24۔ 1 یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کو چھوڑ کر ایسے بےاختیار اور بےبس معبودوں کی عبادت شروع کر دوں، تو میں بھی کھلی گمراہی میں جا گروں گا۔ یا ضلال یہاں حسران کے معنی میں ہے، یعنی یہ تو نہایت واضح خسارے کا سودا ہے۔
اِنِّىْٓ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : یعنی اگر میں ایسا کروں گا تو اس وقت میں یقیناً کھلی گمراہی میں ہوں گا۔ اس بستی والوں میں عقیدے اور عمل کی جو خرابیاں تھیں وہ سب اہل مکہ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ اس بستی والوں کی مثال کے ساتھ مقصود اہل مکہ کو سمجھانا ہے۔
اِنِّىْٓ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٢٤- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
اور اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ میں ان کو پوجنا شروع کردوں تو میں تو کھلی گمراہی میں جاپڑا۔
آیت ٢٤ اِنِّیْٓ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ” تب تو میں یقینا بہت کھلی گمراہی میں پڑ جائوں گا۔ “- اگر میں معبودِ حقیقی کے ساتھ جھوٹے خدائوں کو شریک کرنے کی حماقت کرلوں جنہیں کسی چیز کا بھی اختیار نہیں تو ایسی صورت میں تو میں سیدھے راستے سے بالکل ہی بھٹک جائوں گا۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :20 یعنی یہ جانتے ہوئے بھی اگر میں ان کو معبود بناؤں ۔