35۔ 1 یعنی بعض جگہ چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیدا ہونے والے پھل لوگ کھائیں۔ 35۔ 2 امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلول اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی و محنت، کدو کاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے ؟ اور بعض کے نزدیک ما موصولہ ہے جو الَّذِیْ کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا، اسی طرح پھلوں کے کھانے مختلف طریقے ہیں، مثلًا انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف فروٹوں کو ملا کر چاٹ بنانا وغیرہ۔
[ ٣٣] وما عملتہ ایدیھم کے مختلف مفہوم۔۔ زرعی پیداوار میں انسان کا حصہ :۔ (وَمَا عَمِلَتْہُ أیْدِیْھِمْ ) میں اگر ما کو نافیہ قرار دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا۔ نباتات کو پیدا کرنا انسان کا کام نہیں۔ نباتات اور پھلوں کی پیدائش میں جس قدر عناصر سرگرم عمل ہیں وہ سب کے سب اللہ کے حکم کے تحت اپنے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں تب جاکر نباتات وجود میں آتی، بڑھتی، پھلتی پھولتی اور انسانوں اور دوسرے جانداروں کا رزق بنتی ہے۔ اور مَا کو موصولہ قرار دیا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگرچہ نباتات کو وجود میں لانے والے سارے عناصر اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ تاہم اس میں کچھ نہ کچھ کام انسانوں کا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً انسان بیج ڈالتا ہے، ہل چلاتا ہے، زمین کی سیرابی اور فصل کی نگہداشت کرتا ہے، لیکن اگر وہ غور کرے تو انسان کی یہ استعداد بھی اللہ ہی کا عطیہ ہے۔ اور انسان کے اتنا کام کرنے کے بعد بھی نباتات تب ہی اگ سکتی ہے جب پیداوار کے بڑے بڑے وسائل انسان کی اس حقیر سی کوشش کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہذا اللہ کا شکر بہرحال واجب ہوا۔- خ تمام خوردنی اشیاء کی اصل زرعی پیداوار ہے :۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہی اصل اشیاء ہیں پھر انسان ان پر محنت کرکے بعض دوسری اشیائے ضرورت تیار کرلیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے گندم، گنا، چنے اور دودھ پیدا کیا ہے۔ اب انسان ان سے کچھ چیزیں انفرادی طور پر حاصل کرتا ہے۔ مثلاً گندم سے روٹی، اور اس کی قسمیں اور گنے سے گڑ، شکر اور چینی اور دودھ سے دہی، مکھن، لسی، بالائی اور گھی وغیرہ پھر انہیں چیزوں کے امتزاج سے ہزاروں چیزیں بناتا چلا جاتا ہے۔ اور کئی طرح کے سالن، اچار، چٹنیاں، مربے، مٹھائیاں وغیرہ تیار کرلیتا ہے۔ کئی چیزوں سے اپنی پوشاک کی ضروریات بناتا ہے یہ استعداد بھی انسان کو اللہ ہی نے بخشی ہے۔ لہذا ہر حال میں اللہ کا شکر واجب ہوا۔
لِيَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ ۙ وَمَا عَمِلَتْهُ اَيْدِيْهِمْ : یعنی یہ غلے، باغات، چشمے اور پھل ان کی کسی کوشش اور محنت سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ ہم نے پیدا کیا ہے، تو کیا وہ شکر نہیں کرتے کہ ہماری ہی عبادت کریں، کسی اور کو اس میں شریک نہ کریں۔
پہلی آیت میں زمین کی ایک مثال پیش فرمائی ہے جو ہر وقت ہر انسان کے سامنے ہے کہ خشک زمین پر آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین میں ایک قسم کی زندگی پیدا ہوتی ہے جس کے آثار اس میں پیدا ہونے والی نباتات اور اشجار اور ان کے ثمرات سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور ان درختوں کے بڑھانے اور باقی رکھنے کے لئے زیر زمین اور سطح زمین پر چشموں کا جاری کرنا ذکر فرمایا : لیاکلوا من ثمرہ، یعنی ہواؤں بادلوں اور زمین کی ساری قوتوں کو کام میں لگانے کا منشاء یہ ہے کہ لوگ ان کے پھل کھائیں۔ یہ سب چیزیں تو آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں، جو ہر انسان دیکھنا جانتا ہے آگے انسان کو اس چیز پر متنبہ کیا گیا جس کے لئے یہ سارا کارخانہ قائم کیا گیا۔ فرمایا :- نباتات کی پیداوار میں انسان کے عمل کا دخل نہیں :- وما عملتہ ایدیہم، جمہور مفسرین نے اس میں حرف ما کو نفی کے لئے قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے کہ نہیں بنایا ان پھلوں کو ان لوگوں کے ہاتھوں نے۔ اس جملے نے غافل انسان کو اس پر متنبہ کیا ہے کہ ذرا اپنے کام اور محنت میں غور کر کہ تیرا کام اس باغ و بہار میں اس کے سوا کیا ہے کہ تو نے زمین میں بیج ڈال دیا۔ اس پر پانی ڈال دیا، زمین کو نرم کردیا کہ نازک کونپل نکلنے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو، مگر اس بیج میں سے درخت اگانا، درخت پر پتے اور شاخیں نکالنا پھر اس پر طرح طرح کے پھل پیدا کرنا ان سب چیزوں میں تیرا کیا دخل ہے۔- یہ تو خالص قادر مطلق حکیم ودانا ہی کا فعل ہوسکتا ہے۔ اس لئے تیرا فرض ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے خالق ومالک کو فراموش نہ کرے۔ اسی کی نظیر سورة واقعہ کی آیت ہے : (آیت) افرءیتم ما تحرثون ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون، یعنی دیکھو تو جو چیز تم بوتے ہو اس کو نشو و نما دے کر درخت تم نے بنایا ہے یا ہم نے ؟ خلاصہ یہ ہوا کہ اگرچہ ان پھلوں کے بنانے میں انسان کا کوئی دخل نہیں، مگر ہم نے اپنے فضل سے ان کو پیدا بھی کیا اور انسان کو ان کا مالک بھی بنادیا اور اس کو اس کے کھانے اور فائدہ اٹھانے کا سلیقہ بھی سکھا دیا۔- انسانی غذا اور حیوانات کی غذا میں خاص فرق :- اور ابن جریر وغیرہ بعض مفسرین نے وما عملتہ میں لفظ ما کو نفی کے لئے نہیں بلکہ اسم موصول بمعنے الذی قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے کہ یہ سب چیزیں اس لئے پیدا کی ہیں کہ لوگ ان کے پھل کھاویں، اور ان چیزوں کو بھی کھاویں جو ان نباتات اور پھلوں سے خود انسان اپنے ہاتھوں کے کسب و عمل سے تیار کرتا ہے، مثلاً پھلوں سے طرح طرح کے حلوے، اچار، چٹنی تیار کرنا اور بعض پھلوں سے تیل وغیرہ نکالنا جو انسانی کسب و عمل کا نتیجہ ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ پھل جو قدرت نے بنائے ہیں بغیر کسی کسب و عمل اور انسانی تصرف کے بھی کھانے کے قابل بنائے گئے ہیں، اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ سلیقہ بھی دیا ہے کہ ایک ایک پھل سے طرح طرح کی خوش ذائقہ اور مفید چیزیں تیار کرلے۔- اس صورت میں پھلوں کا پیدا کرنا اور انسان کو اس کا سلیقہ دینا کہ ایک پھل کو دوسری چیزوں سے مرکب کر کے طرح طرح کی اشیاء خوردنی خوش ذائقہ اور مفید تیار کرلے، یہ دوسری نعمت ہے۔ ابن کثیر نے ابن جریر کی اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس تفسیر کی تائید حضرت عبداللہ ابن مسعود کی قرات سے بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کی قرات میں لفظ ما کے بجائے مما آیا ہے یعنی (آیت) مما عملتہ ایدیہم۔- تفصیل اس کی یہ ہے کہ دنیا کے تمام حیوانات بھی نباتات اور پھل کھاتے ہیں، کچھ جانور گوشت کھاتے ہیں کچھ مٹی کھاتے ہیں، لیکن ان سب جانوروں کی خوراک مفردات ہی سے ہے۔ گھاس کھانے والا خالص گھاس، گوشت کھانے والا خالص گوشت کھاتا ہے، ان چیزوں کو دوسری چیزوں سے مرکب کر کے طرح طرح کے کھانے تیار کرنا، نمک، مرچ، شکر، ترشی وغیرہ سے مرکب ہو کر ایک کھانے کی دس قسمیں بن جاتی ہیں۔ یہ مرکب خوراک صرف انسان ہی کی ہے اسی کو مختلف چیزوں سے ایک مرکب غذا تیار کرنے کا سلیقہ دیا گیا ہے۔ یہ گوشت کے ساتھ نمک، مرچ، مصالحے اور پھلوں کے ساتھ شکر وغیرہ کا امتزاج انسان کی صنعت کاری ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھا دی ہے۔ قدرت کی ان عظیم الشان نعمتوں اور ان میں قدرت کی صنعت کاری کی بےمثال آیتوں کو ذکر فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا : افلا یشکرون، کیا یہ عاقل لوگ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد شکر گزار نہیں ہوتے ؟ آگے اس زمینی پیداوار اور آب وہوا کے ذکر کے بعد انسان اور حیوانات کو بھی شامل کر کے قدرت مطلقہ کی ایک اور نشانی سے آگاہ کیا جاتا ہے،
لِيَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ ٠ ۙ وَمَا عَمِلَتْہُ اَيْدِيْہِمْ ٠ ۭ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ ٣٥- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
تاکہ لوگ کھجوروں کے پھل کھائیں اور ان پھلوں کو ان کے ہاتھوں نے نہیں اگایا یا یہ کہ ان درختوں کو ان کے ہاتھوں نے نہیں لگایا پھر یہ لوگ اس ذات پر جس نے ان کے ساتھ احسانات کیے ایمان نہیں لاتے۔
آیت ٣٥ لِیَاْکُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ لا وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْط اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ ” تاکہ یہ ان کے پھلوں میں سے کھائیں ‘ اور یہ سب ان کے ہاتھوں نے تو نہیں بنایا ‘ تو کیا تم لوگ شکر نہیں کرتے ؟ “- یہ کھجوریں ‘ انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل جو یہ لوگ کھاتے ہیں ‘ یہ ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے تو نہیں ہیں۔ یہ مضمون سورة الواقعہ کے دوسرے رکوع میں زیادہ زور دار اور موثر انداز میں بیان ہوا ہے۔ وہاں تکرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مختلف تخلیقات کا ذکر کر کے ہر بار یہ سوال کیا گیا ہے کہ ذرا بتائو یہ چیز تم نے بنائی ہے یا اس کو بنانے والے ہم ہیں ؟ علامہ اقبالؔ نے اس مضمون کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎- پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟- کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟- کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟- خاک یہ کس کی ہے ؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :28 اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : تاکہ یہ کھائیں اس کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں ۔ یعنی مصنوعی غذائیں جو قدرتی پیداوار سے یہ لوگ خود تیار کرتے ہیں ، مثلاً روٹی ، سالن ، مُربّے ، اچار ، چٹنیاں اور بے شمار دوسری چیزیں ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :29 ان مختصر فقروں میں زمین کی روئیدگی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے ۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرش خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اس سرسبز باغوں کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے ۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے ، جب مادوں سے یہ مرکب ہے ان کے اندر بجائے خود کسی نشو و نما کی طاقت نہیں ہے ۔ یہ سب مادے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمیں کے اندر سے بناتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا ؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی: اولاً: زمین کے مخصوص خطوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں ۔ ثانیاً: زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہوجائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کرسکیں ۔ ثالثاً: اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفات سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے ، جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے ، اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشو و نما کے لیے درکار ہیں ۔ رابعاً: سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں ۔ یہ چار بڑے بڑے اسباب ( جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں ) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا ۔ پھر یہ ساز گار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین ، پانی ، ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے ۔ مزید برآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو ۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد و حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ ان بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا ، دوا ، لباس اور ان گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جا نے والا تھا ۔ اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا ۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین ، پانی ، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ ، اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں ۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں ۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ، ہوا ، پانی ، سورج ، نباتات ، حیوانات اور نوع انسانی ، سب کا خالق و رب ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع ، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا ۔ توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سر و سامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے ، اس کے شکر گزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں ؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ؟
12: توجہ اس طرف دلائی جا رہی ہے کہ انسان جب کھیت یا باغ لگاتا ہے تو اس کی ساری دوڑ دھوپ کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ وہ زمین کو ہموار کر کے اس میں بیج ڈال دے۔ لیکن اس بیج کی پرورش کرکے اسے زمین کا پیٹ پھاڑ کر کونپل کی شکل میں نکالنا اور پھر اسے پروان چڑھا کر درخت بنان اور اس میں پھل پیدا کرنا انسان کا کام نہیں ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی شان ربوبیت ہے جو اس ساری پیداوار کی تخلیق کرتی ہے۔