اور کان بھی رکھتے تھے ، دل بھی تھے لیکن میری آیتوں کے انکار پر جب عذاب آیا اس وقت کسی چیز نے کچھ فائدہ نہ دیا اور جس کے ساتھ مذاق اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا ۔ کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام نہیں دیکھتے جو ان سے تعداد میں زیادہ طاقت میں بڑھے ہوئے تھے ۔ مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے کے باعث پیس دیئے گئے ، جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے ۔ تم غور کر لو دیکھ لو کہ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کی نصرت کی اور کس طرح جھٹلانے والوں پر اپنا عذاب اتارا ؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 شخص سے مراد، حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جرم یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔ 43۔ 2 اس دوسرے ھٰذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔ 34۔ 3 قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم و مطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم و اسلوب اور اعجاز و بلاغت سے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٦] یعنی ہمیں ہمارے طرز زندگی سے ہٹا کر ایک نئی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ہمارا طرز زندگی وہ ہے جو ہمارے آباؤ اجداد سے بڑی مدت سے رائج چلا آرہا ہے اور یہ شخص جس راہ پر ڈالنا چاہتا ہے اس کی بنیاد محض اس کی اپنی اختراع کردہ باتیں ہیں۔ اور چاہتا یہ ہے کہ یہ خود ہمارا متبوع بن جائے اور ہم اس کے تابع بن کر رہیں۔ ہم بھلا یہ بات کیسے گوارا کرسکتے ہیں ؟ گویا قریش مکہ کے نزدیک پیغمبر اسلام کی دعوت محض ایک اقتدار کا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بات یا دلیل ماننے کو تیار نہ تھے۔- [ ٦٧] اللہ کے کلام یا قرآن کریم کو کفار مکہ کا جادو کہنا اس لحاظ سے تھا کہ قرآن کی جادو اثر تاثیر سے وہ خود خائف رہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں پر یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ وہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح اس کے بیوی بچے قرآن سے متاثر ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ کم بخت خود اس کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ مگر محض ضد، ہٹ دھرمی، اور چند دنیوی مفادات کی خاطر قرآن اور دعوت قرآن کا انکار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ پھر وہ جادو سے یہ مطلب بھی لیتے تھے کہ جو شخص بھی ایمان لے آتا تھا۔ اسے پھر یہ پرواہ نہ رہتی تھی کہ فلاں شخص میرا باپ ہے یا بھائی ہے یا بیٹا ہے یا فلاں میری ماں ہے یا بیٹی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور مشرکین مکہ چونکہ ایسی جدائی ڈالنے کے لئے جادوگروں کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے اور اس کلام سے بھی ایسی جدائی پڑجاتی تھی۔ تو اس لحاظ سے بھی وہ قرآن کو جادو کہہ دیتے تھے۔ بالفاظ دیگر وہ قرآن کے منکر ہونے کے باوجود اس بات کے قائل تھے کہ قرآن اپنے اندر جادو سے بھی زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا ۔۔ : یہ ذکر کرنے کے بعد کہ قیامت کے دن مشرکین جہنم میں جائیں گے اور ان کے بنائے ہوئے معبود ان کے کچھ کام نہ آئیں گے، اب ان کے اس عذاب کا حق دار ہونے کی وجہ بیان فرمائی، جو یہ تھی کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یا اسلام کے کسی داعی نے ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھیں تو انھوں نے وہ الفاظ کہے جو اس آیت میں ذکر ہوئے ہیں۔- قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ ۔۔ : یعنی یہ شخص تمہیں ان ہستیوں کی عبادت سے روکنا چاہتا ہے جن کی عبادت تمہارے آبا و اجداد مدت سے کرتے چلے آئے ہیں۔ مقصد ان کا لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے والے کے خلاف بھڑکانا تھا، یہ کہہ کر کہ یہ شخص تمہیں تمہارے آباء کے دین سے روکنا چاہتا ہے، تو کیا تمہارے آبا و اجداد کوئی پاگل تھے جو ان کی عبادت کرتے تھے۔ پھر یہ نہیں کہ انھوں نے ایک آدھ دفعہ یہ کام کیا ہو، بلکہ ” كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُكُمْ “ وہ مدت سے ان کی عبادت کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک ان کے شرک کے حق ہونے کی واحد دلیل آبا و اجداد کی تقلید تھی، جو سراسر جہل ہے، جس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔- وَقَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكٌ مُّفْتَرًى : یہاں ” اِفْكٌ مُّفْتَرًى“ سے مراد قرآن ہے۔ لفظ ” اِفْكٌ مُّفْتَرًى“ میں قرآن کے متعلق انھوں نے دو باتیں کہیں، ایک تو یہ کہ فی نفسہ یہ جھوٹ ہے، دوسری یہ کہ اسے گھڑ کر اللہ کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔- وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ ۔۔ : کفار کی پریشان گوئی دیکھیے کہ کبھی اسے جھوٹ کہتے ہیں اور کبھی اسے واضح جادو کہتے ہیں، اور یہ جو فرمایا کہ جب ان کے پاس حق آگیا تو انھوں نے اسے واضح جادو کہا، تو مراد اس سے یہ ہے کہ اگر انھیں حق کا علم نہ ہوتا اور وہ اس قسم کی باتیں کرتے تو شاید معذور ہوتے، اب حق واضح ہوجانے کے بعد انکار کی صورت میں جہنم کے سوا ان کا انجام کیا ہوسکتا ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں جو (حق اور ہادی ہونے کی صفت میں) صاف صاف ہیں پڑھی جاتی ہیں تو یہ لوگ (پڑھنے والے یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت) کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ محض ایک ایسا شخص ہے جو یوں چاہتا ہے کہ تم کو ان چیزوں (کی عبادت) سے باز رکھے جن کو (قدیم سے) تمہارے بڑے پوجتے (آ رہے) تھے ( اور ان سے باز رکھ کر اپنا تابع بنانا چاہتا ہے۔ مطلب ان کم بختوں کا یہ تھا کہ یہ نبی نہیں اور ان کی دعوت منجانب اللہ نہیں بلکہ اس میں خود ان کی ذاتی غرض اپنی ریاست کی ہے) اور (قرآن کی نسبت) کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ محض ایک تراشا ہوا جھوٹ ہے (یعنی خدا کی طرف اس کی نسبت کرنا محض تراشی ہوئی بات ہے) اور یہ کافر اس امر حق (یعنی قرآن) کی نسبت جبکہ وہ ان کے پاس پہنچا (اس اعتراض کے جواب کے لئے کہ اگر یہ تراشا ہوا جھوٹ ہے تو پھر بہت سے عاقل اس کا اتباع کیوں کرتے ہیں اور یہ ایسا موثر کیوں ہے) یوں کہتے ہیں کہ یہ محض ایک صریح جادو ہے (بس اس کو سن کر لوگ مغلوب العقل اور فریفتہ ہوجاتے ہیں) اور (ان کو تو قرآن کی اور نبی کی بڑی قدر کرنا چاہئے تھی، کیونکہ ان کے لئے تو یہ محض غیر مترقبہ نعمتیں تھیں اس سبب سے کہ) ہم نے (اس قرآن سے پہلے) ان کو (کبھی آسمانی) کتابیں نہیں دی تھیں کہ ان کو پڑھتے پڑھاتے ہوں (جیسے بنی اسرائیل کے پاس کتابیں تھیں تو ان کے حق میں تو قرآن بالکل ایک نئی چیز تھی، اس لئے اس کی قدر کرنا چاہئے تھا) اور (اسی طرح) ہم نے آپ سے پہلے ان کے پاس کوئی ڈرانے والا (یعنی پیغمبر) نہیں بھیجا تھا (تو ان کے حق میں نبی بھی ایک نئی دولت تھی، اس لئے ان کی بھی قدر کرنا چاہئے تھی۔ خصوصاً جبکہ علاوہ نعمت جدیدہ ہونے کے خود ان کی تمنا بھی تھی کہ ان کے پاس کوئی نبی آئے تو یہ اس کا اتباع کریں جیسا اس آیت میں ہے (آیت) واقسموا باللہ جہد ایمانہم لئن جاءھم نذیر لیکونن اھدیٰ من احدی الامم، مگر ان لوگوں نے پھر بھی قدر نہ کی، کماقال تعالیٰ فلما جاءھم نذیر مازادہم الا نفوراً الخ بلکہ تکذیب کی) اور (یہ لوگ تکذیب کر کے بےفکر نہ ہو بیٹھیں کیونکہ تکذیب کا وبال بڑا سخت ہے، چنانچہ) ان سے پہلے جو (کافر) لوگ تھے انہوں نے (بھی انبیاء اور وحی کی) تکذیب کی تھی اور یہ (مشرکین عرب) تو اس سامان کے جو ہم نے ان کو دے رکھا تھا دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچتے (یعنی ان کی سی قوت ان کی سی عمریں ان کی سی ثروت ان کو نہیں ملی جو کہ سرمایہ غرور اور سبب افتخار ہوتا ہے۔ کما قال تعالیٰ کانوا اشد منکم قوة و اکثر امولاً واولاداً ) غرض انہوں نے میرے رسول کی تکذیب کی سو (دیکھو) میرا (ان پر) کیسا عذاب ہوا (سو یہ بیچارے تو کیا چیز ہیں کہ ان کے پاس تو اتنا سامان بھی نہیں جب اس قدر ثروت و دولت کام نہ آئی تو یہ کس دھوکہ میں ہیں۔ ونیز جب ان کے پاس سامان کم ہے جو سبب غرور ہوتا ہے، تو ان کا جرم بھی اشد ہے، پھر یہ کیسے بچ جائیں گے۔ یہاں تک انکار نبوت پر کفار کو تہدید فرما کر آگے ان کو تصدیق نبوت کا ایک طریقہ بتلاتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان سے) یہ کہئے کہ میں تم کو صرف ایک بات (مختصر سی) سمجھاتا ہوں (اس سے واضح ہوجائے گا بس اس کو کرلو) وہ یہ کہ تم (محض) خدا کے واسطے (کہ اس میں نفسانیت وتعصب نہ ہو) کھڑے (یعنی مستعد) ہوجاؤ (کسی موقع پر) دو دو اور (کسی موقع پر) ایک ایک (یعنی چونکہ مقصود غور و فکر ہے جیسا آگے آتا ہے، اور فکر کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات اور بعض طباع کے اعتبار سے دو کے اعتبار سے اکیلے خوب فکر کی دوسرے سے تقویت ملتی ہے، اور بہت زیادہ مجمع میں اکثر قوت فکریہ مشوش ہوجاتی ہے، اسی لئے اسی پر اکتفا فرمایا، غرض اس طرح مستعد ہوجاؤ) پھر (خوب) سوچو (کہ جیسے دعوے میں کرتا ہوں مثلاً یہ کہ قرآن کا مماثل ممکن نہیں جیسے کئی مکی سورتوں میں یہ مضمون ہے ایسے دعوے دو ہی شخص کرسکتے ہیں یا تو وہ جس کے دماغ میں خلل ہو کہ انجام کی خبر نہ ہو اور یا وہ کہ جو نبی ہو جس کو پورا اعتماد اس دعوے کے صدق ومن اللہ ہونے کا ہو ورنہ اگر نبی نہ ہو اور عاقل بھی ہو تو وہ ایسے دعوے کے وقت میں رسوائی سے اندیشہ کرے گا، اگر اس کا مماثل بنا لائے گا تو میری کیا رہ جائے گی۔ اس تردید حاضر کے بعد میرے مجموعی احوال میں غور کر کے یہ سوچو کہ آیا مجھ کو جنون ہے یا نہیں، سو یہ امر مشاہدہ سے معلوم ہوجائے گا) کہ تمہارے اس ساتھی کو (جو ہر وقت تمہارے سامنے رہتا ہے اور جس کے تمام حالات تم مشاہدہ کیا کرتے ہو یعنی مجھ کو) جنون (تو) نہیں ہے (جب حصر کی دو شقوں میں سے ایک شق باطل ہوگئی تو دوسری شق متعین ہوگئی کہ) وہ (تمہارا ساتھی پیغمبر ہے اور بحیثیت پیغمبر ہی تم کو ایک سخت عذاب آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے (پس اس طریق سے نبوت کا ثبوت اور اس کی تصدیق بہت آسان ہے۔ اور دوسری جگہ بھی اس کے قریب قریب مضمون ہے کماقال ام لم یعرفوا رسولہم، الخ، اب آگے اثبات نبوت کے بعد کفار کے اس شبہ کا جواب ہے کہ یہ رسول نہیں بلکہ اپنی ریاست و اقتدار کے طالب ہیں، فرماتے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں نے تم سے (اس تبلیغ پر) کچھ معاوضہ مانگا ہو تو وہ تمہارا ہی رہا (یعنی تم اپنے ہی پاس رکھو یہ محاورہ نفی ہے طلب اجر کی بطریق مبالغہ) میرا معاوضہ تو بس (حسب وعدہ فضل) اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہی ہر چیز پر اطلاع رکھنے والا ہے (پس وہ آپ ہی میرے حال کے لائق مجھ کو اجر دے دیں گے معاوضہ میں مال اور جاہ یعنی ریاست سب آ گیا۔ کیونکہ اعیان و اعراض دونوں میں اجر بننے کی صلاحیت ہے، مطلب یہ کہ میں تم سے کسی غرض کا طالب نہیں ہوں جو شبہ ریاست کا کیا جائے۔ رہا یہ معاملہ کہ میں لوگوں کے معاملات اور حالات کی اصلاح کرتا ہوں مجرم کو سزا دیتا ہوں، باہمی جھگڑوں میں فیصلہ کرتا ہوں تو یہ موجب شبہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اس میں میری کوئی غرض نہیں۔ چناچہ آپ کے طرز معاشرت اور معیشت سے صاف ظاہر ہے کہ ان چیزوں سے آپ نے کوئی ذاتی منفعت حاصل نہیں کی بلکہ خود قوم ہی کا نفع تھا کہ ان کے جان، مال، آبرو محفوظ رہتے تھے۔ باپ جو اپنے چھوٹے بچوں کی حفاظت اور ان کی تادیب محض خیر خواہی سے کرتا ہے اس کو خود غرضی اور طلب ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، جب نبوت بھی ثابت ہوچکی اور شبہ مقامیہ بھی دفع ہوگیا آگے اس کی نقیض کو ابطال کو اس کے اثبات پر متفرع فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب حق بات کو (یعنی ایمان اور ثبوت ایمانیات کو باطل یعنی کفر اور انکار ایمانیات پر) غالب کر رہا ہے (محاجہ ومکالمہ سے بھی) چناچہ ابھی دیکھا اور مقاتلہ اور مصارہ کا بھی سامان کرنے والا ہے، غرض ہر طرح حق غالب ہے اور) وہ علام الغیوب ہے (اس کو پہلے ہی سے معلوم تھا کہ حق غالب ہوگا اوروں کو تو اب وقوع کے بعد معلوم ہوا اور اسی طرح اس کو معلوم ہے کہ آئندہ غلبہ بڑھے گا۔ چناچہ فتح مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اگلی آیت کو پڑھنا کما رواہ ابن کثیر عن الشیخین وغیرہما قرینہ ہے کہ اس مضمون میں جو غلبہ کی خبر دی گئی ہے اس میں غلبہ بالسیف بھی داخل ہے۔ آگے اسی مضمون کی زیادہ توضیح کے لئے ارشاد ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ (دین) حق آ گیا اور (دین) باطل نہ کرنے کا رہا نہ دھرنے کا (یعنی محض گیا گزرا ہوا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل باطل کو کبھی شوکت وقوت حاصل نہ ہوگی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے اس دین حق کے آنے سے پہلے کبھی باطل پر شبہ حق ہونے کا ہوجایا کرتا تھا اب باطل اس صفت کی حیثیت سے بالکل نیست ونابود ہوگیا۔ یعنی اس کا بطلان خوب ظاہر ہوگیا، اور ہمیشہ قرب قیامت تک یوں ہی ظاہر رہے گا، آگے حق بات کے ثابت اور واضح ہوجانے کے بعد نجات کا اس کے اتباع میں منحصر ہونا بیان فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (جب اس دین کا حق ہونا ثابت ہوگیا تو اس سے یہ بھی لازم آ گیا کہ) اگر (بالفرض) میں (اس حق کو چھوڑ کر) گمراہ ہوجاؤں تو میری گمراہی مجھ ہی پر وبال ہوگی (دوسروں کا کیا ضرر ہے) اور اگر میں (اس حق کا اتباع کر کے) راہ (راست) پر رہوں تو یہ بدولت اس قرآن (اور دین) کے ہے جس کو میرا رب میرے پاس بھیج رہا ہے (اصل مقصود مخاطبین کو سنانا ہے کہ باوجود وضوح کے اگر تم نے حق کا اتباع نہ کیا تو تم بھگتو گے میرا کیا بگڑے گا اور اگر راہ پر آگئے تو یہ راہ پر آنا اسی دین حق کے اتباع کی بدولت ہوگا پس تم کو چاہئے کہ راہ راست پر آنے کے لئے اس دین کو اختیار کرو اور گمراہ ہونا کسی کا یا راہ پر آنا خالی نہ جائے گا کہ بےفکری کی گنجائش ہو، بلکہ ہر ایک کا حال اللہ کو معلوم ہے کیونکہ) وہ سب کچھ سنتا (اور) بہت نزدیک ہے (وہ ہر ایک کو اس کے مناسب جزا دے گا) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ يُّرِيْدُ اَنْ يَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُكُمْ۝ ٠ ۚ وَقَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكٌ مُّفْتَرًى۝ ٠ ۭ وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۝ ٠ ۙ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٤٣- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جب ان کفار مکہ کے سامنے قرآنی آیات جو حلال و حرام کو واضح کرنے والی ہیں پڑھی جاتی ہیں تو یہ لوگ رسول اکرم کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ آپ یوں چاہتے ہیں کہ تمہیں ان معبودوں کی عبادت سے باز رکھیں جنہیں تم پوجتے آئے ہو اور یوں کہتے کہ جو رسول اکرم پڑھ کر سناتے ہیں یہ محض ایک خود گھڑا ہوا جھوٹ ہے اور یہ کفار مکہ قرآن کریم کے بارے میں جبکہ رسول اکرم اسے ان کے پاس لے کر آئے یوں کہتے ہیں یہ محض ایک جادو ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیْدُ اَنْ یَّصُدَّکُمْ عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُکُمْ ” اور جب انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری روشن آیات ‘ تو وہ (آپس میں ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ یہ شخص تو بس یہی چاہتا ہے کہ تم کو ان سے روک دے جن کی عبادت تمہارے آباء و اَجداد کرتے تھے “- وَقَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّآ اِفْکٌ مُّفْتَرًی ” اور وہ (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک گھڑا ہواجھوٹ۔ “- یعنی یہ قرآن دراصل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام ہے جس کو وہ وحی کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔- وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ” اور ان کافروں نے حق کے بارے میں جبکہ یہ ان کے پاس آگیا ‘ کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک کھلا ہواجادو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani