8۔ 1 جس طرح کفار و بدکار ہیں، وہ کفر و شرک فسق اور بدکاری کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کردیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے ؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے ؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقینا نہیں۔ 8۔ 2 اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی رو سے اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہے جو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل وکرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔ 8۔ 3 کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر اور علم تام پر مبنی ہے اس لیے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔ 8۔ 4 یعنی اس سے کوئی قول یا فعل مخفی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ علیم وخبیر اور ایک حکیم کی طرح ہے عام بادشاہوں کی طرح کا نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔
[ ١٢] کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ کا پریشان رہنا :۔ اس آیت میں ایک جملہ مخدوف ہے جسے قاری کے فہم و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور یہ فصاحت و بلاغت کی دلیل ہوتی ہے۔ اور قرآن میں ایسے محذوفات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ کیا گیا ہے کہ بھلا ایسا شخص جس کے ذہن میں اتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہو کہ اس کے نزدیک نیکی اور بدی کی تمیز ہی ختم ہوجائے اور اسے اپنی بداعمالیاں ہی اچھے اعمال نظر آنے لگیں، اس سوالیہ جملے کا اگلا حصہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی گمراہی کا کوئی ٹھکانا ہے ؟ جیسا کہ ترجمہ میں (بریکٹوں میں لکھ دیا گیا ہے) اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا ایسے بگڑے ہوئے ذہن والا آدمی اس آدمی کی طرح ہوسکتا ہے جس کا ذہن بالکل درست ہو جو برے کام کو برا ہی سمجھتا ہو اور اچھا صرف اسے سمجھتا ہو جو فی الواقع اچھا ہو ؟ اور اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ مقصود یہ ہے کہ جس شخص کا ذہن اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت ہی باقی نہ رہ گئی ہو ایسے شخص کو اللہ کبھی ہدایت کی راہ نہیں دکھاتا۔ اللہ تو صرف اسے ہدایت کی راہ دکھاتا ہے جو کم از کم بدی کو بدی سمجھتا تو ہو۔ اور ان مشرکین مکہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ مسلمانوں پر جس قدر بھی ظلم ڈھائیں۔ وہ اپنے اس ظلم و تشدد کو خوبی اور اچھا کام ہی سمجھتے ہیں۔ پھر انہیں ہدایت کیسے مل سکتی ہے لہذا ایسے ذہنی بگاڑ میں مبتلا مریضوں کی ہدایت کی فکر میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ ایسے لوگوں پر افسوس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور مسلمانوں کے لئے ان ظالموں کے ظلم سے نجات کی راہ خود پیدا کردے گا۔
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا : اس کا جواب محذوف ہے : ” أَيْ کَمَنْ لَیْسَ کَذٰلِکَ “ یعنی کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا، وہ اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ ایسا شخص اس شخص کی طرح نہیں ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت عطا ہوئی ہو اور وہ اس پر عمل کرتا ہو۔ دوسری جگہ یہ بات واضح الفاظ میں فرمائی : (اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوْٓا اَهْوَاۗءَهُمْ ) [ محمد : ١٤ ] ” تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کے لیے اس کے برے اعمال مزیّن کردیے گئے اور انھوں نے اپنی خواہشوں کی پیروی کی۔ “ مطلب یہ کہ کافر اور مومن برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزیّن کیا گیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اگرچہ برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے، اچھا نہیں۔ ظاہر ہے یہ دونوں شخص بھی برابر نہیں ہوسکتے، کیونکہ ایک شخص جو برا کام کرتا ہے اور اسے برا ہی سمجھتا ہے، اس کے متعلق تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجائے گا، لیکن جو شخص برا کام کرتا ہے مگر اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہے تو اس کے راہ راست پر آنے کی کبھی امید نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا ١٠٣ۭ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ١٠ 4 ۔ ) [ الکہف : ١٠٣، ١٠٤ ] ” کہہ دے کیا ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ “ - اس آیت میں برے عمل سے مراد کفرو شرک ہے، جیسا کہ سورة کہف کی آیت کے بعد فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ ) [ الکہف : ١٠٥ ] ” یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا۔ “ البتہ آیت کے الفاظ عام ہونے کی وجہ سے بدعتی لوگ بھی اس میں شامل ہیں، کیونکہ وہ بدعت کو نیکی سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے چوری، زنا اور قتل وغیرہ کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتا ہے، اس لیے امید ہے کہ وہ توبہ کرلے گا، مگر خود ساختہ دین پر عمل کرنے والا، مثلاً اپنے یا لوگوں کے بنائے ہوئے ورد و وظائف یا دوسرے کام کرنے والا شخص تو جو کچھ کر رہا ہے نیکی سمجھ کر کرتا ہے، اسے توبہ کی توفیق کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس لیے جب شیطان کسی کو کافر بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اسے کسی بدعت پر لگا دے، جسے وہ نیکی سمجھ کر کرتا رہے گا اور جتنی محنت سے کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوتا جائے گا، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔- فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ڮ : یعنی ایسے لوگوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہی کی وجہ سے ہے اور بعض کا گمراہ ہونا اور بعض کا ہدایت پانا اس کی حکمت کا نتیجہ ہے، وہ چاہتا تو سب ہدایت پا جاتے مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اگرچہ اس کا ہدایت دینا یا گمراہ کرنا بھی آدمی کے عمل یا استعداد کا نتیجہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ٢٦ ] ” اور وہ اس کے ساتھ گمراہ نہیں کرتا مگر فاسقوں کو۔ “ - فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۭ : ” حَسَرٰتٍ ۭ“ واحد ” حَسْرَۃٌ“ کسی چیز کے ہاتھ سے نکلنے پر شدید غم اور افسوس، یعنی آپ کا کام دعوت اور پیغام پہنچانا ہے، انھیں راہ راست پر لے آنا آپ کے بس میں نہیں۔ اس لیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت و افسوس کی وجہ سے آپ کی جان ہی نکل جائے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ کفار کا کفر پر قائم رہنا اللہ کی مشیّت سے ہے، آپ اپنا کام سر انجام دیں، لوگوں کا ایمان لانا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ اس آیت سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے ایمان نہ لانے پر کس قدر افسوس اور صدمہ ہوتا تھا، حتیٰ کہ قریب تھا کہ آپ اس غم میں جان ہی سے گزر جائیں، جیسا کہ فرمایا : (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) [ الکہف : ٦ ] ” پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ “ اور فرمایا : (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ) [ الشعراء : ٣ ] ” شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ “- اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : اس جملے میں دھمکی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انھیں ان کے برے اعمال کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا مجرم کو یہ کہنا کہ میں تمہاری حرکتوں سے خوب واقف ہوں، دراصل اسے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ تمہیں اس کی سزا دے کر رہوں گا۔
(آیت) فان اللہ یضل من یشاء۔ امام بغوی نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ اسلام کو عزت وقوت عطا کر دے، عمر بن خطاب کے ذریعہ یا ابوجہل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے عمر بن خطاب کو ہدایت دے کر اسلام کی عزت و قوت کا سبب بنادیا اور ابوجہل اپنی گمراہی میں رہا۔ (مظہری)
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَہٗ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَـنًا ٠ ۭ فَاِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ۡ ۖ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُكَ عَلَيْہِمْ حَسَرٰتٍ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ٨- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - حسر - الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال :- حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) .- ( ح س ر ) الحسر - ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔
سو ایسا شخص جس کو اس کا عمل بد اچھا کر کے دکھلا دیا گیا پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگا جیسا کہ ابو جہل تو کہیں یہ ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جس کو ہم نے ایمان و اطاعت کے ساتھ سرفرازی عطا فرمائی جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ جو گمراہی کا اہل ہوتا ہے اسے اپنے دین سے گمراہ کرتے ہیں یعنی ابو جہل وغیرہ اور جو ہدایت کا مستحق ہوتا ہے اسے ہدایت کرتے ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق۔ لہٰذا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان کی تباہی و بربادی پر حسرت کر کے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے۔- یہ اپنی کفریہ حالت میں جو دار الندوہ میں رسول اکرم کو نقصان پہنچانے کی جو تدابیر و مشورے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کو ان سب سے باخبر ہے۔- شان نزول : اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا (الخ)- جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اکرم نے فرمایا تھا الہ العالمین اپنے دین کو عمر بن الخطاب یا ابوجہل بن ہشام کے ذریعے سے عزت عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق کو ہدایت دی اور ابو جہل کو گمراہ کیا ان دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٨ اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ” تو کیا وہ شخص جس کے لیے مزین ّکر دی گئی ہو اس کے عمل کی برائی اور وہ اسے اچھاسمجھ رہا ہو (ہدایت پاسکتا ہے) “- آج من حیث القوم ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ آج ہم فحاشی اور بےحیائی کو کلچر اور ثقافت کے خوبصورت ناموں کے ساتھ نہ صرف معاشرے میں ترویج دے رہے ہیں بلکہ اس ” ترقی “ پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ٹیوی ‘ کیبل اور انٹر نیٹ نے اس فحاشی کو گھر گھر میں پہنچا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کو اس ” اشاعت ِفاحشہ “ میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ امریکہ میں تو ایسی بھی پائی جاتی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف لباس کو محض ایک تکلف سمجھتے ہیں بلکہ مادرزاد برہنہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی حالت میں مخلوط محفلیں بھی سجاتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی فحاشی اور بےحیائی کی زندہ مثال ہے۔ ہم جنس پرست مرد ( ) ہوں یا عورتیں ( ) وہ نہ صرف انتہائی بےشرمی اور بےباکی سے اس فعل شنیع میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے باقاعدہ تنظی میں بنا رکھی ہیں اور ان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے وہ سر عام اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اپنے قانونی و معاشرتی ” حقوق “ کے لیے سینہ تان کر مظاہرے کرتے ہیں۔ بہر حال آج کی دنیا میں بیشمار لوگ اس آیت کے الفاظ کا مصداق نظر آتے ہیں جن کے برے اعمال ان کی نگاہوں میں مزین کردیے گئے ہیں اور وہ ان برے اعمال کو نہ صرف اچھا سمجھتے ہیں بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔- فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ” تو اللہ گمراہ کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “- یہاں پر ” مَنْ “ کا تعلق دو طرفہ ہے۔ چناچہ اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے اور گمراہ کرتا ہے اسے جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔- فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کی جان نہ گھلے ان لوگوں پر رنج کی وجہ سے۔ “- اب جبکہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے انجام کے تصور سے ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنی جان مت گھلائیں ‘ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں ۔ - ۔ یہ مضمون سورة الکہف میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے ‘ اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات (قرآن) پر “۔ پھر یہی مضمون سورة الشعراء میں بھی مذکور ہے : لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو ‘ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے۔ “- اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ ” یقینا اللہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ کہ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :15 اوپر کے دو پیرا گراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے ۔ اب اس پیرا گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :16 یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے ۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں ۔ ذہن نہیں بگڑا ۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے ، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی ، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے ، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے ، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے ، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے ۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی ۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے ۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :17 پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں ۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے ۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو ۔ اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں ۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے ۔ یہ لوگ درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے ۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے ۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے ۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں ، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مدمقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے ۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے ۔ دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا تو وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا ۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی ۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود دراصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :18 اس فقرے میں آپ سے آپ یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا ۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں ، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا ۔
2: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، زبردستی گمراہ کردیتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص ہٹ دھرمی سے خود گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو گمراہی میں ہی مبتلا رکھ کر اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ دیکھئے سورۂ بقرہ :7