Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٢] اللہ نے ہر مردہ میں زندہ اور زندہ میں مردے کی خاصیت رکھ دی ہے :۔ یعنی درخت کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر آخر میں اسے ایندھن بنا کر اس سے آگ نکالی۔ درخت کا آغاز پانی سے ہوا اور انتہا آگ پر ہوئی اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد بلکہ ایک لحاظ سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ آگ تھوڑی مقدار میں ہو تو پانی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ اور پانی کم مقدار میں ہو تو آگ اسے آبی بخارات میں تبدیل کرکے اسے ختم کردیتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ایک ہی چیز کے آغاز اور انجام میں متضادصفات پیدا کرسکتے ہیں تو پھر ایک ہی چیز کو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کیوں نہیں بناسکتے۔ یہ تو عام درختوں اور پودوں کا حال ہے۔ پھر کچھ درخت ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں رگڑنے سے اس طرح آگ پیدا ہوجاتی ہے جس طرح چقماق پتھر سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں موم بتی کی طرح جلتی ہیں۔ کیونکہ ان میں روغن خاصی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر درخت اور پودا جو پانی سے پیدا ہوا ہے اس کے اندر بھی آتش گیری کی صفات رکھ دی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہر مردہ میں زندہ ہونے اور زندہ میں مرنے کی صفت بھی فطری طور پر رکھ دی گئی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا : ” الْاَخْضَرِ “ سے مراد تروتازہ درخت ہے، جو پانی سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ دوبارہ زندگی کی دوسری دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اشیاء سے ان کی ضد نکالنے پر قادر ہے، وہ بوسیدہ ہڈیوں سے دوبارہ زندہ انسان بنا دے گا، کیونکہ دیکھو، پانی اور آگ ایک دوسرے کی ضد ہیں، مگر اس نے پانی سے لبریز تازہ درخت میں آگ پکڑنے والا وہ مادہ رکھ دیا ہے جس سے تازہ لکڑی بھی جلنے لگتی ہے۔ اسی طرح وہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور نکالے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) جعل لکم من الشجر الاخضر ناراً ، عرب میں دو درخت معروف تھے۔ ایک مرخ دوسرا عفار۔ عرب لوگ ان دونوں درختوں کی دو شاخیں مثل مسواک کے کاٹ لیتے تھے جو بالکل ہری تازہ پانی سے بھری ہوتی تھیں، ایک کو دوسری پر رگڑنے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی۔ ہرے درخت سے آگ پیدا کرنے میں اس طرف اشارہ ہے۔ (قرطبی) اور اگر درختوں کے آخری انجام کو دیکھا جائے تو ہر درخت بھی اس کا مصداق ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں بظاہر یہی مراد ہے (آیت) افرءیتم النار التی تورون انتم انشاتم شجر تھا ام نحن المنشؤن، یعنی کیا تم اس آگ کو نہیں دیکھتے جس کو تم سلگا کر اپنے کام میں لیتے ہو کیا اس آگ سے شعلہ بننے والے درخت کو تم نے پیدا کیا یا ہم نے ؟- لیکن آیت مذکورہ میں چونکہ شجر کے ساتھ اخضر کی صفت بھی ذکر کردی گئی ہے اس لئے یہاں ظاہر یہی ہے کہ وہ خاص درخت مراد ہیں جن سے ہرے بھرے ہونے کے باوجود آگ پیدا ہوتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۝ ٨٠- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- خضر - قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ- [ الكهف 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر :- قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة :- المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر .- ( خ ض ر )- قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور مکہ والو وہ ایسا ہے جو ہرے درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کردیتا ہے پھر تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا ” جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی “- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرے بھرے درختوں کے اندر جلنے اور آگ پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے۔ ان کی لکڑیوں کو تم لوگ خشک کر کے جلاتے ہو اور آگ کے حوالے سے اپنی مختلف ضروریات پوری کرتے ہو۔ اس کے علاوہ اس سے بعض ایسے درخت بھی مراد ہیں جن کی سبزٹہنیوں کو رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً بانس کی بعض اقسام میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صحرائوں میں خاص طور پر بعض ایسے درخت پیدا کر رکھے ہیں جن کی مدد سے مسافر ضرورت پڑنے پر آگ پیدا کرسکیں۔ جیسے کہ عرب کے صحرائوں میں مرخ اور عفار نامی دو درخت پائے جاتے تھے ‘ جن کی سبز شاخوں کو آپس میں رگڑکر آگ پیدا کی جاسکتی تھی۔- فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ ” تو تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :68 یا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہرے بھرے درختوں میں وہ آتش گیر مادہ رکھا ہے جس کی بدولت تم لکڑیوں سے آگ جلاتے ہو ۔ یا پھر یہ اشارہ ہے مرْخ اور عَفَار نامی ان دو درختوں کی طرف جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کر اہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تھے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی تھی ۔ قدیم زمانہ میں عرب کے بدّو آگ جلانے کے لیے یہی چقماق استعمال کیا کرتے تھے اور ممکن ہے آج بھی کرتے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: عرب میں دو درخت ہوتے تھے، ایک مرخ اور دوسرا عفار۔ اہل عرب ان سے چقماق کا کام لیتے تھے، اور ان کو ایکد وسرے کے ساتھ رگڑنے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ جس ذات نے ایک سرسبز درخت سے آگ پیدا کردی ہے، اس کے لیے دوسرے جمادات میں زندگی پیدا کردینا کیا مشکل ہے؟