[ ٤٨] قیامت آگئی تو پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت ہی کرسکیں یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جاسکیں بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی موجود ہوگا وہیں اس کا کام تمام کردیا جائے گا۔
فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَةً : ” تَوْصِيَةً “ ” وَصّٰی یُوَصِّيْ “ (تفعیل) کا مصدر ہے، وصیت کرنا۔ یعنی اس چیخ کے بعد انھیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت کرسکیں، یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جاسکیں، بلکہ جو کوئی جہاں موجود ہوگا وہیں دھر لیا جائے گا۔
(آیت) فلا یستطیعون توصیة ولا الیٰ اھلہم یرجعون، یعنی اس وقت جو لوگ مجتمع ہوں گے وہ آپس میں کسی کو کسی کام کی وصیت کرنے کی مہلت نہیں پائیں گے اور جو گھروں سے باہر ہوں گے وہ اپنے گھروں میں واپس آنے کی بھی مہلت نہیں پائیں گے، اسی جگہ مرے کے مرے رہ جائیں گے۔ یہ بیان قیامت کے نفخہ اولیٰ کا ہے، جس سے سارا عالم زمین و آسمان تباہ ہوجائیں گے۔- اس کے بعد فرمایا :
فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَۃً وَّلَآ اِلٰٓى اَہْلِہِمْ يَرْجِعُوْنَ ٥٠ۧ- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
سو اس وقت نہ تو ان کو وصیت اور کلام کی فرصت ملے گی اور نہ بازار سے واپسی کی یا یہ کہ نہ اپنے گھروں تک لوٹ آنے کی بلکہ اسی حال میں مرے کے مرے رہ جائیں گے۔
آیت ٥٠ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَۃً وَّلَآ اِلٰٓی اَہْلِہِمْ یَرْجِعُوْنَ ” پھر نہ تو وہ کوئی وصیت ہی کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر جاسکیں گے۔ “- وہ معاملہ اس قدر اچانک ہوگا کہ جو کوئی جس حالت میں ہوگا اسی حالت میں اس کا شکار ہوجائے گا۔ قبل ازیں اسی سورت میں اس منظر اور کیفیت کا ایک نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ ” وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ تو جبھی وہ سب بجھ کر رہ گئے۔ “
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :46 یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ قیامت آہستہ آہستہ آ رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ وہ آ رہی ہے ۔ بلکہ وہ اس طرح آئے گی کہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصور موجود نہیں ہے کہ دنیا کے خاتمہ کی گھڑی آ پہنچی ہے ۔ اس حالت میں اچانک ایک زور کا کڑاکا ہو گا اور جو جہاں تھا وہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے ، بازاروں میں خرید و فروخت کر رہے ہوں گے ، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگوئیں کر رہے ہوں گے ۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا ۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آئے گی کہ ختم ہو جائے گا ۔ کوئی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بھرے گا اور ابھی پلانے نہ پائے گا کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اسے مہلت نہ ملے گی ۔