Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہوجائے گا اس لیے کہ دنیا وآخرت کا مالک اللہ ہی ہے ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہوگا جس کو وہ ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔ 10۔ 2 اَ لْکَلِمُ ، کَلِمَہ، ُ ایک جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح وتحمید، تلاوت ہے، چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا تاکہ اللہ انہیں جزا دے۔ 10۔ 3 خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفر و شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے اس طرح اللہ کے راستے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے نبی کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے تھے وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔ 10۔ 4 یعنی ان کا مکر بھی برباد ہوگا اور اس کا وبال انہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا (وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ ) 35 ۔ فاطر :43)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٤] مشرکین مکہ کی حرم کعبہ کی وجہ سے عرب بھر میں عزت کی جاتی تھی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ اسلام لے آئے تو یہ سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ انہیں یہ سمجھایا جارہا ہے کہ یہ عزت بھی تمہیں کعبہ کے متولی اور پاسبان ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔ اور کعبہ کو حرم بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ تم اور تمہارے معبودوں میں یہ طاقت نہیں تھی کہ تم مکہ کو حرم بناسکتے۔ اب اگر تم کعبہ کے مالک ہی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ہو تو سوچ لو تمہاری یہ عزت کیسے برقرار رہ سکتی ہے ؟ عزت تو صرف اسے ملے گی جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو کیونکہ تمام تر عزت کا سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تم لوگ اس کے دشمن بن کر کبھی عزت نہ پا سکو گے۔- [ ١٥] پاکیزہ کلمہ اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق :۔ پاکیزہ کلمات اور پاکیزہ اعمال دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کے مؤید اور مددگار ہیں۔ پاکیزہ کلمات یا اقوال اللہ کی طرف اس وقت چڑھتے ہیں جب کہ ان کی تائید اعمال صالحہ سے بھی ہو رہی ہو۔ اور اگر عمل پاکیزہ اقوال کے خلاف ہو تو یہ پاکیزہ اقوال بھی نہ اوپر چڑھ سکتے ہیں نہ اللہ کے ہاں مقبول ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اعمال صالحہ بھی اسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں جبکہ ان کی بنیاد پاکیزہ اقوال یا درست عقیدہ پر ہو۔ اگر عقیدہ درست نہ ہوگا تو ایسے اعمال بھی نہ اوپر چڑھیں گے اور نہ ہی مقبولیت کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں۔- پاکیزہ کلمات میں سب سے پہلے نمبر پر تو کلمہ طیبہ ہے جس میں شرک کا پورا رد موجود ہے اور توحید خالص کا اقرار ہے۔ پھر اللہ کا ذکر، دعا، قرآن کی تلاوت وغیرہ آخرت وغیرہ سے متعلق ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ یہ کلمات اللہ کی طرف بلند ضرور ہوتے ہیں مگر اس شرط پر کہ انہیں اعمال صالحہ یا ان اقوال پاکیزہ کے مطابق افعال کی تائید بھی حاصل ہو۔ یہی صورت اعمال صالحہ کی ہے ان کی مقبولیت کی شرط یہ ہے کہ ان کی بنیاد اقوال پاکیزہ پر اٹھی ہو۔ - [ ١٦] کفار مکہ کی چال کیسے ان پر الٹ پڑی ؟ برُی چالوں سے مراد کفار کی ہر وہ تدبیر ہے جس سے اسلام کی راہ روکی جاسکتی ہو۔ اور کفار مکہ کی تو ساری زندگی ہی بری چالوں میں گزری تھی۔ تاآنکہ مکہ فتح ہوگیا اور کفر کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ ویسے تو کفار مکہ پیغمبر اسلام کی زندگی کا خاتمہ کرنے کی بھی کئی کوششیں کرچکے تھے تاہم ان سب سے زیادہ خطرناک چال وہ تھی جو دارالندوہ میں ابو جہل نے پیش کی تھی اور جس پر شیطان بھی خوش ہوگیا تھا۔ کہ واقعی یہ چال بڑے بلند درجہ کی چال ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة انفال کی آیت نمبر ٣٠ کا حاشیہ) اور یہی تدبیر ان کافروں کی ہلاکت کا باعث یوں بنی کہ ان کی اس سازش کے فوراً بعد اللہ نے اپنے پیغمبر کو صحیح وسالم نکال کر مدینہ میں آباد کیا۔ کفار نے بدلہ لینے کی ٹھانی تو جنگ بدر کے مقام پر اللہ نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ ان کے ستر بڑے بڑے سرغنے قتل ہوگئے۔ جنہیں نہایت ذلت کے ساتھ قلیب بدر میں پھینک دیا گیا۔ اور اتنے ہی آدمی قید ہوگئے تو ان کے سب کس بل نکل گئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

۝ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ۭ: عزت کا معنی غلبہ ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَعَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ ) [ ص : ٢٣ ] ” اور اس نے بات کرنے میں مجھ پر بہت سختی کی۔ “ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے ہوسکتی ہے، پہلی جو سب سے واضح ہے، یہ ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اسے عزت و غلبہ حاصل ہو تو اسے جان لینا چاہیے کہ عزت سب کی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) [ آل عمران : ٢٦ ] ” کہہ دے اے اللہ بادشاہی کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ اس میں ان کفار و مشرکین اور بعض نام نہاد مسلمانوں کا رد ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، تاکہ وہ ان کے لیے عزت اور غلبے کا باعث بنیں، فرمایا : (وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا كَلَّا ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا) [ مریم : ٨١، ٨٢ ] ” اور انھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے، تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں۔ ہرگز ایسا نہ ہوگا، عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کردیں گے اور ان کے خلاف مد مقابل ہوں گے۔ “ اور ان ضعیف الایمان اور منافق قسم کے لوگوں کا بھی رد ہے جو کفار سے دوستی کرتے ہیں، تاکہ دنیا میں باعزت اور غالب ہو کر زندگی بسر کرسکیں، جیسا کہ فرمایا : (بَشِّرِ الْمُنٰفِقِيْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِيْـمَۨا الَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ اَيَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا) [ النساء : ١٣٨، ١٣٩ ] ” منافقوں کو خوش خبری دے دے کہ ان کے لیے ایک درد ناک عذاب ہے۔ وہ جو کافروں کو مومنوں کے سوا دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو بیشک عزت سب اللہ کے لیے ہے۔ “ یعنی جو شخص جاننا چاہتا ہے کہ عزت و غلبے کا مالک کون ہے، وہ جان لے کہ عزت و غلبہ سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اب جو بھی عزت و غلبہ چاہتا ہو وہ اس سے طلب کرے، کیونکہ جس کسی کو بھی عزت ملی ہے یا ملے گی اسی سے ملی ہے اور اسی سے ملے گی۔- الیہ یصعد الکلم الطیب : ” الکلم “ ” کَلِمَۃٌ“ کی جمع نہیں، ورنہ ” یصعد “ کے بجائے ” تَصْعَدُ “ کا لفظ آتا اور اس کی صفت مؤنث آتی، بلکہ یہ اسم جنس ہے جو واحد و جمع سب پر بولا جاتا ہے۔ جب اس کا ایک فرد بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے ساتھ ” تاء “ لگا دیتے ہیں، جیسے ” تَمْرٌ“ کھجور، ایک ہو یا بہت سی ہوں، لیکن اگر ایک کھجور کہنا ہو تو ” تَمْرَۃٌ“ کہا جائے گا۔- 3 اس میں ان چیزوں کا بیان ہے جن کے ذریعے سے عزت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہیں ایمان اور عمل صالح۔- 4 ” الکلم الطیب “ (پاکیزہ بات) سے مراد بعض نے کلمہ توحید ” لا الٰہ الا اللہ “ لیا ہے، مگر لفظ عام ہے، اس میں کلمہ اسلام کے ساتھ ذکر، دعا، تلاوت قرآن، تعلیم، تربیت اور دعوت سبھی شامل ہیں، یعنی ہر پاکیزہ بات اسی کی طرف چڑھتی ہے اور وہی اسے قبول کرتا اور بلندی عطا کرتا ہے۔ ناپاک اور خبیث باتیں عروج حاصل کر ہی نہیں سکتیں۔- 5 والعمل الصالح یرفعہ : اس کی تفسیر میں بھی تین احتمال ہیں، پہلا یہ کہ ” ہٗ “ ضمیر سے مراد کلم الطیب ہے، یعنی عمل صالح کلم الطیب (پاکیزہ بات) کو بلند کرتا ہے۔ کوئی کلمہ اپنی جگہ کتنا پاکیزہ ہو قبول اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے ساتھ عمل بھی نیک ہو، یعنی عمل کا نیک ہونا کلم الطیب کی قبولیت کے لیے شرط ہے۔ نیک عمل وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت۔ دوسرا یہ کہ ” یَرْفَعُ “ کا فاعل ” الکلم الطیب “ کی ضمیر ہو اور ” ہٗ “ کی ضمیر سے مراد عمل صالح ہو، یعنی پاکیزہ بات عمل صالح کو بلند کرتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ کلم الطیب سے مراد ” لا الہ الا اللہ “ ہو، یعنی ایمان اور کلمہ توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں، جیسا کہ فرمایا : ( من عمل صالحامن ذکر او انثی و ھو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ ) [ النحل : ٩٧ ] ” جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی۔ “ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ ” یَرْفَعُ “ میں فاعل کی ضمیر سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ جو بھی عمل صالح ہے اللہ اس کو بلند کرتا ہے، یعنی اسے قبول کرتا اور اس کی جزا عطا کرتا ہے۔ یہ تینوں معنی یہاں مراد ہوسکتے ہیں اور تینوں درست ہیں۔ شاہ عبد القادر (رح) نے ارادۂ عزت، صعود کلم طیب اور رفع عمل صالح کی باہمی مناسبت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ” یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تمہارے ذکر اور بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر غلبہ (حاصل) کریں گے، کفر دفع ہوگا (اور) اسلام کو عزت (نصیب) ہوگی۔ “- 6 والذین یمکرون السیئات لھم عذاب شدید : مکر کا معنی ہے خفیہ تدبیر، وہ اچھی ہو یا بری، اکثر مذموم تدبیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ” یمکرون السیئات “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کلم الطیب کے بجائے باطل اور خبیث باتیں لے کر اٹھتے ہیں اور مکاریوں اور چالاکیوں سے انھیں غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اس کے اولین مصداق وہ لوگ ہیں جنھوں نے دار الندوہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید یا قتل یا جلا وطن کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دیکھیے سورة انفال (٣٠) ان کے علاوہ وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں جو اسلام کے خلاف سازشیں کر کے اس پر غلبے کی کوشش کرتے ہیں۔- 6 ومکر اولٰئک ھو یبور : یعنی انھی کی تدبیر ناکام و نامراد ہوگی، اللہ کی تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوگی، جیسا کہ فرمایا : ( و مکروا و مکر اللہ واللہ خیر الماکرین ) [ آل عمران : ٥٤ ] ” اور انھوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کرنے والے اس میں کامیاب نہ ہوئے، بلکہ بدر میں ہلاک ہوئے، پھر باقی فتح مکہ میں مغلوب ہوئے۔ مزید دیکھیے سورة فاطر (٤٣) ، طور (٤٢) ، رعد (٤٢) اور سورة انعام (١٢٤، ١٢٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) الیہ یصعد الکلم الطییب والعمل الصالح یرفعہ، اس سے پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو شخص عزت و قوت کا طلب گار ہو تو اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں۔ جن چیزوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے یا جن سے عزت کی توقع پر دوستی کر رکھی ہے وہ کسی کو عزت نہیں دے سکتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے عزت و قوت حاصل کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے جس کے دو اجزاء ہیں، ایک کلم طیب، یعنی کلمہ توحید اور اللہ کی ذات وصفات کا علم دوسرے عمل صالح یعنی دل سے ایمان لانا پھر اس کے مقضنی کے موافق تابع شریعت عمل کرنا۔ حضرت شاہ عبدالقادر نے موضع القرآن میں فرمایا کہ حصول عزت کا یہ نسخہ بالکل صحیح و مجرب ہے، شرط یہ ہے کہ ذکر اللہ اور عمل صالح پر مداومت ہو، یہ مداومت ایک حد مقرر پر پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کرنے والے کو وہ لازوال عزت دینا و آخرت میں نصیب فرماتے ہیں جس کی نظیر نہیں۔- آیت مذکورہ میں ان دونوں جزاؤں کی تعبیر ان الفاظ سے کی گئی ہے کہ اچھا کلام اللہ کی طرف چڑھتا اور پہنچتا ہے اور عمل صالح اس کو اٹھاتا ہے اور پہنچاتا ہے۔ العمل الصالح یرفعہ کی ترکیب نحوی میں چند احتمال ہیں، ہر احتمال کے اعتبار سے جملے کے معنی الگ ہوجاتے ہیں۔ ائمہ تفسیر نے ان احتمالوں کے مطابق تفسیر اپنی اپنی صواب دید کے مطباق کی ہے۔ پہلا احتمال تو وہی ہے جس کے مطابق خلاصہ تفسیر میں ترجمہ کیا گیا ہے کہ یرفعہ کی ضمیر فاعل عمل صالح کی طرف راجع ہو اور ضمیر مفعول کلم طیب کی طرف اور معنی یہ ہوں کہ کلم طیب اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں مگر ان کے چڑھانے کا ذریعہ عمل صالح ہوتا ہے۔ جمہور ائمہ تفسیر ابن عباس، حسن بصری، ابن جبیر، مجاہد ضحاک، شہر بن جوشب وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اللہ کی طرف چڑھنے اور چڑھانے سے مراد اللہ کے نزدیک مقبول ہونا ہے۔ اس لئے خلاصہ اس جملے کا یہ ہوگا کہ کلم طیب خواہ کلمہ توحید ہو یا دوسرے اذکار تسبیح وتحمید وغیرہ ان میں سے کوئی چیز بغیر عمل صالح کے عند اللہ مقبول نہیں ہوتی۔ اس میں عمل صالح کا اہم جز، تصدیق قلبی ہے یعنی دل سے اللہ پر اور اس کی توحید پر ایمان لانا یہ تو مطلقاً قبولیت اعمال کی شرط لازم ہے، اس کے بغیر نہ کلمہ لا الہ الا اللہ مقبول ہے نہ کوئی دوسرا ذکر۔- اور عمل صالح کے دوسرے اجزاء نماز، روزہ وغیرہ اعمال صالحہ اور محرمات و مکروہات سے پرہیز ہے۔ یہ اگرچہ مطلقاً قبولیت کی شرط نہیں، مگر قبولیت نامہ کی شرط یہ اعمال بھی ہیں۔ تو اگر ایک شخص دل میں ایمان و تصدیق ہی نہیں رکھتا تو وہ کتنا بھی زبان سے کلمہ توحید پڑھے اور تسبیح وتحمید کرے اللہ کے نزدیک اس کو کوئی حصہ قبولیت کا حاصل نہ ہوگا اور جو تصدیق و ایمان تو رکھتا ہے مگر دوسرے اعمال صالحہ نہیں کرتا یا ان میں کوتاہی کرتا ہے اس کا ذکر اللہ اور کلمہ توحید بالکل ضائع تو نہیں ہوگا صرف اتنا کام دے گا کہ ہمیشہ کے عذاب سے اس کو نجات مل جائے گی، مگر مکمل قبولیت اس کو حاصل نہیں ہوگی جس کا یہ اثر ہوگا کہ بقدر اپنے ترک عمل کے اور کوتاہی کے عذاب بھگتے گا۔- ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قول کو بغیر عمل کے اور کسی قول و عمل کو بغیر نیت کے اور کسی قول و عمل اور نیت کو بغیر مطابقت سنت کے قبول نہیں کرتا۔ (قرطبی)- اس سے معلوم ہوا کہ مکمل قبولیت کی شرط سنت کے مطابق ہونا ہے، اگر قول بھی عمل بھی اور نیت بھی، یہ سب درست بھی ہوں مگر طریقہ عمل سنت کے مطابق نہ ہو تو قبولیت نامہ حاصل نہیں ہوگی۔- اور بعض مفسرین نے اس جملہ کی ترکیب نحوی یہ قرار دی ہے کہ یرفعہ کی ضمیر فاعل کلم طیب کی طرف اور ضمیر مفعول عمل صالح کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں معنی جملہ کے پہلے سے بالکل مختلف یہ ہوگئے کہ کلم طیب یعنی ذکر اللہ عمل صالح کو چڑھاتا اور اٹھاتا ہے، یعنی قابل قبول بناتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوگا کہ جو شخص عمل صالح کے ساتھ ذکر اللہ بھی بکثرت کرتا ہے تو یہ ذکر اللہ اس کے عمل کو مزین اور قابل قبول بنا دیتا ہے۔- اور حقیقت یہی ہے کہ جس طرح صرف کلمہ توحید اور تسبیحات بغیر عمل صالح کے کافی نہیں اسی طرح عمل صالح اور امر و نواہی کی پابندی بھی بغیر کثرت ذکر اللہ کے بےرونق رہتی ہے، ذکر اللہ کی کثرت ہی اعمال صالحہ کو مزین کر کے قابل قبول بناتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِيْعًا۝ ٠ ۭ اِلَيْہِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہٗ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّـيِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝ ٠ ۭ وَمَكْرُ اُولٰۗىِٕكَ ہُوَيَبُوْرُ۝ ١٠- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- صعد - الصُّعُودُ : الذّهاب في المکان العالي، والصَّعُودُ والحَدُورُ لمکان الصُّعُودِ والانحدار، وهما بالذّات واحد، وإنّما يختلفان بحسب الاعتبار بمن يمرّ فيهما، فمتی کان المارّ صَاعِداً يقال لمکانه : صَعُودٌ ، وإذا کان منحدرا يقال لمکانه : حَدُور، والصَّعَدُ والصَّعِيدُ والصَّعُودُ في الأصل واحدٌ ، لكنِ الصَّعُودُ والصَّعَدُ يقال للعَقَبَةِ ، ويستعار لكلّ شاقٍّ. قال تعالی: وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] ، أي : شاقّا، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً- [ المدثر 17] ، أي : عقبة شاقّة، والصَّعِيدُ يقال لوجه الأرض، قال : فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً- [ النساء 43] ، وقال بعضهم : الصَّعِيدُ يقال للغبار الذي يَصْعَدُ من الصُّعُودِ «1» ، ولهذا لا بدّ للمتیمّم أن يعلق بيده غبار، وقوله : كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام 125] ، أي : يَتَصَعَّدُ. وأما الْإِصْعَادُ فقد قيل : هو الإبعاد في الأرض، سواء کان ذلک في صُعُودٍ أو حدور . وأصله من الصُّعُودُ ، وهو الذّهاب إلى الأمكنة المرتفعة، کالخروج من البصرة إلى نجد، وإلى الحجاز، ثم استعمل في الإبعاد وإن لم يكن فيه اعتبار الصُّعُودِ ، کقولهم : تعال، فإنّه في الأصل دعاء إلى العلوّ صار أمرا بالمجیء، سواء کان إلى أعلی، أو إلى أسفل . قال تعالی:- إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] ، وقیل : لم يقصد بقوله إِذْ تُصْعِدُونَ إلى الإبعاد في الأرض وإنّما أشار به إلى علوّهم فيما تحرّوه وأتوه، کقولک : أبعدت في كذا، وارتقیت فيه كلّ مرتقی، وكأنه قال : إذ بعدتم في استشعار الخوف، والاستمرار علی الهزيمة . واستعیر الصُّعُودُ لما يصل من العبد إلى الله، كما استعیر النّزول لما يصل من اللہ إلى العبد، فقال سبحانه : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وقوله : يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً- [ الجن 17] ، أي : شاقّا، يقال : تَصَعَّدَنِي كذا، أي : شَقَّ علَيَّ. قال عُمَرُ : ما تَصَعَّدَنِي أمرٌ ما تَصَعَّدَنِي خِطبةُ النّكاحِ «2» .- ( ص ع د ) الصعود - کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور نیچے اترنے کے لحاظ سے حدودکہاجاتا ہے کہا جاتا ہے اصل میں صعد وصعید وصعود وصعد کا لفظ عقبہ یعنی کھا ٹی پر بولا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گراں امر کو صعد کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیریگا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرلیگا سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ہم اسے صعود پر چڑہائیں گے ۔ اور صعید کا لفظ وجہ الارض یعنی زمین کے بالائی حصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] تو پاک مٹی لو اور بعض نے کہا ہے کہ صعید اس گرد غیار کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جاتا ہے لہذا نماز کے تیمم کے لئے ضروری ہے کہ گرد و غبار سے ہاتھ آلودہ ہوجائیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام 125] گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یصعد اصل میں یتصعد ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ الاصعاد ( افعال ) بقول بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ جانا بلندی کیطرف ہو یا پستی کی طرف گو اس کے اصل معنی بلندجگہوں کی طرف جانا کے ہیں ۔ مثلابصرہ سے بخد یا حجازی کی طرف جانا بعد ہ صرف دور نکل جانے پر اصعاد کا لفط بولا جانے لگا ہے جیسا کہ تعال کہ اس کے اصل معنی علو بلندی کی طرف بلانے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعمال ہونے لگا ہے عام اس سے وہ آنا بالائی کی طرف ہو یا پستی کی طرف قرآن میں ہے : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] جب تم لوگ دور نکلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اصعاد سے دور نکل جانا مراد ہے ۔ بلکہ اشارہ ہے کہ انہوں نے بھاگنے میں علو اختیار کیا یعنی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جیسے محاورہ ہے : ۔ ابعدت فی کذا وار تقیت فیہ کل مرتقی یعنی میں نے اس میں انتہائی کوشش کی لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دشمن کا خوف محسوس کرنے اور لگاتار ہزیمت کھانے میں انتہا کردی اور استعارہ کے طور پر صعود کا لفظ انسانی اعمال کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو خدا تک پہنچتے ہیں جیسا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کریگا ۔ میں صعدا کے معنی شاق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تصعدفی کذا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کیس امر کے دشوار اور مشکل ہونے کے ہیں ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ( 4 ) ما تصعد لی امر ماتصعدنی خطبۃ النکاح کے مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتی ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - بور - البَوَار : فرط الکساد، ولمّا کان فرط الکساد يؤدّي إلى الفساد۔ كما قيل : كسد حتی فسد۔ عبّر بالبوار عن الهلاك، يقال : بَارَ الشیء يَبُورُ بَوَاراً وبَوْراً ، قال عزّ وجل : تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر 29] ، وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر 10] ، وروي : «نعوذ بالله من بوار الأيّم» ، وقال عزّ وجل : وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم 28] ، ويقال : رجل حائر بَائِر، وقوم حور بُور . وقال عزّ وجل : حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان 18] ، أي : هلكى، جمع : بَائِر .- البوار ( ن )- اصل میں بارالشئ بیور ( ، بورا وبورا کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ مندا پڑنے کے ہیں اور چونکہ کسی چیز کی کساد بازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ کہا جانا ہے کسد حتیٰ فسد اس لئے بوار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر 29] اس تجارت ( کے فائدے ) کے جو کبھی تباہ نہیں ہوگی ۔ وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر 10] اور ان کا مکرنا بود ہوجائیگا ۔ ایک روایت میں ہے (43) نعوذ باللہ من بوارالایم کہ ہم بیوہ کے مندا پن سے پناہ مانگتے ہیں یعنی یہ کہ اس کے لیے کہیں سے پیغام نکاح نہ آئے ۔ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم 28] اور اپنی قوم کو تباہی کے گھرا تارا ۔ رجل جائر بائر مرد سر گشتہ خود رائے ۔ جمع کے لئے حور بور کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ ؛۔ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان 18] یہاں تک کہ وہ تیری یا د کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے ۔ میں بوبائر کے جمع ہے بعض نے کہا ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد و جمع دونوں کی صفت واقع ہوتا ہے جیسے ۔ رجل بورو قوم بور

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اگر نمازی کے آگے سے کتا، گدھا گزر جائے تو نماز قطع نہیں ہوتی - عکرمہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے سامنے ذکر ہوا کہ اگر نمازی کے آگے سے کتا یا گدھا گزر جائے تو اس کی نماز کو قطع کردیتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ سن کر آیت تلاوت کی (الیہ یصعد اکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ۔ اسی کی طرف اچھا کلام بلند ہوتا ہے اور عمل صالح اس کی بلند کرتا ہے ) اور فرمایا : ” اسے کون سی چیز قطع کرسکتی ہے۔ “ سالم نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ پاکیزہ کلام کو عمل صالح بلند کرتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ عزت قدرت و طاقت کس کے لیے ہے تو سمجھ لے کہ تمام تر عزت بالذات اور قدرت اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اچھا کلام یعنی کلمہ طیبہ اسی تک پہنچتا ہے اور وہ اس کو قبول کرتا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر رہے ہیں یا یہ کہ جو دار الندوہ میں بڑی بڑی تدابیر کر رہے ہیں کہ رسول اکرم کو یا تو معاذ اللہ قید کرلیں یا آپ کو اس بستی سے نکال دیں یا سب ملکر آپ کو شہید کردیں۔ ان لوگوں یعنی ابو جہل وغیرہ کو سخت ترین عذاب ہوگا اور ان کا یہ مکر و فریب تباہ و برباد ہوجائے گا اور کہا گیا کہ یہ آیت سود خوروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ” جو کوئی عزت کا طالب ہے تو (وہ جان لے کہ) عزت سب کی سب اللہ کے پاس ہے۔ “- جو شخص اللہ کے جتنا قریب ہوگا اسی قدر وہ سزا وار عزت اور صاحب ِتوقیر ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص اللہ سے جتنا دور ہوگا اسی قدر وہ ذلیل ہوگا ‘ چاہے دنیا میں وہ بظاہر کتنا ہی با عزت اور صاحب ثروت ہو۔ سورة المنافقون میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا : وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ” اور عزت تو اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور مومنین کے لیے ‘ لیکن منافقین (یہ بات) نہیں جانتے۔ “- اِلَـیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ ” اسی کی طرف اٹھتی ہیں اچھی باتیں “- ہر اچھی بات ‘ ہر اچھا نظریہ ‘ اچھا خیال ‘ دعوت ِحسنہ اور موعظہ حسنہ گویا ” کلمہ طیبہ “ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ” الْکَلِمُ الطَّیِّبُ “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر ‘ دعا ‘ تلاوتِ قرآن اور علم و نصیحت کی باتیں ہیں۔ چناچہ ” ایمان “ بھی کلمہ طیبہ ہے۔ ظاہر ہے اگر کہیں کسی خیال یا نظریہ کا اظہار کیا جائے گا تو لامحالہ اس کا اظہار ایک ” کلمہ “ ہی کی شکل میں پیش کرنا ممکن ہوگا۔ بہر حال ہر کلمہ طیبہ (پاکیزہ بات) میں ترفع ّ (اوپر اٹھنے) کی خداد ادصلاحیت موجود ہوتی ہے اور یوں ہر کلمہ طیبہ اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے ‘ لیکن ترفع کی اس صلاحیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے محنت اور کوشش کی بھی ضرورت ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا :- وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ ” اور عمل ِصالح اسے اوپر اٹھاتا ہے۔ “- یعنی ایمان ‘ یقین ‘ اچھے خیالات ‘ اچھے نظریات اور اچھے عزائم اکیلے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے جب تک ان کے ساتھ محنت اور تگ و دو نہیں ہوگی۔ گویا حقیقی کامیابی کے لیے ایمان اور عمل صالح دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ - وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ” اور جو لوگ بری سازشیں کر رہے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہوگی۔ “- وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ ” اور ان کی سازشیں ناکام ہو کر رہ جائیں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :20 یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہو جائے گی ، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک میں مل جائے گی ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے ، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی ، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آسکتی ہے ۔ اس کے ہو جاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی ۔ اور اس سے منہ موڑو گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :21 یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا ۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے جو سچا ہو ، پاکیزہ ہو ، حقیقت پر مبنی ہو ، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو ۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے ۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے ۔ محض زبان کے پھاگ اڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا ۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو ۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو ۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہ لا شریک کو معبود مانتا ہوں ، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے ۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں ، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :22 یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں ، ان کو چالاکیوں سے ، فریب کاریوں سے اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں ، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بری سے بری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: پاکیزہ کلمے سے مراد وہ کلمہ ہے جس کے ذریعے انسان ایمان کا اقرار کرتا ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوسرے کلمات بھی داخل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف ان کے چڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہوتے ہیں۔ اور نیک عمل کے اس کلمے کو اوپر اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کلمے کی پوری مقبولیت نیک عمل کے ذریعے ہوتی ہے۔