112۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذکورہ واقعے کے بعد اب ایک بیٹے اسحاق (علیہ السلام) کی اور اس کے نبی ہونے کی خوشخبری دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ جو اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کے اکلوتے بیٹے تھے اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت ان کے بعد ہوئی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس کی بابت اختلاف۔ ہے کہ ذبیح کون ہے، اسماعیل (علیہ السلام) یا اسحاق (علیہ السلام) ؟ امام ابن جریر نے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو اور ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دیا ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ امام شوکانی نے اس میں تو قف اختیار کیا (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر
[٦٦] معلوم ہوا کہ پہلی خوشخبری کا تعلق سیدنا اسماعیل سے ہی ہے۔ اور قصہ ذبح کا تعلق انہی سے ہے۔ اس کے بعد دوسری بار سیدنا ابراہیم کو سیدنا اسحاق کی خوشخبری دی گئی۔
وَبَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ : اہل کتاب کا کہنا ہے کہ ذبح کا یہ واقعہ اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں بلکہ اسحاق (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا۔ بعض مسلم مفسرین نے بھی یہی بات کہی ہے، مگر یہ درست نہیں، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا سے ملنے والے بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم کے ساتھ آزمائش کے بعد اسحاق (علیہ السلام) کی خوش خبری کا ذکر فرمایا اور اس بات پر مسلمانوں کا اور اہل کتاب کا اتفاق ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) پہلے پیدا ہوئے تھے۔ ایک اور نہایت مضبوط دلیل اس کی یہ ہے کہ جب فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کو اسحاق (علیہ السلام) کی خوش خبری دی تو اس کے ساتھ ہی فرمایا : (ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) [ ھود : ٧١ ] کہ اسحاق (علیہ السلام) کے بعد ان کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) ہوں گے، ظاہر ہے یہ وہ بیٹا ہو ہی نہیں سکتا جسے دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچتے ہی ذبح کا حکم دیا جانے والا تھا، کیونکہ ان کے متعلق تو اتنی عمر تک زندہ رہنے کی بشارت تھی کہ پورے جوان ہو کر ان کی شادی ہوگی، پھر اولاد ہوگی۔ اس کے علاوہ تورات میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے (دیکھیے پیدائش : ٢٢۔ ٢) اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اکلوتے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ اس کے باوجود اہل کتاب نے تحریف کر کے اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح لکھ دیا۔ پھر اس مینڈھے کے سینگوں کا کعبہ میں مدت تک رہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ مکہ میں ہوا۔ اگر یہ واقعہ اسحاق (علیہ السلام) سے متعلق ہوتا تو شام میں ہوتا، مکہ سے اس کا تعلق نہ ہوتا۔
ذبیح حضرت اسماعیل تھے یا حضرت اسحاق - اوپر آیات کی تفسیر یہ تسلیم کرتے ہوئے کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جس بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے، لیکن درحقیقت اس معاملہ میں مفسرین اور مورخین کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عباس، حضرت ابن عباس، کعب الاحبار، سعید بن جبیر، قتادہ، مسروق، عکرمہ، عطائ، مقاتل، زہری اور سدی سے منقول ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے، اس کے برخلاف حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو الطفیل، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، حسن بصری، مجاہد، حضرت عمر بن عبدالعزیز، اشعبی، محمد بن کعب قرظی، اور دوسرے بہت سے تابعین سے منقول ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔- بعد کے مفسرین میں سے حافظ ابن جریر طبری نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور حافظ ابن کثیر وغیرہ نے دوسرے قول کو اختیار کر کے پہلے قول کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔ یہاں فریقین کے دلائل پر مکمل تبصرہ ممکن نہیں، تاہم قرآن کریم کے اسلوب بیان اور روایات کی قوت کے لحاظ سے راحج یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جن صاحبزادے کے ذبح کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے، اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :- (١) قرآن کریم نے بیٹے کی قربانی کا پورا واقعہ نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ وَبَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ (اور ہم نے ان کو اسحاق کی بشارت دی کہ نبی اور نیک لوگوں میں سے ہوں گے) اس سے صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور تھے، اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت ان کی قربانی کے واقعہ کے بعد دی گئی۔ - (٢) حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اسی بشارت میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) نبی ہوں گے، اس کے علاوہ ایک دوسری آیت میں مذکور ہے، کہ حضرت اسحاق کی پیدائش کے ساتھ یہ بشارت بھی دے دی گئی تھی کہ ان سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوں گے، (آیت) (فبشرناھا باسحق ومن وراء اسحاق یعقوب) اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ بڑی عمر تک زندہ رہیں گے، یہاں تک کہ صاحب اولاد ہوں گے، پھر انہی کو بچپن میں ذبح کرنے کا حکم کیونکر دیا جاسکتا تھا، اور اگر انہی کو بچپن میں نبوت سے قبل ذبح کرنے کا حکم دیا جاتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ جاتے کہ انہیں تو ابھی نبوت کے منصب پر فائز ہونا ہے اور ان کی صلب سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیدائش مقدر ہے، اس لئے ذبح کرنے سے انہیں موت نہیں آسکتی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں نہ یہ کوئی بڑا امتحان ہوتا، اور نہ حضرت ابراہیم اس کی انجام دہی میں کسی تعریف کے مستحق ہوتے، امتحان تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پوری طرح یہ سمجھے ہوئے ہوں کہ میرا یہ بیٹا ذبح کرنے سے ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد وہ ذبح کرنے کا اقدام کریں۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے معاملہ میں یہ بات پوری طرح صادق آتی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے زندہ رہنے اور نبی بننے کی کوئی پیشنگوئی نہیں فرمائی تھی۔- (٣) قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پہلا بچہ تھا، اس لئے کہ انہوں نے اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت ایک بیٹے کی دعا کی تھی، اسی دعا کے جواب میں انہیں یہ بشارت دی گئی کہ ان کے یہاں ایک حلیم لڑکا پیدا ہوگا، اور پھر اسی لڑکے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جب وہ باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو اسے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ سارا سلسلہ واقعات بتارہا ہے کہ وہ لڑکا حضرت ابراہیم کا پہلا بیٹا تھا، ادھر یہ بات متفق علیہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے صاحبزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں، اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان کے دوسرے صاحبزادے ہیں، اس کے بعد اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔- (٤) یہ بات بھی تقریباً طے شدہ ہے کہ بیٹے کی قربانی کا واقعہ مکہ مکرمہ کے آس پاس پیش آیا ہے، اس لئے اہل عرب میں برابر حج کے دوران قربانی کا طریقہ رائج رہا ہے، اس کے علاوہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے کے فدیہ میں جو مینڈھا جنت سے بھیجا گیا اس کے سینگ سالہا سال تک کعبہ شریف کے اندر لٹکے رہے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تائید میں کئی روایتیں قل کی ہیں، اور حضرت عامر شعبی کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ : ” میں نے اس مینڈھے کے سینگ کعبہ میں خود دیکھے ہیں۔ “ (ابن کثیر، ص ٨١ ج ٤) اور حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ ” اس مینڈھے کے سینگ مسلسل کعبہ میں لٹکتے رہے، یہاں تک کہ جب (حجاج بن یوسف کے زمانہ میں) کعبة اللہ میں آتش زدگی ہوئی تو یہ سینگ بھی جل گئے “ (ایضاً ، ص ٧١ ج ٢) اب ظاہر ہے کہ مکہ مکرمہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تشریف فرما رہے ہیں، نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام، اس لئے صاف ظاہر ہے کہ ذبح کا حکم حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی سے متعلق تھا، نہ کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے۔- رہیں وہ روایات جن میں مختلف صحابہ وتابعین کے بارے میں مذکور ہے کہ انہوں نے ذبیح حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو قرار دیا، سو ان کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ :- اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن بظاہر یہ سارے اقوال کعب الاحبار سے ماخوذ ہیں، اس لئے کہ جب وہ حضرت عمر کے زمانے میں اسلام لائے تو حضرت عمر کو اپنی پرانی کتابوں کی باتیں سنانے لگے، بعض اوقات حضرت عمر ان کی باتیں سن لیتے تھے، اس سے اور لوگوں کو بھی گنجائش ملی، اور انہوں نے بھی ان کی روایات سن کر انہیں نقل کرنا شروع کردیا، ان روایات میں ہر طرح کی رطب و یا بس باتیں جمع تھیں، اور اس امت کو ان باتوں میں سے ایک حرف کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ واللہ اعلم (تفسیر ابن کثیر ص ٧١ ج ٤)- حافظ ابن کثیر کی یہ بات بہت قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دینے کی بنیاد اسرائیلی روایات ہی پر ہے، اس لئے یہود و نصاریٰ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بجائے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دیتے ہیں، موجودہ بائبل میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :- ” ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہیم کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہیم اس نے کہا میں حاضر ہوں، تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا “- (پیدائش ٢٢ او ٢)- اس میں ذبح کا واقعہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا گیا ہے، لیکن اگر انصاف سے اور تحقیق سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں یہودیوں نے اپنے روایتی تعصب سے کام لے کر تورات کی عبارت میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے، اس لئے کہ کتاب پیدائش کی مذکورہ عبارت ہی میں ” جو تیرا اکلوتا ہے “ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو جس بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا، اسی باب میں آگے چل کر پھر لکھا ہے کہ :۔- ” تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ “ (پیدائش ٢٢: ٢١)- اس جملے میں بھی یہ تصریح موجود ہے کہ وہ بیٹا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اکلوتا تھا، ادھر یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان کے اکلوتے بیٹے نہ تھے، اگر ” اکلوتے “ کا اطلاق کسی پر ہوسکتا ہے تو وہ صرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں، خود کتاب پیدائش ہی کی دوسری کئی عبارتیں اس کی شہادت دیتی ہیں کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی پیدائش حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے بہت پہلے ہوچکی تھی، ملاحظہ فرمائیے :۔- ” اور ابراہیم کی بیوی ساریٰ کے کوئی اولاد نہ ہوئی، اس کی ایک مصری لونڈی تھی، جس کا نام ہاجرہ تھا اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور خداوند کے فرشتہ نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہوگا، اس کا نام اسماعیل رکھنا۔ اور جب ابراہیم سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابراہیم چھیاسی برس کا تھا “- (پیدائش باب ٦١ آیات ١ و ٤، ٠١، ٦١)- نیز اگلے باب میں لکھا ہے :- ” اور خدا نے ابرہام سے کہا کہ ساریٰ جو تیری بیوی ہے اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا تب ابرہام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا اور کیا سارہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟ اور ابرہام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے، تب خدا نے فرمایا کہ بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا، تو اس کا نام اسحاق رکھنا “ (پیدائش ٧١، ٥١ تا ١٢)- اس کے بعد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے :- ” اور جب اس کا بیٹا اسحاق اس سے پیدا ہوا تو ابراہام سو برس کا تھا “ (پیدائش ١٢ تا ٥)- ان عبارتوں سے صاف واضح ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے چودہ سال چھوٹے تھے اور اس چودہ سال کے عرصہ میں وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اکلوتے بیٹے تھے، اس کے برعکس حضرت اسحاق (علیہ السلام) پر ایسا کوئی وقت نہیں گزرا جس میں وہ اپنے والد کے اکلوتے ہوں، اب اس کے بعد جب کتاب پیدائش کے بائیسویں باب میں بیٹے کی قربانی کا ذکر آتا ہے تو اس میں ” اکلوتا “ کا لفظ صاف شہادت دے رہا ہے کہ اس سے مراد اسماعیل (علیہ السلام) ہیں اور کسی یہودی نے اس کے ساتھ ” اضحاق “ کا لفظ محض اس لئے بڑھا دیا ہے تاکہ یہ فضیلت بنو اسماعیل کے بجائے بنو اسحاق کو حاصل ہو۔ - اس کے علاوہ بائبل کی اسی کتاب پیدائش میں جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی ہے وہاں یہ بھی مذکور ہے کہ :- ” یقینا میں اسے (یعنی حضرت اسحاق کو) برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی “ (پیدائش ٧١، ٦١)- اب ظاہر ہے کہ جس بیٹے کے بارے میں اس کی پیدائش سے پہلے ہی یہ خبر دی جا چکی ہو کہ وہ صاحب اولاد ہوگا اور ” قومیں اس کی نسل سے ہوں گی “ اس کو قربان کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے متعلق نہیں تھا، بلکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے متعلق تھا۔- بائبل کی ان عبارتوں کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ ابن کثیر کا یہ خیال کس قدر صحیح ہے کہ :- ” یہودیوں کی کتب مقدسہ میں تصریح ہے کہ جب اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر چھیاسی سال تھی اور جب اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ان کی عمر سو سال تھی، اور انہی کی کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے اکلوتے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اور ایک اور نسخہ میں ” اکلوتے “ کے بجائے ” پہلوٹھے “ کا لفظ ہے، پس یہودیوں نے یہاں ” اسحاق “ کا لفظ اپنی طرف سے بہتانا بڑھا دیا، اور اس کو درست قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں کی تصریحات کے خلاف ہے، اور یہ لفظ انہوں نے اس لئے بڑھایا کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان کے جد امجد ہیں، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عربوں کے، پس یہودیوں نے حسد کی وجہ سے یہ لفظ بڑھا دیا اور اب ” اکلوتے “ کے معنی یہ بتاتے ہیں کہ وہ ” بیٹا جس کے سوا اس وقت کوئی اور تمہارے پاس موجود نہیں ہے “ کیونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ اس وقت وہاں نہیں تھیں (اس لئے حضرت اسحاق کو اس معنی میں اکلوتا کہا جاسکتا ہے) لیکن یہ بالکل غلط تاویل ہے اور باطل تحریف ہے، اس لئے کہ ” اکلوتا “ اس بیٹے کو کہتے ہیں جس کے باپ کا اس کے سوا کوئی بیٹا نہ ہو تفسیر ابن کثیر، ص ٤٢، ج ٤)- حافظ ابن کثیر ہی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں مسلمان ہوگیا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے پوچھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹوں میں سے کون سے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا ؟ تو اس نے کہا کہ ” خدا کی قسم امیر المومنین وہ اسماعیل (علیہ السلام) تھے، یہودی اس بات کو خوب جانتے ہیں لیکن وہ آپ عرب لوگوں سے حسد کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں “ (ص ٨١ ج ٤)- ان دلائل کی روشنی میں یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔ واللہ سبحانہ، اعلم
وَبَشَّرْنٰہُ بِـاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ١١٢- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
اور ہم نے ان کو اسحاق کی بشارت دی کہ نبی اور نیک بختوں میں سے ہوں گے۔
آیت ١١٢ وَبَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ” اور ہم نے اسے بشارت دی اسحاق ( علیہ السلام) کی ‘ ایک نبی صالحین میں سے۔ “- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی کا جو امتحان لیا ‘ اس میں کامیابی کے انعام کے طور پر آپ ( علیہ السلام) کو دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی۔