[ ٥٢] یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق مجرموں کے ساتھ اپنے فرمانبرداروں کا اور ان کے حسن اجر کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ مجرموں سے ابھی جواب طلبی اور حساب لینے کا کام باقی ہوگا مگر اس وقت اہل جنت، جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور بعض دوسروں سے آسان اور سرسری سا حساب لے کر انہیں جنت میں داخل کیا جاچکا ہوگا۔ وہاں وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہوں گے۔ ٹھنڈی چھاؤں میں ان کے تخت بچھائے گئے ہوں گے وہ اور ان کی بیویاں آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ہر قسم کے میوے اور پھل ان کے پاس حاضر ہوں گے۔ علاوہ ازیں جس چیز کی بھی وہ آرزو کریں گے فوراً حاضر کردی جائے گی۔
لَهُمْ فِيْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ : ” فَاكِهَةٌ“ میں تنوین تکثیر کے لیے ہے، یعنی ان کے لیے جنت میں بہت سے پھل ہوں گے اور انھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ تمنا کریں گے اور مانگیں گے۔ یہ تو جسمانی لذتوں کا حال ہوگا، روحانی لذتوں میں سب سے اونچی لذت کا ذکر اگلی آیت میں فرمایا۔
(آیت) ولھم ما یدعون، یدعون دعوت سے مشتق ہے، جس کے معنی بلانے کے ہیں۔ یعنی اہل جنت جس چیز کو بلا دیں گے وہ ان کو مل جائے گی۔ قرآن کریم نے اس جگہ یسئلون کا لفظ نہیں فرمایا، کیونکہ کسی چیز کا سوال کر کے حاصل کرنا بھی ایک محنت مشقت ہے، جس سے جنت پاک ہے بلکہ وہاں ضرورت کی چیز حاضر و موجود ہوگی۔
لَہُمْ فِيْہَا فَاكِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ ٥٧ۚۖ- فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔
(٥٧۔ ٥٨) ان کے لیے جنت میں ہر طرح کے پھل ہوں گے اور جو کچھ وہاں مانگیں گے اور جس چیز کی خواہش کریں گے وہ انہیں ملے گی اور ان کو پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا۔
آیت ٥٧ لَہُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ ” اس میں ان کے لیے تمام میوے ہوں گے اور ان کے لیے ہر وہ شے ہوگی جو وہ طلب کریں گے۔ “