Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

راہ حق کا شہید ۔ وہ نیک بخت شخص جو اللہ کے رسولوں کی تکذیب و تردید اور توہین ہوتی دیکھ کر دوڑا ہوا آیا تھا اور جس نے اپنی قوم کو نبیوں کی تابعداری کی رغبت دلائی تھی وہ اب اپنے عمل اور عقیدے کو ان کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انہیں حقیقت سے آگاہ کرکے ایمان کی دعوت دے رہا ہے ، تو کہتا ہے کہ میں تو صرف اپنے خالق مالک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی قدرت کی ہی عبادت کرتا ہوں جبکہ صرف اسی نے مجھے پیدا کیا ہے تو میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں؟ پھر یہ نہیں کہ اب ہم اس کی قدرت سے نکل گئے ہیں؟ اس سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا ہو؟ نہیں بلکہ سب کے سب لوٹ کر پھر اس کے سامنے جمع ہونے والے ہیں ۔ اس وقت وہ ہر بھلائی برائی کا بدلہ دے گا ۔ یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ میں اس خالق و وقار کو چھوڑ کر اوروں کو پوجوں جو نہ تو یہ طاقت رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی کسی مصیبت کو مجھ پر سے ڈال دیں ، نہ یہ کہ ان کے کہنے سننے کی وجہ سے مجھے کوئی برائی پہنچے ، اللہ اگر مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو یہ اسے دفع نہیں کرسکتے روک نہیں سکتے نہ مجھے اس سے بچاسکتے ہیں ، اگر میں ایسے کمزوروں کی عبادت کرنے لگوں تو مجھ سے بڑھ کر گمراہ اور بہکا ہوا اور کون ہو گا ؟ پھر تو نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے ہر بھلے انسان کو میری گمراہی کھل جائے گی ۔ میری قوم کے لوگو اپنے جس حقیقی معبود اور پروردگار سے تم منکر ہوئے ہو ۔ سنو میں تو اس کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ بھی معنی اس آیت کے ہوسکتے ہیں کہ اس اللہ کے بندے مرد صالح نے اب اپنی قوم سے روگردانی کرکے اللہ کے ان رسولوں سے یہ کہا ہو کہ اللہ کے پیغمبرو تم میرے ایمان کے گواہ رہنا میں اس اللہ کی ذات پر ایمان لایا جس نے تمہیں برحق رسول بناکر بھیجا ہے ، پس گویا یہ اپنے ایمان پر اللہ کے رسولوں کو گواہ بنا رہا ہے ۔ یہ قول بہ نسبت اگلے قول کے بھی زیادہ واضح ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ بزرگ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ تمام کفار پل پڑے اور زدوکوب کرنے لگے ۔ کون تھا جو انہیں بچاتا ؟ پتھر مارتے مارتے انہیں اسی وقت فی الفور شہید کردیا ( رضی اللہ عنہ وارضاہ ) یہ اللہ کے بندے یہ سچے ولی اللہ پتھر کھا رہے تھے لیکن زبان سے یہی کہے جا رہے تھے کہ اللہ میری قوم کو ہدایت کر یہ جانتے نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 اپنے مسلک توحید کی وضاحت کی، جس سے مقصد اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان کی صحیح رہنمائی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی قوم نے اس سے کہا ہو کہ کیا تو بھی اس معبود کی عبادت کرتا ہے، جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں بلا رہے ہیں اور ہمارے معبودوں کو تو بھی چھوڑ بیٹھا ہے ؟ جس کے جواب میں اس نے کہا۔ مفسرین نے اس شخص کا نام حبیب نجار بتایا۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٤] تیسری بات جو مرد صالح نے سمجھائی۔ اس میں قوم کو مخاطب نہیں کیا تاکہ وہ چڑ نہ جائیں بلکہ اسے اپنی ذات سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ عبادت کی مستحق وہی ہستی ہوسکتی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی لئے میں صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اور اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم نے اپنا حاجت روا قرار دے رکھا ہے ان کا میرے پیدا کرنے اور رزق دینے میں کچھ حصہ ہی نہیں تو آخر میں انہیں کیوں پکاروں اور کیوں ان کی عبادت کروں۔- [ ٢٥] چوتھی بات ان کے انجام سے متعلق انہیں سمجھائی کہ آخر تم سب نے مرنا ہے۔ اور تم سب کی روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ اور تمہیں اس ہستی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس کی بندگی کی دعوت پر آج تمہیں اعتراض ہے اور جو تمہیں یہ بات سمجھائے اس کے درپے آزار ہوجاتے ہو۔ پھر تم خود ہی سوچ لو کہ تمہارا انجام کیا ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ : توحید کی دعوت دیتے ہوئے اس مرد صالح نے نہایت حکیمانہ اسلوب اختیار کیا کہ انھیں مخاطب کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مخاطب کرلیا، تاکہ وہ چڑ نہ جائیں۔ یعنی آخر مجھے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور ان کی عبادت کروں جنھوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا، بلکہ خود لوگوں نے انھیں بنایا ہے۔- وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : اور یہ بھی نہ سمجھنا کہ اس نے ہمیں پیدا کر کے آزاد چھوڑ دیا ہے، اب اس کا کوئی تعلق واسطہ ہم سے نہیں رہا، بلکہ تم سب کو مرنے کے بعد اسی کے پاس واپس لے جایا جائے گا، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٢٢- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا،- وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] - ( ف ط ر ) الفطر - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اس پر حبیب نجار کہنے لگے میرے پاس کون سا عذر ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور مرنے کے بعد تم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ” اور مجھے کیا ہے کہ میں عبادت نہ کروں اس ہستی کی جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔ “- دیکھو یہ لوگ جو دعوت دے رہے ہیں وہ یہی تو ہے کہ تم اس اکیلے معبود کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوگوں نے پلٹ کر بھی جانا ہے۔ چناچہ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جو میرا خالق ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :18 اس فقرے کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ استدلال کا شاہکار ہے ، اور دوسرے حصے میں حکمت تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں وہ کہتا ہے کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے ۔ نامعقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے ، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔ دوسرے حصے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے ، اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے ۔ اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani