Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی لوگ بازاروں میں خریدو فروخت اور حسب عادت بحث و تکرار میں مصروف ہونگے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی یہ نفخہ اولیٰ ہوگا جسے نفخہ فزع بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا۔ نَفْخَۃُ الْصَّعْقِ جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا سب موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٧] قیامت دفعتاً آجائے گی :۔ قیامت جب آئے گی تو وہ آہستہ آہستہ نہیں آئے گی جسے تم دیکھ کر سمجھ لو کہ آرہی ہے اور کچھ سنبھل جاؤ۔ بلکہ اس وقت تم اپنے اپنے کام کاج میں پوری طرح منہمک ہوگے، کوئی کاروبار کررہا ہوگا، کوئی سودا بازی کرتے ہوئے جھگڑ رہا ہوگا، اس وقت اچانک ایک زور کا دھماکہ ہوگا اور جو شخص جس حال میں بھی ہوگا وہیں دھر لیا جائے گا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ قیامت اس حال میں آئے گی کہ دو آدمی اپنا کپڑا بچھائے بیٹھے ہوں گے وہ اس کی سودا بازی اور کپڑا لپیٹنے سے ابھی فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آجائے گی اور آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر چلے گا۔ ابھی اس کو پئے گا نہیں کہ قیامت آجائے گی اور کوئی آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا پھر ابھی اس کا پانی پیا نہیں جائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ منہ کی طرف اٹھا رہا ہوگا اور ابھی کھایا نہ ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : ان کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ قیامت فلاں وقت آئے گی، بلکہ ان کے سامنے قیامت کے چند ہولناک مناظر کا نقشہ پیش کردیا گیا ہے۔- اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : ایک ہی چیخ سے مراد اسرافیل (علیہ السلام) کا پہلی دفعہ صور میں پھونکنا ہے، جس سے تمام مخلوق مرجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ لوگ جس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں اس کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی تیاری کی ضرورت نہیں، صرف ایک مرتبہ صور میں پھونک دیا جائے گا، جس کی چیخ کی آواز سے سب لوگ بےہوش ہو کر مرجائیں گے۔- تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُوْنَ : ” يَخِصِّمُوْنَ “ اصل میں ” یَخْتَصِمُوْنَ “ (افتعال) ہے۔ تاء کو صاد کے ساتھ بدل کر صاد میں ادغام کردیا اور صاد کی موافقت کے لیے خاء کو بھی کسرہ دے دیا۔ ادغام سے ان کے جھگڑنے کی شدت بیان کرنا مقصود ہے۔ یعنی وہ قیامت آہستہ آہستہ نہیں آئے گی، جسے دیکھ کر وہ کچھ سنبھل جائیں، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور پورے زور و شور سے ایک دوسرے سے جھگڑا اور بحث کر رہے ہوں گے کہ اچانک ایک چیخ سے قیامت برپا ہوجائے گی۔ ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَقُوْمُ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَحْلُبُ اللِّقْحَۃَ فَمَا یَصِلُ الْإِنَاءُ إِلٰی فِیْہِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَ الرَّجُلَانِ یَتَبَایَعَان الثَّوْبَ فَمَا یَتَبَایَعَانِہِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَالرَّجُلُ یَلِطُ فِيْ حَوْضِہِ فَمَا یَصْدُرُ حَتّٰی تَقُوْمَ ) [ مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ : ٢٩٥٤ ] ” قیامت (اتنی اچانک) قائم ہوگی کہ آدمی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا، پھر برتن اس کے منہ تک نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ وہ قائم ہوجائے گی اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے، تو ابھی سوداکر نہیں پائیں گے کہ وہ قائم ہوجائے گی اور آدمی اپنے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا، ابھی واپس نہیں ہوگا کہ وہ قائم ہوجائے گی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - (آیت) ما ینظرون الاصیحة واحدة، یہ ان کفار کا ہے جواب ہے جو استہزاء و انکار کے طور پر مسلمانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم جس قیامت کے آنے کے قائل ہو وہ کب کس سال اور کس تاریخ میں آئے گی۔ (آیت) یقولون متیٰ ھذا الوعد، ان لوگوں کا یہ سوال درحقیقت کسی تحقیق واقعہ کے لئے نہیں بلکہ تمسخر و استہزاء کے تھا اور بالفرض تحقیق کے لئے بھی ہوتا تو رب العالمین کی حکمت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ قیامت کے سال اور تاریخ کا پورا یقینی علم کسی کو نہ دیں، یہاں تک کہ اپنے انبیاء و رسل کو بھی نہیں دیا۔ ان احمقوں کا یہ سوال بالفرض تحقیق طلبی ہی کے لئے ہو تو بھی لغو و مہمل تھا۔ اس لئے اس کے جواب میں قیامت کی تاریخ بتانے کے بجائے ان لوگوں کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ جو چیز یقینی طور پر آنے والی ہے عقلمند کا کام یہ ہے کہ اس کی تیاری میں لگے، نہ یہ کہ اس کے وقت اور تاریخ کی تحقیق میں وقت ضائع کرے۔ مقتضیٰ عقل کا یہ تھا کہ قیامت کی خبر سن کر ایمان لاتے اور وہ کام کرتے جس سے اس عالم میں فلاح حاصل ہو، مگر یہ لوگ اپنی غفلت میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں گویا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب قیامت آئے تو کچھ سوچیں۔ اس لئے فرمایا کہ یہ قیامت کے منتظر ہیں۔ اور قیامت کا حال یہ ہوگا کہ وہ ایک ہی زور کی آواز صور کی ہوگی جو سب کو اچانک اس طرح پکڑے گی کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں اور باہمی معاملات کے جھگڑوں میں لگے ہوئے ہوں گے سب کے سب اسی حال میں مردے رہ جائیں گے۔- حدیث میں ہے کہ دو آدمی ایک کپڑے کی خریدو فروخت میں لگے ہوئے ہوں گے، کپڑا پھیلایا ہوا ہوگا کہ اچانک قیامت آجائے گی، اور وہ کپڑا طے نہ کر پائیں گے، کوئی آدمی اپنے حوض کو مٹی سے لیپ کر درست کر رہا ہوگا، کہ اسی حال میں مرا رہ جائے گا (رواہ ابونعیم عن ابی ہریرة قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُہُمْ وَہُمْ يَخِصِّمُوْنَ۝ ٤٩- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - صاح - الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29]- ( ص ی ح ) الصیحۃ - کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تو آپ کی قوم جب آپ کو جھٹلا رہی ہے تو یہ عذاب کے لیے صرف پہلے صور کے منتظر ہیں جو ان کو آپکڑے گا اور یہ اس وقت بازار میں باہمی جھگڑوں میں مصروف ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُہُمْ وَہُمْ یَخِصِّمُوْنَ ” یہ لوگ نہیں انتظار کر رہے مگر ایک چنگھاڑ کا ‘ وہ انہیں آپکڑے گی اور یہ (اسی طرح) جھگڑ رہے ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani