جنت کے مناظر ۔ جنتی لوگ میدان قیامت سے فارغ ہو کر جنتوں میں بہ صدا اکرام و بہ ہزار تعظیم پہنچائے جائیں گے اور وہاں کی گوناں گوں نعمتوں اور راحتوں میں اس طرح مشغول ہوں گے کہ کسی دوسری جانب نہ التفات ہو گا نہ کسی اور طرف کا خیال ، یہ جہنم سے جہنم والوں سے بےفکر ہوں گے ۔ اپنی لذتوں اور مزے میں منہمک ہوں گے ۔ اس قدر مسرور ہوں گے کہ ہر ایک چیز سے بےخبر ہو جائیں گے نہایت ہشاش بشاش ہوں گے ، کنواری حوریں انہیں ملی ہوئی ہوں گی ، جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ، طرح طرح کی راگ راگنیاں اور خوش کن آوازیں دلریبی سے ان کے دلوں کو لبھا رہی ہوں گیں ۔ ان کے ساتھ ہی اس لطف و سرور میں ان کی بیویاں اور ان کی حوریں بھی شامل ہوں گی ۔ جنتی میوے دار درختوں کے ٹھنڈے اور گھنے سایوں میں بہ آرام تختوں پر تکیوں سے لگے بےغمی اور بےفکری کے ساتھ اللہ کی مہمانداری سے مزے اٹھا رہے ہوں گے ۔ ہر قسم کے میوے بکثرت ان کے پاس موجود ہوں گے اور بھی جس چیز کو جی چاہے جو خواہش ہو پوری ہو جائے گی ۔ سنن ابن ماجہ کی کتاب الزہد میں اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اس جنت میں جانے کا خواہش مند اور اس کے لئے تیاریاں کرنے والا اور مستعدی ظاہر کرنے والا ہے؟ جس میں کوئی خوف و خطر نہیں ، رب کعبہ کی قسم وہ سرا سر نور ہی نور ہے اس کی تازگیاں بیحد ہیں ۔ اس کا سبزہ لہلہا رہا ہے اس کے بالا خانے مضبوط بلند اور پختہ ہیں اس کی نہریں بھری ہوئی اور بہ رہی ہیں ۔ اس کے پھل ذائقے دار ، پکے ہوئے اور بکثرت ہیں ۔ اس میں خوبصورت نوجوان حوریں ہیں اور ان کے لباس ریشمی اور بیش قیمت ہیں ، اس کی نعمتیں ابدی اور لازوال ہیں ، وہ سلامتی کا گھر ہے ، وہ سبز اور تازے پھلوں کا باغ ہے ، اس کی نعمتیں بہ کثرت اور عمدہ ہیں اور اس کے محلات بلند و بالا اور مزین ہیں ۔ یہ سن کر جتنے صحابہ تھے سب نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس کے لئے تیاری کرنے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں ، آپ نے فرمایا ان شاء اللہ کہو چنانچہ انہوں نے کہا ان شاء اللہ ۔ اللہ کی طرف سے ان پر سلام ہی سلام ہے ۔ خود اللہ کا اہل جنت کے لئے سلام ہے ، جیسے فرمایا ( تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ ڻ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا 44 ) 33- الأحزاب:44 ) ( ترجمہ ) ان کا تحفہ جس روز وہ اللہ سے ملیں گے سلام ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ اوپر کی جانب سے ایک نور چمکے گا یہ اپنا سر اٹھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور رب فرمائے گا ( السلام علیکم یا اھل الجنۃ یہی معنی ہیں اس آیت سلام قولا الخ ، کے جنتی صاف طور سے اللہ کو دیکھیں گے اور اللہ انہیں دیکھے گا کسی نعمت کی طرف اس وقت وہ آنکھ بھی نہ اٹھائیں گے یہاں تک کہ حجاب حائل ہو جائے گا اور نور و برکت ان کے پاس باقی رہ جائے گی ، یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند کمزور ہے ابن ماجہ میں بھی کتاب السنہ میں یہ روایت موجود ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جب دوزخیوں اور جنتیوں سے فارغ ہو گا تو ابر کے سایہ میں متوجہ ہو گا فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے جنتیوں کو سلام کرے گا اور جنتی جواب دیں گے ، قرظی فرماتے ہیں یہ اللہ کے فرمان سلام قولا میں موجود ہے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا مجھ سے مانگو جو چاہو ، یہ کہیں گے پروردگار سب کچھ تو موجود ہے کیا مانگیں؟ اللہ فرمائے گا ہاں ٹھیک ہے پھر بھی جو جی میں آئے طلب کرو ، وہ کہیں گے بس تیری رضامندی مطلوب ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ تو میں تمہیں دے چکا اور اسی کی بنا پر تم میرے اس مہمان خانے میں آئے اور میں نے تمہیں اس کا مالک بنا دیا ، جنتی کہیں گے پھر اللہ ہم تجھ سے کیا مانگیں؟ تو نے تو ہمیں اتنا دے رکھا ہے کہ اگر تو حکم دے تو ہم میں سے ایک شخص کل انسانوں اور جنوں کی دعوت کر سکتا ہے اور انہیں پیٹ بھر کر کھلا پلا اور پہنا اڑھا سکتا ہے ۔ بلکہ ان کی سب ضروریات پوری کر سکتا ہے اور پھر بھی اس کی ملکیت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی ۔ اللہ فرمائے گا ابھی میرے پاس اور زیادتی ہے چنانچہ فرشتے ان کے پاس اللہ کی طرف سے نئے نئے تحفے لائیں گے ۔ امام ابن جریر اس روایت کو بہت سی سندوں سے لائے ہیں لیکن یہ روایت غریب ہے ، واللہ اعلم ۔
55۔ 1 فَاکِھُونَ کے معنی ہیں فَرِحُون خوش مسرت کے ساتھ۔
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ : یہ ذکر کرنے کے بعد کہ ہر ایک کو اس کے عمل ہی کی جزا ملے گی، پہلے اہل جنت کی جزا ذکر فرمائی کہ آج کے دن وہ ایک عظیم مشغولیت میں خوش ہوں گے۔ ” شُغُلٍ “ کا معنی ایسا کام ہے جو انسان کو دوسرے کاموں سے روک دے۔ اس میں تنوین تعظیم کی ہے، مراد یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے اور جنت کی دوسری نعمتوں سے لذت اٹھانے میں ایسے مگن ہوں گے کہ انھیں کسی اور چیز کا خیال تک نہیں آئے گا، کیونکہ جنت کی وہ نعمتیں ایسی ہوں گی جو انسان کے وہم و گمان سے بھی بالا ہیں۔ دیکھیے سورة سجدہ (١٧) ” الْيَوْمَ “ (آج) کے لفظ سے معلوم ہوا کہ اہل جنت جلد ہی جنت میں چلے جائیں گے۔
(آیت) ان اصحب الجنة الیوم فی شغل فاکھون، اصحاب جہنم کی پریشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد قیامت میں اصحاب جنت کا حال ذکر فرمایا کہ وہ اپنی تفریحات میں مشغول ہوں گے۔ فاکہوں فاکہ کی جمع ہے، خوش دل خوش حال کو کہا جاتا ہے، اور اس سے پہلے فی شغل کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اصحاب جہنم کو پیش آنے والی پریشانیوں سے بالکل بےغم ہوں گے۔ (کماقالہ بعض المفسرین)- اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ یہ لفظ فی شغل اس خیال کے دفع کرنے کے لئے بڑھایا ہو کہ جنت میں جبکہ نہ کوئی عبادت ہوگی نہ کوئی فرض و واجب اور نہ کسب معاش کا کوئی کام، تو کیا اس بیکاری میں آدمی کا جی نہ گھبرائے گا ؟ اس لئے فرمایا کہ ان کو اپنی تفریحات ہی کا بڑا شغل ہوگا، جی گھبرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْيَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰكِــہُوْنَ ٥ ٥ۚ- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- شغل - الشَّغْلُ والشُّغْلُ : العارض الذي يذهل الإنسان . قال عزّ وجلّ : إِنَّ أَصْحابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فاكِهُونَ [يس 55] ، وقرئ : وقد شُغِلَ فهو مَشْغُولٌ ، ولا يقال : أَشْغَلَ وشُغُلٌ شَاغِلٌ.- ( ش غ ل ) الشغل والشغل ۔ ا یسی مصروفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے کاموں کی طرف توجہ نہ دے سکے قرآن میں ہے َ فِي شُغُلٍ فاكِهُونَ [يس 55] عیش ونشاط کے مشغلے میں ہوں گے ۔ ایک قرات میں شغل ہے یہ شغل فھو مشغول ( باب مجرد ) سے آتا ہے اور اشغل استعمال نہیں ہوتا شغل شاغل مصروف رکھنے والا کام ۔- فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔
(٥٥۔ ٥٦) اور جنتی قیامت کے دن دوزخیوں کا حال دیکھ کر اپنے مشغلوں میں جو ان کو کنواری لڑکیاں ملیں گی خوش دل ہوں گے اور وہ اپنی بیویوں میں درختوں کے سایہ میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔
آیت ٥٥ اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰـکِہُوْنَ ” یقینا اہل ِجنت اس دن مزے کرنے میں مشغول ہوں گے۔ “
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :51 اس کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب ، یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا ، کیونکہ ان کا ریکارڈ صاف ہو گا ۔ انہیں دوران عدالت انتظار کی تکلیف دینے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتائے گا کہ دیکھو ، جن صالح لوگوں کو تم دنیا میں بے وقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے ، وہ اپنی عقلمندی کی بدولت آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں ، اور تم جو اپنے آپ کو بڑا زیرک و فرزانہ سمجھ رہے تھے ، یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو ۔