ایک موازنہ ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ مومن و کفار برابر نہیں ۔ جس طرح اندھا اور دیکھتا ۔ اندھیرا اور روشنی ، سایہ اور دھوپ ، زندہ اور مردہ برابر نہیں ۔ جس طرح ان چیزوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اسی طرح ایمان دار اور بے ایمان میں بھی بے انتہا فرق ہے ۔ مومن آنکھوں والے اجالے ، سائے اور زندہ کی مانند ہے ۔ برخلاف اس کے کافر اندھے اندھیرے اور بھرپور لو والی گرمی کی مانند ہے ۔ جیسے فرمایا ( اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٢٢ ) 6- الانعام:122 ) ، یعنی جو مردہ تھا پھر اسے ہم نے زندہ کر دیا اور اسے نور دیا جسے لئے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے ایسا شخص اور وہ شخص جو اندھیروں میں گھرا ہوا ہے جن سے نکل ہی نہیں سکتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اور آیت میں ہے ( مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ ۭ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 24ۧ ) 11-ھود:24 ) ، یعنی ان دونوں جماعتوں کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے اور سننے والوں کی سی ہے ۔ مومن تو آنکھوں اور کانوں والا اجالے اور نور والا ہے پھر راہ مستقیم پر ہے ۔ جو صحیح طور پر سایوں اور نہروں والی جنت میں پہنچے گا اور اس کے برعکس کافر اندھا بہرا اور اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے جن سے نکل ہی نہ سکے گا اور ٹھیک جہنم میں پہنچے گا ۔ جو تند و تیز حرارت اور گرمی والی آگ کا مخزن ہے ۔ اللہ جسے چاہے سنا دے یعنی اس طرح سننے کی توفیق دے کہ دل سن کر قبول بھی کرتا جائے ۔ تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا ۔ یعنی جس طرح کوئی مرنے کے بعد قبر میں دفنا دیا جائے تو اسے پکارنا بےسود ہے ۔ اسی طرح کفار ہیں کہ ہدایت و دعوت ان کے لئے بیکار ہے ۔ اسی طرح ان مشرکوں پر بدبختی چھاگئی ہے اور ان کی ہدایت کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تو انہیں کسی طرح ہدایت پر نہیں لا سکتا تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے ۔ تیرے ذمے صرف تبلیغ ہے ۔ ہدایت و ضلالت من جانب اللہ ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ہر امت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتا رہا ۔ تاکہ ان کا عذر باقی نہ رہ جائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ Ċۧ ) 13- الرعد:7 ) اور جیسے فرمان ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36 ) 16- النحل:36 ) ، وغیرہ ، ان کا تجھے جھوٹا کہنا کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا ہے ۔ جو بڑے بڑے معجزات ، کھلی کھلی دلیلیں ، صاف صاف آیتیں لے کر آئے تھے اور نورانی صحیفے ان کے ہاتھوں میں تھے ، آخر ان کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے انہیں عذاب و سزا میں گرفتار کرلیا ۔ دیکھ لے کہ میرے انکار کا نتیجہ کیا ہوا ؟ کس طرح تباہ و برباد ہوئے؟ واللہ اعلم
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ : یہ کافر اور مومن کی مثال ہے کہ کافر اندھا ہے اور مومن آنکھوں والا۔
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ١٩ۙ- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
(١٩۔ ٢٤) اور کافر مومن دونوں برابر نہیں اور نہ کفر و ایمان اور نہ جنت و دوزخ اور نہ مومنین و کافرین اطاعت و بزرگی میں برابر ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو اس چیز کا اہل ہوتا ہے اس کو سمجھا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سمجھا سکتے جو ایسے ہیں جیسا کہ قبروں میں دفن کیے گئے ہیں۔- آپ تو صرف قرآن کریم کے ذریعے سے ڈرانے والے پیغمبر ہیں۔- ہم ہی نے آپ کو قرآن کریم دے کر مسلمانوں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی اللہ کی طرف سے ڈرانے والا پیغمبر نہ گزرا ہو۔
آیت ١٩ وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ ” اور برابر نہیں ہوسکتے اندھا اور دیکھنے والا۔ “