Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مبلغ حق شہید کر دیا ۔ مروی ہے کہ اس بستی کے لوگ یہاں تک سرکش ہوگئے کہ انہں نے پوشیدہ طور پر نبیوں کے قتل کا ارادہ کر لیا ۔ ایک مسلمان شخص جو اس بستی کے آخری حصے میں رہتا تھا جس کا نام حبیب تھا اور رسے کا کام کرتا تھا ، تھا بھی بیمار ، جذام کی بیماری تھی ، بہت سخی آدمی تھا ۔ جو کماتا تھا اس کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتا تھا ۔ دل کا نرم اور فطرت کا اچھا تھا ۔ لوگوں سے الگ تھلگ ایک غار میں بٹھ کر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا تھا ۔ اس نے جب اپنی قوم کے اس بد ارادے کو کسی طرح معلوم کیا تو اس سے صبر نہ ہو سکا دوڑتا بھاگتا آیا ۔ بعض کہتے ہیں یہ بڑھئی تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ دھوبی تھے ۔ عمر بن حکم فرماتے ہیں جوتی گانٹھنے والے تھے ۔ اللہ ان پر رحم کرے ۔ انہوں نے آ کر اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا کہ تم ان رسولوں کی تابعداری کرو ۔ ان کا کہا مانو ۔ ان کی راہ چلو ، دیکھو تو یہ اپنا کوئی فائدہ نہیں کر رہے یہ تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی بدلہ نہیں مانگتے ۔ اپنی خیر خواہی کی کوئی اجرت تم سے طلب نہیں کر رہے ۔ درد دل سے تمہیں اللہ کی توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور سیدھے اور سچے راستے کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔ خود بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں ۔ تمہیں ضرور ان کی دعوت پر لبیک کہنا چاہئے اور ان کی اطاعت کرنی چاہئے ۔ لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ انہیں شہید کر دیا ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یہ شخص مسلمان تھا، جب اسے پتہ چلا کہ قوم پیغمبروں کی دعوت کو نہیں اپنا رہی، تو اس نے آکر رسولوں کی حمایت اور ان کے اتباع کی ترغیب دی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان رسولوں اور ان کی قوم میں جو مکالمہ اوپر مذکور ہوا ہے وہ کوئی چند دنوں پر مشتمل نہیں بلکہ کئی سالوں کی مدت پر محیط تھا اور رسولوں کی دعوت اور ان کے انکار اور دھمکیوں کا چرچا اس شہر کے علاوہ ارد گرد کے مضافات میں بھی پھیل چکا تھا۔ چناچہ انہیں مضافات میں سے ایک صالح مرد جس کا نام حبیب بتایا جاتا ہے نے جب یہ سنا کہ شہر والے اپنے رسولوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور مبادا وہ کوئی ایسی حرکت کر نہ بیٹھیں، تو اس سے برداشت نہ ہوسکا۔ وہ خود ایک عبادت گزار انسان تھا۔ اور اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی کھاتا تھا۔ اور اچھی شہرت رکھتا تھا، یہ باتیں سنتے ہی دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھائے کہ وہ ان رسولوں کی مخالفت سے باز آجائیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى : آیات سے ظاہر ہے کہ پیغمبروں کی دعوت اور قوم کا مباحثہ مدت تک جاری رہا، حتیٰ کہ ان کی دعوت ساری بستی میں پھیل گئی اور جب انھوں نے قتل کی دھمکی دی تو یہ خبر بھی ہر طرف پھیل گئی کہ بستی کے لوگ پیغمبروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ بستی خاصی بڑی تھی، جسے پہلے اللہ تعالیٰ نے ” الْقَرْيَةِ “ فرمایا ہے، اس کے بعد اسے ” الْمَدِيْنَةِ “ یعنی شہر کہا ہے۔ اس شہر کے سب سے دور کنارے میں ایک صالح آدمی رہتا تھا، اسے جب پیغمبروں کی دعوت اور قوم کے انکار کی اور پیغمبروں کو قتل کرنے کی دھمکیوں کی خبر پہنچی تو وہ شہر کے سب سے دور کنارے سے دوڑتا ہوا آیا کہ کہیں وہ جلدی میں پیغمبروں کو قتل ہی نہ کردیں، اور وہ اپنی قوم کو سمجھانے لگا۔ اس مرد صالح کا یہ عمل ہمارے لیے نمونہ ہے کہ جب اسے معلوم ہوگیا کہ پیغمبر حق پر ہیں تو اس نے اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہتا، بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے جتنی جلدی ہوسکتا تھا دوڑتا ہوا پہنچا اور اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی اور کہا، اے میری قوم اللہ کے ان رسولوں کی پیروی اختیار کرو۔ اس مرد صالح کا نام تفاسیر میں حبیب نجار لکھا ہے جو اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ (واللہ اعلم)- یہاں ایک سوال ہے کہ سورة قصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے قتل کے مشورے کی خبر دینے والے صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى) [ القصص : ٢٠ ] جب کہ یہاں فرمایا : (وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ ) اس میں کیا حکمت ہے ؟ اہل علم نے فرمایا کہ ہمیشہ پہلے اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے جو موقع کے لحاظ سے زیادہ اہم ہو۔ سورة قصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع دینے والے شخص کی مردانگی کا اظہار زیادہ اہم تھا، اس لیے ” رَجُلٌ“ کا ذکر پہلے فرمایا، جب کہ یہاں اس مرد ناصح کا دور سے آ کر سمجھانے کا ذکر زیادہ اہم تھا، اس لیے ” مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ “ کو پہلے ذکر فرمایا۔ (واللہ اعلم)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وجاء من اقصی المدینہ رجل یسعیٰ ، پہلی آیت میں اس مقام کو جس میں یہ قصہ پیش آیا لفظ قریہ سے تعبیر کیا گیا جو عربی زبان کے اعتبار سے صرف چھوٹے گاؤں کو نہیں بلکہ مطلق بستی کو کہتے ہیں، چھوٹی بستی ہو یا بڑا شہر۔ اور اس آیت میں اس مقام کو لفظ مدینہ سے تعبیر کیا جو صرف بڑے شہر ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس بستی میں یہ واقعہ ہوا ہے وہ کوئی بڑا شہر تھا، اس سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے جس میں اس کو انطاکیہ قرار دیا ہے۔ اقصی المدینہ سے مراد شہر کے کسی گوشہ سے آنا ہے۔ رجل یسعیٰ ، لفظ یسعیٰ سعی سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی دوڑ کر چلنے کے ہیں۔ اس لئے معنی یہ ہوئے کہ شہر کے کسی دوسرے گوشہ سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، اور کبھی لفظ سعی اہتمام کے ساتھ چلنے کے معنے میں بھی آتا ہے چاہے دوڑ کر نہ چلے، جیسے سورة جمعہ میں (آیت) فاسعوا الیٰ ذکر اللہ میں یہی معنی مراد ہیں۔- گوشہ شہر سے آنے والے شخص کا واقعہ :- قرآن کریم نے اس کو بھی مبہم رکھا ہے، اس شخص کا نام اور حال ذکر نہیں فرمایا۔ تاریخی روایات میں ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس اور کعب احبار اور وہب بن منبہ کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ اس شخص کا نام حبیب تھا، اس کے پیشہ کے متعلق مختلف اقوال ہں، ان میں مشہور یہ ہے کہ نجار تھا لکڑی کا کام کرتا تھا۔ (ابن کثیر)- اور تاریخی روایات جو مفسرین نے اس جگہ نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بھی شروع میں بت پرست تھا، دو رسول جو پہلے اس شہر میں آئے اس کی ملاقات ان سے ہوگئی ان کی تعلیم سے اور بعض روایات کے اعتبار سے ان کا معجزہ یا کرامت دیکھ کر اس کے دل میں ایمان پیدا ہوا۔ بت پرستی سے تائب ہو کر مسلمان ہوگیا اور کسی غار وغیرہ میں جا کر عبادت میں مشغول ہوگیا جب اس کو یہ خبر ملی کہ شہر کے لوگ ان رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو جھٹلا کر ان کے درپے آزار ہوگئے اور قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں، تو یہ اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان رسولوں کی ہمدردی کے ملے جلے جذبے سے جلدی کر کے اپنی قوم میں آیا اور ان کو رسولوں کا اتباع کرنے کی نصیحت کی۔ اور پھر اپنے مومن ہونے کا اعلان کردیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَۃِ رَجُلٌ يَّسْعٰى قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٢ ٠ۙ- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- قصی - القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص - 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال .- ( ق ص و ) القصی - کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا محاورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی )- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) اور انبیاء کرام کی خبر سن کر اس شہر کے کسی دور مقام سے حبیب نجار مسلمان دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر ان رسولوں کی پیروی کرو۔- جو تم سے اس چیز پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ خود بھی موحد اور سیدھے راستے پر ہیں اس پر قوم نے ان سے کہا کہ تو نے ہم سے اور ہمارے دین سے بےزاری ظاہر کی اور ہمارے دشمن کے دین کو اختیار کرلیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ وَجَآئَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ رَجُلٌ یَّسْعٰی ” اور شہر کے َپرلے سرے سے آیا ایک شخص بھاگتا ہوا “- قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ ” اس نے کہا : اے میری قوم کے لوگو تم ان رسولوں ( علیہ السلام) کی پیروی کرو “- تم لوگ ان پر ایمان لائو ‘ ان کی تصدیق کرو اور ان کی اطاعت کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: روایتوں میں ان کا نام حبیب نجار بتایا گیا ہے۔ یہ پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھے، اور ان رسولوں کی دعوت پہلے ہی قبول کر کے ایمان لا چکے تھے، اور شہر کے سرے پر کہیں تنہا رہ کر عبادت میں لگے رہتے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی قوم کے لوگ ان رسولوں کو تکلیف پہنچانے کے درپے ہیں تو یہ جلدی سے وہاں پہنچے، اور بڑے مؤثر انداز میں اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔