Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قیامت کے بعد کوئی مہلت نہ ملے گی ۔ کافر چونکہ قیامت کے آنے کے قائل نہ تھے اس لئے وہ نبیوں سے اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر قیامت کو لاتے کیوں نہیں؟ اچھا یہ تو بتاؤ کہ کب آئے گی؟ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے ۔ کہ اس کے آنے کے لئے ہمیں کچھ سامان نہیں کرنے پڑیں گے ، صرف ایک مرتبہ صور پھونک دیا جائے گا ۔ دنیا کے لوگ روزمرہ کی طرح اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہوں گے جب اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہیں لوگ ادھر ادھر گرنے شروع ہو جائیں گے اس آسمانی تیز و تند آواز سے سب کے سب محشر میں اللہ کے سامنے جمع کر دیئے جائیں گے اس چیخ کے بعد کسی کو اتنی بھی مہلت نہیں ملنی کہ کسی سے کچھ کہہ سن سکے ، کوئی وصیت اور نصیحت کر سکے اور نہ ہی انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی طاقت رہے گی ۔ اس آیت کے متعلق بہت سے آثار و احادیث ہیں جنہیں ہم دوسری جگہ وارد کر چکے ہیں ۔ اس پہلے نفخہ کے بعد دوسرا نفخہ ہو گا جس سے سب کے سب مر جائیں گے ، کل جہان فنا ہو جائے گا ، بجز اس ہمیشگی والے اللہ عزوجل کے جسے فنا نہیں ۔ اس کے بعد پھر جی اٹھنے کا نفخہ ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ : کفار چونکہ قیامت کو نہیں مانتے تھے، اس لیے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر تم قیامت لاتے کیوں نہیں ؟ اچھا، یہ بتاؤ کہ وہ کب آئے گی ؟ اس سے ان کا مقصود تاریخ معلوم ہونے پر اس کی تیاری نہ تھا، بلکہ محض جھٹلانا اور مذاق اڑانا تھا کہ جب وہ فوراً قیامت نہ لاسکیں گے تو ہم کہیں گے قیامت وغیرہ کچھ نہیں۔- اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ : یہ الفاظ ابھارنے کے لیے اور جھوٹا ثابت کرنے میں زور پیدا کرنے کے لیے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور یہ (کافر) لوگ (پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین سے بطور انکار) کہتے ہیں کہ یہ وعدہ (قیامت کا جو اوپر آیت میں مذکور ہے اور ویسے بھی اکثر اس کی خبر دیا کرتے ہو وہ) کب ہوگا اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (تو بتلاؤ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ جو بار بار پوچھ رہے ہیں تو گویا) یہ لوگ بس ایک آواز سخت (یعنی نفخہ اولیٰ ) کے منتظر ہیں جو ان کو (یعنی مطلق کفار کو) آپکڑے گی اور وہ سب (اس وقت) باہم (عام معمول کے مطابق اپنے معاملات میں) لڑ جھگڑ رہے ہوں گے سو (اس آواز کے ساتھ معاً اس طرح فنا ہوجائیں گے) نہ تو وصیت کرنے کی فرصت ہوگی، اور نہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاسکیں گے (بلکہ جو جس حال میں ہوگا مر کر رہ جائے گا) اور (پھر دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو وہ سب یکایک قبروں سے (نکل نکل کر) اپنے رب کی طرف (یعنی جہاں حساب ہوگا) جلدی جلدی چلنے لگیں گے (اور وہاں کی ہول وہیبت دیکھ کر) کہیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ہم کو ہماری قبروں سے کس نے اٹھا دیا (کہ یہاں کی نسبت سے تو وہاں ہی راحت میں تھے، فرشتے جواب دیں گے کہ) یہ وہی (قیامت) ہے جس کا رحمان نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبر سچ کہتے تھے (مگر تم نے نہ مانا تھا، آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) وہ (نفخہ ثانیہ صور کا) بس ایک زور کی آواز ہوگی (جیسے نفخہ اولیٰ بھی صحیحہ واحدہ تھا، کما قال تعالیٰ ما ینظرون الا صیحة واحدة، اسی طرح یہ بھی ایک آواز ہوگی) جس سے یکایک سب جمع ہو کر ہمارے پاس حاضر کردیئے جائیں گے (پہلے موقف کی طرف چلنا مذکور تھا اور یہاں پہنچ جانا اور یہ چلنا اور پہنچنا جبراً و قہراً ہوگا۔ قرآن کریم کے الفاظ محضرون اور (آیت) جاءت کل نفس معہا سائق۔ سے معلوم ہوتا ہے) پھر اس دن کسی شخص پر ذرا ظلم نہ ہوگا اور تم کو بس انہی کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم (دنیا میں کفر وغیرہ) کیا کرتے تھے (یہ تو اہل جہنم کا حال ہوا اور) اہل جنت (کا حال یہ ہے کہ وہ) بیشک اس روز اپنے مشغلوں میں خوش دل ہوں گے وہ اور ان کی بیبیاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے (اور) ان کے لئے وہاں (ہر طرح کے) میوے ہوں گے اور جو کچھ مانگیں گے ان کو ملے گا (اور) ان کو پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا (یعنی حق تعالیٰ فرمائیں گے السلام علیکم یا اھل الجنة، رواہ ابن ماجہ) اور (آگے پھر تتمہ ہے قصہ اصحاب جہنم کا کہ ان کو موقف میں حکم ہوگا کہ) اے (کفر کے ارتکاب کرنیوالے) مجرمو آج (اہل ایمان سے) الگ ہوجاؤ (کیونکہ ان کو جنت میں بھیجنا ہے اور تم کو دوزخ میں اور اس وقت ان سے ملامت کے طور پر یہ فرمایا جائے گا) کہ اے اولاد آدم (اور اسی طرح جنات سے بھی خطاب ہوگا، دل علیہ قولہ تعالیٰ یمعشر الجن والانس الخ) کیا میں نے تم کو تاکید نہیں کردی تھی کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا صریح دشمن ہے اور یہ کہ میری (ہی) عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے (مراد عبادت سے اطاعت مطلقہ ہے وہذا کقولہ تعالیٰ (آیت) لا تتبعوا خطوات الشیطن ولا یفتننکم الشیطن) اور (نیز تم کو شیطان کی نسبت یہ بات بھی معلوم کرائی تھی کہ) وہ تم میں (یعنی تمہاری بنی نوع میں) ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کرچکا (ہے جن کی گمراہی کا وبال بھی پچھلی کافر قوموں کے واقعات عذاب کے سلسلے میں بتلا دیا گیا تھا) سو کیا تم (اتنا) نہیں سمجھتے تھے (کہ اگر ہم اس کے گمراہ کرنے سے گمراہ ہوجاویں گے تو ہم بھی اس طرح مستحق عذاب ہوں گے تو (اب) یہ جہنم ہے جس کا تم سے (کفر کی تقدیر پر) وعدہ کیا جایا کرتا تھا۔ آج اپنے کفر کے بدلے اس میں داخل ہو۔ آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے (جس سے یہ جھوٹے عذر پیش نہ کرسکیں، جیسا شروع شروع میں کہیں گے (آیت) واللہ ربنا ماکنا مشرکین) اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ یہ لوگ کیا کرتے تھے، (یہ عذاب تو آخرت میں ہوگا) اور اگر ہم چاہتے تو (دنیا ہی میں ان کے کفر کی سزا میں) ان کی آنکھوں کو ملیا میٹ کردیتے (خواہ آنکھ کی بینائی کو یا خود آنکھ کے عضو ہی کو) پھر یہ راستے کی طرف (چلنے کے لئے) دوڑتے پھرتے سو ان کو کہاں نظر آتا (جیسا قوم لوط پر ایسا ہی عذاب آیا تھا، کما قال تعالیٰ فطمسنا) اور (اس سے بڑھ کر) اگر ہم چاہتے تو (ان کی سزائے کفر میں) ان کی صورتیں بدل ڈالتے (جیسا پہلے بعضے لوگ بندر اور خنزیر ہوگئے) اس حالت سے کہ یہ جہاں ہیں وہیں رہ جاتے (یعنی مسخ کے ساتھ یہ بھی ہوتا کہ ان کو جانور بنا دیتے اور جانور بھی اپاہج جو اپنی جگہ سے نہ ہل سکیں) جس سے یہ لوگ نہ آگے کو چل سکتے ہیں اور نہ پیچھے کو لوٹ سکتے ہیں اور (اس کا کچھ تعجب نہ کرنا چاہئے کہ آنکھوں کا طمس اور صورتوں کا مسخ کیسے ہوجاتا ؟ دیکھو اس کی ایک نظیر پر ہماری قدرت شاہد ہے کہ) ہم جس کی زیادہ عمر کردیتے ہیں (یعنی بہت بوڑھا کردیتے ہیں) تو اس کو طبعی حالت میں الٹا کردیتے ہیں (طبعی حالت سے مراد عقل و شعور اور سننے دیکھنے وغیرہ کی قوتیں اور قوت ہاضمہ، نامیہ وغیرہ اور رنگ و روغن و حسن جمال ہیں، اور الٹا کرنے سے مراد ہے ان کا انقلاب اور تغیر حالات اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف، اچھے سے برے کی طرف، پس طمس و مسخ بھی ایک قسم کا تغیر ہے کامل سے ناقص کی طرف) سو کیا (اس حالت کو دیکھ کر بھی) وہ لوگ نہیں سمجھتے (کہ جب ایک تغیر پر قدرت ہے تو دوسری پر بھی ہے، بلکہ قدرت کی نسبت تو جمیع ممکنات کے ساتھ مساوی ہے گو ان میں تناظر و تماثل بھی نہ ہو سو ان لوگوں کو اس پر نظر کر کے ڈرنا اور کفر کو ترک کردینا چاہئے)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٤٨- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- متی - مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] ، - ( م ت ی ) متی - ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا )- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور یہ کفار مکہ رسول اکرم سے کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم اپنے اس دعوی میں کہ مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے سچے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ” اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ‘ اگر تم لوگ سچے ہو “- یہاں وعدے سے قیامت کا وعدہ بھی مراد ہوسکتا ہے اور عذاب آنے کا وعدہ بھی۔ یعنی آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ایمان نہ لانے کی پاداش میں ہم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا۔ چناچہ ہم آپ کی دعوت کا انکار تو کرچکے ہیں ‘ اب وہ عذاب ہم پر آخر کب آئے گا ؟ یا اگر قیامت کے بارے میں آپ کا دعویٰ سچا ہے تو ذرا یہ بھی بتادیں کہ قیامت آخر کب برپا ہوگی ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :44 توحید کے بعد دوسرا مسئلہ جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان نزاع برپا تھی وہ آخرت کا مسئلہ تھا ۔ اس کے متعلق عقلی دلائل تو آگے چل کر خاتمہ کلام پر دیے گئے ہیں ۔ مگر دلائل دینے سے پہلے یہاں اس مسئلے کو لے کر عالم آخرت کا ایک عبرتناک نقشہ ان کے سامنے کھینچا گیا ہے تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ جس چیز کا وہ انکار کر رہے ہیں وہ ان کے انکار سے ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ لا محالہ ایک روز ان حالات سے انہیں دوچار ہونا ہے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :45 اس سوال کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ فی الواقع قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے ، اور اگر مثلاً ان کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ فلاں سنہ میں فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو پیش آئے گی تو ان کا شک رفع ہو جاتا اور وہ اسے مان لیتے ۔ دراصل اس طرح کے سوالات وہ محض کج بحثی کے لیے چیلنج کے انداز میں کرتے تھے اور ان کا مدعا یہ کہنا تھا کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ہے ، تم خواہ مخواہ ہمیں اس کے ڈراوے دیتے ہو ۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ قیامت فلاں روز آئے گی ، بلکہ انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ آئے گی اور اس شان سے آئے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani