گردش شمس و قمر ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک اور نشانی بیان ہو رہی ہے اور وہ دن رات ہیں جو اجالے اور اندھیرے والے ہیں اور برابر ایک دوسرے کے پیچھے جا رہے ہیں جیسے فرمایا ( يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا 54 ) 7- الاعراف:54 ) رات سے دن کو چھپاتا ہے اور رات دن کو جلدی جلدی ڈھونڈتی آتی ہے ۔ یہاں بھی فرمایا رات میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ، دن تو ختم ہوا اور رات آ گئی اور ہر طرف سے اندھیرا چھا گیا ۔ حدیث میں ہے جب ادھر سے رات آ جائے اور دن ادھر سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار افطار کر لے ۔ ظاہر آیت تو یہی ہے لیکن حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب مثل آیت ( يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۭ وَهُوَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Č ) 57- الحديد:6 ) کے ہے یعنی اللہ تعایٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے ۔ حضرت امام ابن جریر اس قول کو ضعیف بتاتے ہیں اور فرماتے اس آیت میں جو لفظ ایلاج ہے اس کے معنی ایک کی کمی کر کے دوسری میں زیادتی کرنے کے ہیں اور یہ مراد اس آیت میں نہیں ، امام صاحب کا یہ قول حق ہے ۔ مستقر سے مراد یا تو مستقر مکانی یعنی جائے قرار ہے اور وہ عرش تلے کی وہ سمت ہے پس ایک سورج ہی نہیں بلکہ کل مخلوق عرش کے نیچے ہی ہے اس لئے کہ عرش ساری مخلوق کے اوپر ہے اور سب کو احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہ کرہ نہیں ہے جیسے کہ ہئیت داں کہتے ہیں ۔ بلکہ وہ مثل قبے کے ہے جس کے پائے ہیں اور جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں انسانوں کے سروں کے اوپر اوپر والے عالم میں ہے ، پس جبکہ سورج فلکی قبے میں ٹھیک ظہر کے وقت ہوتا ہے اس وقت وہ عرش سے بہت قریب ہوتا ہے پھر جب وہ گھوم کر چوتھے فلک میں اسی مقام کے بالمقابل آ جاتا ہے یہ آدھی رات کا وقت ہوتا ہے جبکہ وہ عرش سے بہت دور ہو جاتا ہے پس وہ سجدہ کرتا ہے اور طلوع کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا جانتے ہو یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے ، آپ نے فرمایا وہ عرش تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر آپ نے آیت والشمس الخ ، تلاوت کی اور حدیث میں ہے کہ آپ سے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے ، مسند احمد میں اس سے پہلے کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے واپس لوٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے ۔ گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ جاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا تو وہ اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے نکلتا ہے اور یہی اس کا مستقر ہے ، پھر آپ نے اس آیت کے ابتدائی فقرے کو پڑھا ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے لیکن اجازت نہ دی جائے بلکہ کہاں جائے جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا پس وہ مغرب سے ہی طلوع ہوگا یہی معنی ہیں اس آیت کے ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج طلوع ہوتا ہے اسے انسانوں کے گناہ لوٹا دیتے ہیں وہ غروب ہو کر سجدے میں پڑتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے ، ایک دن یہ غروب ہو کر بہ عاجزی سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا لیکن اجازت نہ دی جائے گی وہ کہے گا کہ راہ دور ہے اور اجازت ملی نہیں تو پہنچ نہیں سکوں گا پھر کچھ دیر روک رکھنے کے بعد اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے غروب ہوا تھا وہیں سے طلوع ہو جا ۔ یہی قیامت کا دن ہو گا جس دن ایمان لانا محض بےسود ہو گا اور نیکیاں کرنا بھی ان کے لئے جو اس سے پہلے ایمان دار اور نیکو کار نہ تھے بیکار ہو گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقر سے مراد اس کے چلنے کی انتہا ہے پوری بلندی جو گرمیوں میں ہوتی ہے اور پوری پستی جو جاڑوں میں ہوتی ہے ۔ پس یہ ایک قول ہوا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے اس لفظ مستقر سے مراد اس کی چال کا خاتمہ ہے قیامت کے دن اس کی حرکت باطل ہو جائے گی یہ بےنور ہو جائے گا اور یہ عالم کل کا کل ختم ہو جائے گا ۔ یہ مستقر زمانی ہے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ اپنے مستقر پر چلتا ہے یعنی اپنے وقت اور اپنی میعاد پر جس سے تجاوز کر نہیں سکتا جو اس کے راستے جاڑوں کے اور گرمیوں کے مقرر ہیں انہی راستوں سے آتا جاتا ہے ، ابن مسعود اور ابن عباسی رضی اللہ عنہم کی قرأت لامستقرلھا ہے یعنی اس کے لئے سکون و قرار نہیں بلکہ دن رات بحکم اللہ چلتا رہتا ہے نہ رکے نہ تھکے جیسے فرمایا ( وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ 33ۚ ) 14- ابراھیم:33 ) یعنی اس نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کیا ہے جو نہ تھکیں نہ ٹھہریں قیامت تک چلتے پھرتے ہی رہیں گے ۔ یہ اندازہ اس اللہ کا ہے جو غالب ہیں جس کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا جس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا ، وہ علیم ہے ، ہر حرکت و سکون کو جانتا ہے ۔ اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے جیسے فرمایا اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے جیسے فرمایا ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96 ) 6- الانعام:96 ) صبح کا نکالنے والا جس نے رات کو راحت کا وقت بنایا اور سورج چاند کو حساب سے مقرر کیا ، یہ ہے اندازہ غالب ذی علم کا ۔ حم سجدہ کی آیت کو بھی اسی طرح ختم کیا ۔ پھر فرماتا ہے چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں وہ ایک جداگانہ چال چلتا ہے جس سے مہینے معلوم ہو جائیں جیسے سورج کی چال سے رات دن معلوم ہو جاتے ہیں ، جیسے فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو جواب دے کہ وقت اور حج کے موسم کو بتانے کے لئے ہے اور آیت میں فرمایا اس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور دیا ہے اور اس کی منزلیں ٹھہرا دی ہیں تاکہ تم سالوں کو اور حساب کو معلوم کر لو ۔ ایک آیت میں ہے ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنا دیا ہے ، رات کی نشانی کو ہم نے دھندلا کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن کیا ہے تاکہ تم اس میں اپنے رب کی نازل کردہ روزی کو تلاش کر سکو اور برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو ہم نے ہر چیز کو خوب تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ پس سورج کی چمک دمک اس کے ساتھ مخصوص ہے اور چاند کی روشنی اسی میں ہے ۔ اس کی اور اس کی چال بھی مختلف ہے ۔ سورج ہر دن طلوع و غروب ہوتا ہے اسی روشنی کے ساتھ ہوتا ہے ہاں اس کے طلوع و غروب کی جگہیں جاڑے میں اور گرمی میں الگ الگ ہوتی ہیں ، اسی سبب سے دن رات کی طولانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے سورج دن کا ستارہ ہے اور چاند رات کا ستارہ ہے اس کی منزلیں مقرر ہیں ۔ مہینے کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے بہت چھوٹا سا ہوتا ہے روشنی کم ہوتی ہے ، دوسری شب روشنی اس سے بڑھ جاتی ہے اور منزل بھی ترقی کرتی جاتی ہے ، پھر جوں جوں بلند ہوتا جاتا ہے روشنی بڑھتی جاتی ہے ، گو اس کی نورانیت سورج سے لی ہوئی ہوتی ہے آخر چودہویں رات کو چاند کامل ہو جاتا ہے اور اسی کی چاندنی بھی کمال کی ہو جاتی ہے ۔ پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ بتدریج گھلتا ہوا مثل کھجور کے خوشے کی ٹہنی کے ہو جاتا ہے جس پر تر کھجوریں لٹکتی ہوں اور وہ خشک ہو کر بل کھا گئی ہو ۔ پھر اسے نئے سرے سے اللہ تعالیٰ دوسرے مہینے کی ابتداء میں ظاہر کرتا ہے ، عرب میں چاند کی روشنی کے اعتبار سے مہینے کی راتوں کے نام رکھ لئے گئے ہیں ، مثلاً پہلی تین راتوں کا نام غرر ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام نفل ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام تسع ہے ، اس لئے کہ ان کی آخری رات نویں ہوتی ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام عشر ہے ، اس لئے کہ اس کا شروع دسویں سے ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام بیض ہے ، اس لئے کہ ان راتوں میں چاندنی کی روشنی آخر تک رہا کرتی ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام ان کے ہاں ورع ہے ، یہ لفظ ورعاء کی جمع ہے ، ان کا یہ نام اس لئے رکھا ہے کہ سولہویں کو چاند ذرا دیر سے طلوع ہوتا ہے تو تھوڑی دیر تک اندھیرا یعنی سیاہی رہتی ہے اور عرب میں اس بکری کو جس کا سر سیاہ ہو شاۃ درعاء کہتے ہیں ، اس کے بعد کی تین راتوں کو ظلم کہتے ہیں ، پھر تین کو ضاوس پھرتین کو دراری پھر تین کو محاق اس لئے کہ اس میں چاند ختم ہو جاتا ہے اور مہینہ بھی ختم ہو جاتا ہے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے تسع اور عشر کو قبول نہیں کرتے ، ملاحظہ ہو کتاب غریب المصنف ۔ سورج چاند کی حدیں اس نے مقرر کی ہیں ناممکن ہے کہ کوئی اپنی حد سے ادھر ادھر ہو جائے یا آگے پیچھے ہو جائے ، اس کی باری کے وقت وہ گم ہے اس کی باری کے وقت یہ خاموش ہے ۔ حسن کہتے ہیں یہ چاند رات کو ہے ۔ ابن مبارک کا قول ہے ہوا کے پر ہیں اور چاند پانی کے غلاف تلے جگہ کرتا ہے ، ابو صالح فرماتے ہیں اس کی روشنی اس کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتی ، عکرمہ فرماتے ہیں رات کو سورج طلوع نہیں ہو سکتا ۔ نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے ، یعنی رات کے بعد ہی رات نہیں آ سکتی بلکہ درمیان میں دن آ جائے گا ، پس سورج کی سلطنت دن کو ہے اور چاند کی بادشاہت رات کو ہے ، رات ادھر سے جاتی ہے ادھر سے دن آتا ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں ، لیکن نہ تصادم کا ڈر ہے نہ بےنظمی کا خطرہ ہے ، نہ یہ کہ دن ہی دن چلا جائے رات نہ آئے نہ اس کے خلاف ، ایک جاتا ہے دوسرا آتا ہے ، ہر ایک اپنے اپنے وقت پر غائب و حاضر ہوتا رہتا ہے ، سب کے سب یعنی سورج چاند دن رات فلک آسمان میں تیر رہے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں ۔ زید بن عاصم کا قول ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان فلک میں یہ سب آ جا رہے ہیں ، لیکن یہ بہت غریب بلکہ منکر قول ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں فلک مثل چرخے کے تکلے کے ہے بعض کہتے ہیں مثل چکی کے لوہے کے پاٹ کے ۔
37۔ 1 یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے۔ اَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے اَصْبَحَ اور اَمْسَیٰ اور اَظْھَرَ کے معنی ہیں، صبح شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔
[ ٣٥] رات کا ذکر دن سے پہلے اور فطری تقویم :۔ قرآن کریم نے جب دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ذکر فرمایا۔ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ایک یہ کہ فطری تقویم یہ ہے کہ دن رات کی (یعنی ایک دن یا ٢٤ گھنٹے) کی مدت کا شمار ایک دن سورج غروب ہونے سے لے کر دوسرے دن سورج غروب ہونے تک ہے۔ اور یہ مدت ہمیشہ ٢٤ گھنٹے ہی رہتی ہے خواہ گرمیوں کا موسم ہو یا سردیوں کا اور اس میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑتا اور دوسرے یہ کہ اصل چیز رات اور تاریکی ہی تھی یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے سورج پیدا فرما کر روشنی کا بھی انتظام فرما دیا۔ اور اس میں تمہارے لئے اور بھی بیشمار فائدے رکھ دیئے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ انتظام نہ فرماتے تو اس زمین پر نہ کوئی نباتات اگ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی جاندار زندہ رہ سکتا تھا۔
وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُ : ” نَسْلَخُ “ ” سَلَخَ یَسْلَخُ “ (ف، ن) بکری کی کھال اتارنا۔ قیامت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل میں سے مکانی دلیل مردہ زمین بیان فرمائی ہے۔ اب زمانی دلیلوں کا ذکر ہوتا ہے کہ ان کے لیے ایک اور دلیل قیامت کی اور اس بات کی بھی کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے، رات ہے، جس پر دن کے نور کا پردہ چڑھا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع کے صیغے کے ساتھ کرتے ہوئے فرمایا : (نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ ) ہم اس رات سے دن کو کھینچ اتارتے ہیں تو اچانک وہ اندھیرے میں رہ جانے والے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ جو اندھیرے کے بعد روشنی اور روشنی کے بعد اندھیرا لانے والا ہے، اس کے لیے تمہیں موت کے بعد زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟
وآیة لہم الیل نسلخ منہ النہار، زمینی مخلوقات میں قدرت خداوندی کی نشانیاں بیان فرمانے کے بعد آسمانی اور آفاقی مخلوقات کا ذکر ہے۔ سلخ کے لفظی معنی کھال اتارنے کے ہیں، کسی جانور کے اوپر سے کھال یا دوسری چیزوں پر سے غلاف اتار دیا جائے تو اندر کی چیز ظاہر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں اشارہ فرمایا ہے کہ اس جہان میں اصل تو ظلمت اور اندھیرا ہے، روشنی عارضی ہے جو سیارات اور ستاروں کے ذریعہ زمین پر چھا جاتی ہے۔ تقدیری نظام میں مقررہ وقت پر یہ روشنی جو دنیا کی اندھیری پر چھائی ہوئی ہوتی ہے اس کو اوپر سے ہٹا لیا جاتا ہے تو ظلمت واندھیری رہ جاتی ہے، اسی کو عرف میں رات کہا جاتا ہے۔
وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ ٠ ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ ٣٧ۙ- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - سلخ - السَّلْخُ : نزع جلد الحیوان، يقال : سَلَخْتُهُ فَانْسَلَخَ ، وعنه استعیر : سَلَخْتُ درعه : نزعتها، وسَلَخَ الشهر وانْسَلَخَ ، قال تعالی: فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة 5] ، وقال تعالی:- نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس 37] ، أي : ننزع، وأسود سَالِخٌ ، سلخ جلده، أي : نزعه، ونخلة مِسْلَاخٌ: ينتثر بسرها الأخضر .- ( س ل خ ) السلخ اس کے اصل معنی کھال کھینچنے کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ سلختہ فانسلخ میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھچ گئی پھر اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گزر جا نے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے سلخت درعہ میں نے اس کی زرہ اتار لی ۔ سلخ الشھر و انسلخ مہینہ گزر گیا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة 5] جب غربت کے مہینے گزر جائیں ۔ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس 37] کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ
اور ان مکہ والوں کے استدلال کے لیے ایک نشانی اندھیری رات ہے اس رات پر ہم دن کو اتار لیتے ہیں تو وہ لوگ رات کی تاریکی میں رہ جاتے ہیں۔
آیت ٣٧ وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیْلُج نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ ” اور ان کے لیے ایک نشانی رات بھی ہے ‘ ہم کھینچ لیتے ہیں اس سے دن کو ‘ تو اس وقت یہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ “- یہ ایسے ہے جیسے ایک سیاہ چادر بچھی ہو ‘ جسے ایک چمکدار چادر نے ڈھانپ رکھا ہو۔ پھر اوپر والی سفید اور چمکدار چادر کھینچ لی جائے اور نیچے سے سیاہ چادر نمودار ہوجائے۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :32 رات اور دن کی آمد و رفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آرہے ہیں ، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا ۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے ، اور دن کے جانے اور رات کے آنے میں کیا حکمتیں کار فرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک رب قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے ۔ دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے ۔ دن کے ہٹنے اور رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو ۔ پھر اس رات اور دن کی آمد و رفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کسی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالارادہ قائم کیا ہے ۔ زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود ، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے ، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں ۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا ، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا ، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا ، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی ، تو ان تمام صورتوں میں اس کُرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی ، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی ۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں ۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید از عقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا ، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ پیدا ہو گیا ہے ، کس قدر عقل سے بعید ہونا چاہئے ۔ کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پر جو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیہات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پا یا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی ، کافی یا ناکافی ، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔
14: یہاں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ کائنات میں اصل اندھیرا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دور کرنے کے لیے سورج کی روشنی پیدا فرمائی ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو وہ اپنی روشنی کا ایک غلاف کائنات کے کچھ حصے پر چڑھا دیتا ہے جس سے روشنی ہوجاتی ہے۔ پھر جب سورج غروب ہوتا ہے تو روشنی کا یہ چھلکا اتر جاتا ہے، اور اندھیرا واپس آجاتا ہے۔