48۔ 1 قذف کے معنی تیراندازی اور خشت باری کے بھی ہیں اور کلام کرنے کے بھی، یہاں اس کے دوسرے معنی ہیں یعنی وہ حق کے ساتھ گفتگو فرماتا، اور اپنے رسولوں پر وحی نازل فرماتا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کے لیے حق واضح فرماتا ہے۔
[ ٧٣] یعنی آسمان سے جو وحی نازل ہو رہی ہے وہ حق ہے اور جو تمہارا طرز عمل ہے وہ باطل ہے۔ یہ حق باطل کا سر توڑ دے گا اور اس کا کچومر نکال دے گا۔ باطل کو بالآخر راہ فرار اختیار کرنا ہی پڑے گی۔ اور حق اس پر غالب آکے رہے گا۔ اللہ علام الغیوب ہے۔ اس نے عین موقعہ پر مجھے اپنے وحی کے ساتھ بھیجا ہے۔ اور وہ خوب جانتا ہے کہ باطل کا سر توڑنے کے لئے یہی مناسب موقع ہے۔
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بالْحَـقِّ : ” قَذَفَ یَقْذِفُ “ کا معنی پھینکنا ہے، یہ ڈالنے کے معنی میں بھی آتا ہے : ” أَيْ یَقْذِفُ بالْحَقِّ فِيْ قُلُوْبِ أَصْفِیَاءِ ہِ “ یعنی وہ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں حق ڈال دیتا ہے۔ جب ثابت ہوگیا کہ یہ نبی نہ مجنون ہے، نہ دنیا کا طالب، نہ تم اس کے کسی قول یا فعل کو جھوٹ، جادو یا دیوانگی ثابت کرسکے تو ثابت ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس لیے فرمایا، اے نبی جو لوگ توحید، انبیاء کی رسالت اور آخرت کے منکر ہیں ان سے کہہ دے کہ بیشک میرا رب وحی کے ذریعے سے اپنے چنے ہوئے بندوں کے دل میں حق بات ڈالتا ہے، اسی نے میرے دل میں بذریعہ وحی اس حق کا القا فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ) [ المؤمن : ١٥ ] ” وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی اتارتا ہے، تاکہ آپس کی ملاقات کے دن سے ڈرائے۔ “ ” يَقْذِفُ بالْحَـقِّ “ کا دوسرا معنی ” یَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ “ ہے، یعنی کہہ دے بیشک میرا رب حق کو باطل پر پھینک مارتا ہے تو وہ اس کا دماغ کچل دیتا ہے، پس وہ اچانک مٹنے والا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ) [ الأنبیاء : ١٨ ] ” بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا دماغ کچل دیتا ہے، پس اچانک وہ مٹنے والا ہوتا ہے۔ “ یعنی تمہارے اس حق کو جھوٹ یا جادو یا دیوانگی کہنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا، میرا رب اس حق کو باطل پر اس زور سے پھینک مارے گا کہ وہ یکایک ہی مٹ جائے گا۔ اس آیت میں تیسری بات کی تلقین ہے کہ آپ مشرکین کو صراحت سے کہہ دیجیے کہ تم لوگ نہ حق سے جھگڑے میں غالب آسکتے ہو نہ لڑائی میں، کیونکہ میرا رب میرے دل میں حق کا القا کرتا ہے، کیونکہ وہ تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اب جو شخص غیب جانتا ہی نہیں، نہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی کوئی بات بتائی جاتی ہے تو وہ حق کے ساتھ کیا جھگڑا کرے گا ؟ پھر میرا رب حق کو باطل پر مار کر اس کا دماغ کچل دیتا، تو اہل باطل اہل حق کے ساتھ کیا لڑائی کریں گے ؟- عَلَّامُ الْغُيُوْبِ : وہ تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ غیب کی ان باتوں میں سے جو چاہے اپنے جس پیغمبر کے دل میں چاہے ڈال دیتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ غیب کی کس بات کی اطلاع کس پیغمبر کو دینی ہے۔ دیکھیے سورة جنّ (٢٦ تا ٢٨) ۔
(آیت) ان ربی یقذف بالحق علام الغیوب، یعنی میرا پروردگار جو علام الغیوب ہے وہ حق کو باطل پر دے مارتا ہے (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باطل پاش پاش ہوجاتا ہے، کما قال تعالیٰ فاذا ہو زاھق، لفظ قذف کے لغوی معنی پھینک مارنے کے ہیں، یہاں باطل کے مقابلہ میں حق کو پیش کرنا مراد ہے، اور لفظ یقذف سے تعبیر کرنے میں شاید یہ حکمت ہو کہ باطل پر حق کی زد پڑنے کا اثر بتلانا مقصود ہو۔ یہ ایک تمثیل ہے کہ جس طرح کوئی بھاری چیز کسی نازک چیز پر پھینک دی جائے تو وہ چیز پاش پاش ہوجاتی ہے، اسی طرح حق کے مقابلہ میں باطل پاش پاش ہوجاتا ہے۔ اسی لئے آگے فرمایا (آیت) و ما یبدی الباطل ومایعید، یعنی حق کے مقابلہ میں باطل ایسا پست وناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے کہ وہ کسی چیز کی ابتداء کرنے کے قابل نہیں رہتا نہ دوبارہ لوٹانے کے۔
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بِالْحَـقِّ ٠ ۚ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ٤٨- قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِي عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے
آپ ان سے فرما دیجیے کہ میرا پروردگار حق بات کو غالب کر رہا ہے اور اسی کا حکم دیتا ہے اور وہ تمام ان باتوں سے باخبر ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہیں۔
آیت ٤٨ قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ یقینا میرا رب حق کے ساتھ ضرب لگاتا ہے (باطل کو) ‘ وہ خوب جاننے والا ہے تمام غیبوں کا۔ “- یہ مضمون اس سے پہلے سورة الانبیاء کی آیت ١٨ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌط ” بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پر تو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘ پھر وہ مٹ جاتا ہے “۔ آیت زیر مطالعہ کا بھی بالکل یہی مفہوم ہے ‘ اس لیے یہاں ” یَقْذِفُ بِالْحَقِّ “ کے بعد ” عَلَی الْبَاطِلِ “ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :70 اصل الفاظ ہیں یَقْذِفُ بَالْحَقِّ ۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے وہ عِلم حق میرے اوپر القا کرتا ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کو غالب کر رہا ہے ، باطل کے سر پر حق کی ضرب لگا رہا ہے ۔
22: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ حق باتیں وحی کے ذریعے اوپر سے آ رہی ہیں، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر سے حق کو بھیج کر اسے باطل پر غالب فرما رہا ہے، لہذا چاہے تم کتنی مخالفت کرو، باطل رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا، اور حق غالب آ کر رہے گا۔