(1) یعنی اس کی شان تو یہ ہے پھر اس کے لیے سب انسانوں کا زندہ کردینا کون سا مشکل معاملہ ہے ؟
[ ٧٤] اللہ کے کلمہ کن کہنے کا مفہوم :۔ کن یا ہوجا کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے۔ ایسے امور میں بالعموم اللہ کا قانون تدریج کام کرتا ہے جیسا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام (یا چھ ادوار) میں بنایا۔ اگرچہ اس کی قدرت سے یہ بھی مستبعد نہیں کہ فوراً کسی چیز کو عدم سے وجود میں لے آئے۔ اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ نے کسی کام اور جس مقصد کے لئے بنایا ہے وہ چیز فوراً وہ کام شروع کردے۔ اس کے لئے صرف اللہ کے امر کی ضرورت ہے اور وہ کام اسی وقت ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اللہ کے اس امر کو ہم روح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے کسی کارخانے میں بڑی بڑی دیوہیکل برقی مشینیں نصب ہوتی ہیں۔ مگر وہ اس وقت تک بےحس و حرکت کھڑی رہتی ہیں جب تک ان میں برقی رو نہ گزاری جائے یا سوئچ آن نہ کیا جائے۔ سوئچ آن کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ فوراً متحرک ہو کر اپنا وہ کام کرنا شروع کردیتی ہیں جس کام کے لئے بنائی گئی تھیں۔ بالکل یہی صورت اللہ تعالیٰ کے امر کن کی ہے ادھر اللہ نے ارادہ کیا ادھر وہ چیز بن گئی جو مطلوب تھی۔ مقصد یہ ہے کہ تمام انسانوں کی دوبارہ پیدائش بھی فقط اللہ کے ایک اشارے یا ارادے یا امر کن کی محتاج ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ ارادہ کرے گا تو فوراً تمام انسان زندہ ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوجائیں گے اور انسانوں کے لئے یہ اضطراری امر ہوگا جس کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہوگا۔
اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا : یہ ایک طرح سے پہلی آیات کا نتیجہ اور خلاصہ ہے کہ اسے پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز بنانے میں دقت ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس ” كُنْ “ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔
انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون، مراد اس آیت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہیں تو انسانی مصنوعات کی طرح ان کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ پہلے مواد جمع فرمائیں پھر اس کے لئے کاریگر بلائیں، پھر ایک مدت تک کام کر کے وہ چیز تیار ہو بلکہ وہ جب اور جس وقت جس چیز کو پیدا فرمانا چاہیں ان کو صرف حکم دے دینا کافی ہوتا ہے کہ ” پیدا ہو جا “ تو جس چیز کو یہ حکم ملتا ہے وہ فوراً اس کے حکم کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر چیز کی تخلیق دفعی اور فوری ہی ہو۔ بلکہ حکمت خالق کے تابع جس چیز کا فوری طور پر پیدا ہوجانا مصلحت ہے وہ فوری طور پر بلا تدریج و مہلت پیدا ہوجاتی ہے اور جس چیز کا پیدا ہونا کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر بتدریج مناسب سمجھا گیا وہ اسی تدریج کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے، خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ اس کو پہلے ہی حکم میں خاص تدریج کے ساتھ پیدا ہونا بتلایا گیا ہو یا ہر مرحلہ پر اس کو جداگانہ حکم کن کا خطاب ہوتا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔- قد تمت سورة یٰسین بحمد اللہ وعونہ لثمانی وعشرین من شہر صفر 1392 ھ یوم الخمیس وبتمامہ تم الحمد للہ الحزب الخامس من الاحزاب السبعة القرانیة فالحمد للہ اولاً واخراً و ظاہرا و باطناً ۔
اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ٨٢- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔
اور وہ تو جس وقت قیامت قائم کرنا چاہے گا تو اس وقت کہہ دے گا کہ ہوجا وہ فورا ہوجائے گی۔
آیت ٨٢ اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ” اس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ “- یہاں پر یہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ یہ ” عالم امر “ کا معاملہ ہے ‘ جبکہ عالم ِخلق کے قوانین مختلف ہیں۔ قرآن میں یہ آیت متعدد بار آئی ہے اور اسی مفہوم اور انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت سورة الاعراف کی آیت ٥٤ کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم امر میں چیزوں کو وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ‘ جبکہ عالم خلق میں تخلیق کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں چھ دنوں میں بنایا۔ ان چھ دنوں سے مراد چھ ادوار ( ) ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ میلینیم ( ) کہہ لیں۔ عین ممکن ہے کہ جس عرصہ کو یہاں ” دن “ کا نام دیا گیا ہے وہ لاکھوں برس پر محیط ہو۔ لیکن چھ دنوں کے ذکر سے یہ حقیقت تو بہرحال واضح ہوتی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کچھ وقت لگا۔ اس لیے کہ یہ ” عالم خلق “ کی تخلیق ہے۔ - اس کے برعکس ” عالم ِامر “ میں ” وقت “ کا ّتکلف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً روحِ انسانی اور فرشتوں کا تعلق عالم امر سے ہے ‘ اس لیے روح کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں۔ اسی طرح حضرت جبریل امین (علیہ السلام) آنِ واحد میں عرش سے زمین پر آجاتے ہیں اور آنِ واحد میں زمین سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اللہ تعالیٰ کے امر کی خصوصی شان کا ذکر عالم امر کے حوالے سے ہوا ہے۔