وجود باری تعالیٰ کی ایک نشانی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے وجود پر ، میری زبردست قدرت پر اور مردوں کو زندگی دینے پر ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مردہ زمین جو بنجر خشک پڑی ہوئی ہوتی ہے جس میں کوئی روئیدگی ، تازگی ، ہریالی ، گھاس وغیرہ نہیں ہوتی ۔ میں اس پر آسمان سے پانی برساتا ہوں وہ مردہ زمین جی اٹھتی ہے لہلہانے لگتی ہے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اگ جاتا ہے اور قسم قسم کے پھل پھول وغیرہ نظر آنے لگتے ہیں ۔ تو فرماتا ہے کہ ہم اس مردہ زمین کو زندہ کر دیتے ہیں اور اس سے قسم قسم کے اناج پیدا کرتے ہیں بعض کو تم کھاتے ہو بعض تمہارے جانور کھاتے ہیں ۔ ہم اس میں کھجوروں کے انگوروں کے باغات وغیرہ تیار کر دیتے ہیں ۔ نہریں جاری کر دیتے ہیں جو باغوں اور کیھتوں کو سیراب ، سرسبز و شاداب کرتی رہتی ہیں ۔ یہ سب اس لئے کہ ان درختوں کے میوے دنیا کھائے ، کھیتیوں سے ، باغات سے نفع حاصل کرے ، حاجتیں پوری کرے ، یہ سب اللہ کی رحمت اور اس کی قدرت سے پیدا ہو رہے ہیں ، کسی کے بس اور اختیار میں نہیں ، تمہارے ہاتھوں کی پیدا کردہ یا حاصل کردہ چیزیں نہیں ۔ نہ تمہیں انہیں اگانے کی طاقت نہ تم میں انہیں بچانے کی قدرت ، نہ انہیں پکانے کا تمہیں اختیار ۔ صرف اللہ کے یہ کام ہیں اور اسی کی یہ مہربانی ہے اور اس کے احسان کے ساتھ ہی ساتھ یہ اس کی قدرت کے نمونے ہیں ۔ پھر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو شکر گذاری نہیں کرتے؟ اور اللہ تعالیٰ کی بے انتہا ان گنت نعمتیں اپنے پاس ہوتے ہوئے اس کا احسان نہیں مانتے؟ ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ باغات کے پھل جو کھاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کا بویا ہوا یہ پاتے ہیں ، چنانچہ ابن مسعود کی قرأت میں ( وَمَا عَمِلَتْهُ اَيْدِيْهِمْ ۭ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ 35ۙ ) 36-يس:35 ) ہے ۔ پاک اور برتر اور تمام نقصانات سے بری وہ اللہ ہے جس نے زمین کی پیداوار کو اور خود تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور مختلف قسم کی مخلوق کے جوڑے بنائے ہیں جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 49 ) 51- الذاريات:49 ) ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو ۔
33۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت اور مردوں کو زندہ کرنے پر نشانی۔
[ ٣٢] دلائل توحید۔۔ ہر قسم کی نباتات کا بہترین حصہ انسان کے لئے ہوتا ہے :۔ زمین سے جو اناج بھی پیدا ہوتا ہے اس کا بہتر حصہ تو انسانوں کی خوراک بنتا ہے اور ناقص حصہ مویشیوں اور دوسرے جانوروں کی۔ مثلاً گندم کے اناج میں سے گندم کے دانے بہتر حصہ ہے اور یہ انسانوں کی خوراک ہے۔ اور باقی کا حصہ جسے بھوسہ یا توڑی کہتے ہیں مویشیوں کی خوراک بنتا ہے۔ یہی حال سب غلوں کا ہے اور پھل دار درختوں میں سے پھل انسان کی خوراک بنتے ہیں اور پتے وغیرہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کی خوراک بنتے ہیں۔ پھر کچھ چیزیں انسانوں کے لباس کے کام آتی ہیں اور کچھ دواؤں کے اور کچھ جھاڑ جھنکاڑ ایندھن کے کام آتے ہیں اور کچھ سے انسان کئی قسم کی مصنوعات تیار کرتا ہے۔ غرضیکہ زمین کی نباتات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو بلاواسطہ یا بالواسطہ آخر انسان ہی کے کام نہ آتی ہو۔
وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ : پچھلی آیت میں تمام لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر کیے جانے کا ذکر ہے، جو قیامت کے دن ہوگا، چونکہ کفار اسے نہیں مانتے تھے، اس لیے اب اس کی کئی دلیلیں بیان فرمائیں۔ یہاں ” َاٰيَةٌ“ (نشانی) سے مراد دلیل وبرہان ہے۔ مردہ زمین سے مراد بنجر اور بےآباد زمین ہے۔- اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا : ” اٰيَةٌ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی ہماری مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت کی ایک عظیم دلیل یہ ہے کہ ہم بنجر اور قحط زدہ زمین پر بارش برساتے ہیں تو وہ بڑھتی پھولتی اور لہلہاتی ہے، پھر ہم اس سے غلہ پیدا کرتے ہیں جو ان کے کھانے کی چیزوں کا اکثر حصہ ہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور (قدرت کی نشانیاں اور عظیم الشان نعمتیں جو توحید کے دلائل بھی ہیں، ان میں سے) ایک نشانی ان لوگوں کے (استدلال کے) لئے مردہ زمین ہے (اور اس میں نشانی کی بات یہ ہے کہ) ہم نے اس کو (بارش سے) زندہ کیا اور ہم نے اس (زمین) سے (مختلف) غلے نکالے سو ان میں سے لوگ کھاتے ہیں اور (نیز) ہم نے اس (زمین میں) کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگائے اور اس میں (باغ کی آب پاشی کے لئے) چشمے (اور نالے) جاری کئے تاکہ (مثل غلے کے) لوگ باغ کے پھلوں میں سے (بھی) کھائیں اور اس (پھل اور غلہ) کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا (گو تخم ریزی اور آبپاشی بظاہر انہی کے ہاتھوں ہوئی ہو مگر بیج سے درخت اور درخت سے پھل پیدا کرنے میں ان کا کوئی دخل نہیں) خاص خدا ہی کا کام ہے سو (ایسے دلائل دیکھ کر بھی) کیا شکر نہیں کرتے (جس کا اول زینہ اللہ کے وجود اور توحید کا اقرار ہے۔ یہ استدلال ہے یعنی) وہ پاک ذات ہے جس نے تمام مقابل قسموں کو پیدا کیا، نباتات زمین کی قسم سے بھی (خواہ مقابلہ مماثل کا ہو جیسے ایک سے غلے، ایک سے پھل، خواہ مقابلہ مضادت و مخالفت کا ہو جیسے گیہوں اور جو اور شیریں پھل اور ترش پھل) اور (خود) ان آدمیوں سے بھی (جیسے مرد اور عورت) اور ان چیزوں میں بھی جن کو (عام) لوگ نہیں جانتے (مقابلہ کے عام مفہوم کے اعتبار سے مخفی چیزوں میں بھی کوئی شے مقابل سے خالی نہیں اور اسی سے حق تعالیٰ کا بےمقابل ہونا معلوم ہوگیا۔ یہاں سے آیت ومن کل شئی خلقنا زوجین کی بھی توضیح ہوگئی) اور (آگے بعض آیات آفاقیہ سماویہ اور ان کے بعض آثار سے استدلال ہے یعنی) ایک نشانی ان لوگوں کے لئے رات کا (وقت) ہے کہ (بوجہ اصل ہونے ظلمت کے گویا اصل وقت وہی تھا اور نور آفتاب عارضی تھا، گویا اس ظلمت کو دن نے چھپا لیا تھا، جیسے بکری کے گوشت کو اس کی کھال چھپا لیتی ہے پس) ہم (اسی عارض کو زائل کر کے گویا) اس (رات) پر سے دن کو اتار لیتے ہیں سو یکایک (پھر رات نمودار ہوجاتی ہے اور) وہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور (ایک نشانی) آفتاب (ہے کہ وہ) اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے (یہ عام ہے اس نقطہ کو بھی جہاں سے چل کر سالانہ دورہ کر کے پھر اسی نقطہ پر جا پہنچتا ہے اور نقطہ افقیہ کو بھی، کہ حرکت یومیہ میں وہاں پہنچ کر غروب ہوجاتا ہے) اور یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس (خدا) کا جو زبردست (یعنی قادر ہے اور) علم والا ہے (کہ علم سے ان انتظامات میں مصلحت و حکمت جانتا ہے اور قدرت سے ان انتظامات کو نافذ کرتا ہے) اور (ایک نشانی) چاند (ہے کہ اس کی چال) کے لئے منزلیں مقرر کیں (کہ ہر روز ایک منزل قطع کرتا ہے) یہاں تک کہ (اپنے آخر دورے میں پتلا ہوتا ہوتا) ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی (کہ پتلی اور خمدار ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ ضعف نور کی وجہ سے زردی میں بھی تشبیہ کا اعتبار کیا جاوے اور سورج اور چاند کی چال اور رات و دن کی آمد و رفت ایسے انداز اور انتظام سے رکھی گئی ہے کہ) نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو (اس کے ظہور نور کے وقت میں یعنی رات میں جبکہ وہ منور ہو) جا پکڑے یعنی قبل از وقت خود طلوع ہو کر اس کو اور اس کے وقت یعنی رات کو ہٹا کر دن بنا دے جیسا کہ قمر بھی اس طرح آفتاب کو اس کے ظہور نور کے وقت نہیں پکڑ سکتا کہ دن کو ہٹا کر رات کو بنا دے اور اس میں قمر کا نور ظاہر ہوجاوے) اور (اسی طرح) نہ رات دن (کے زمانہ مقررہ کے ختم ہونے) سے پہلے آسکتی ہے (جیسے دن بھی رات کے زمانہ مقررہ کے ختم ہونے سے پہلے نہیں آسکتا) اور (چاند اور سورج) دونوں ایک ایک کے دائرہ میں (حساب سے اس طرح چل رہے ہیں جیسے گویا) تیر رہے ہیں (اور حساب سے باہر نہیں ہو سکتے کہ رات دن کے حساب میں خلل واقع ہو سکے) اور (آگے آیات آفاقیہ ارضیہ میں سے ایک خاص نشانی سفر اور سواری وغیرہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں یعنی) ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، (اپنی اولاد کو اکثر لوگ تجارت کے لئے سفر میں بھیجتے تھے، پس اس تعبیر میں تین نعمتوں کی طرف اشارہ ہوگیا۔ اول بھری ہوئی کشتی کو جو بوجھل ہونے کی وجہ سے پانی میں غرق ہونے والی چیز ہے سطح آب پر رواں کرنا، دوسرے ان لوگوں کو اولاد عطا فرمانا، تیسرے رزق و سامان دینا جس سے خود گھر بیٹھے رہیں اور اولاد کو کارندہ بنا کر بھیجیں) اور (سفر خشکی کے لئے) ہم نے ان کے لئے کشتی ہی جیسی ایسی چیزیں پیدا کیں جن پر یہ لوگ سوار ہوتے ہیں (مراد اس سے اونٹ وغیرہ ہیں اور تشبیہ کشتی کے ساتھ اس خاص وصف کے اعتبار سے ہے کہ اس پر بھی سواری اور بار برداری اور قطع مسافت کی جاتی ہے اور اس تشبیہ کا حسن اس سے بڑھ گیا کہ عرب میں اونٹ کو ” سفینہ البر “ یعنی خشکی کی کشتی کہنے کا محاورہ شائع تھا۔ آگے کشتی کے ذکر کی مناسبت سے کفار کے لئے ایک وعید عذاب کی بیان فرمائی کہ) اور اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پھر نہ تو (جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں ان میں سے) ان کا کوئی فریاد رس ہو (جو غرق سے بچا لے) اور نہ یہ (بعد غرق کے موت سے) خلاصی دیئے جائیں (یعنی نہ کوئی موت سے چھڑا سکے) مگر یہ ہماری ہی مہربانی ہے اور ان کو ایک وقت معین تک (دنیاوی زندگی سے) فائدہ دینا (منظور) ہے (اس لئے مہلت دے رکھی ہے) ۔- معارف ومسائل - سورة یٰسین میں زیادہ تر مضامین آیات قدرت اور اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات بیان کر کے آخرت پر استدلال اور حشر ونشر کے عقیدے پر پختہ کرنے سے متعلق ہیں۔ مذکور الصدر آیات میں قدرت آلٰہیہ کی ایسی ہی نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو ایک طرف اس کی قدرت کاملہ کے دلائل واضحہ ہیں، دوسری طرف انسان اور عام مخلوقات پر حق تعالیٰ کے خاص انعامات و احسانات اور ان میں عجیب و غریب حکمتوں کا اثبات ہے۔
وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَۃُ ٠ ۚۖ اَحْيَيْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ يَاْكُلُوْنَ ٣٣- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔
اور نشانیوں کے طور پر ان مکہ والوں کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے کہ ہم نے اسے بارش سے زندہ کیا اور اس سے ہر قسموں کے غلے نکالے۔
آیت ٣٣ وَاٰیَۃٌ لَّـہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ” اور ان کے لیے ایک نشانی ُ مردہ زمین ہے “- اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ ” ہم نے اسے زندہ کیا اور اس سے اناج نکالا ‘ تو اس میں سے وہ کھاتے ہیں۔ “- بارش برستے ہی بظاہر مردہ اور بنجر زمین میں زندگی کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طرح طرح کا سبزہ ‘ فصلیں اور پودے اگ آتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا ذریعہ بنتے ہیں۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :26 پچھلے دو رکوعوں میں کفار مکہ کو انکار و تکذیب اور مخالفت حق کے اس رویہ پر ملامت کی گئی تھی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا ۔ اب تقریر کا رخ اس بنیادی نزاع کی طرف پھرتا ہے جو ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کشمکش کی اصل وجہ تھی ، یعنی توحید و آخرت کا عقیدہ ، جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے تھے اور کفار ماننے سے انکار کر رہے تھے ۔ اس سلسلے میں پے در پے چند دلائل دے کر لوگوں کو دعوت غور و فکر دی جا رہی ہے کہ دیکھو ، کائنات کے یہ آثار جو علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ، کیا اس حقیقت کی صاف صاف نشان دہی نہیں کرتے جسے یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :27 یعنی اس امر کی نشانی کہ توحید ہی حق ہے اور شرک سراسر بے بنیاد ہے ۔