حضرت موسیٰ پر انعامات الٰہی ۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ہارون پر اپنی نعمتیں جتا رہاہے کہ انہیں نبوت دی انہیں مع ان کی قوم کے فرعون جیسے طاقتور دشمن سے نجات دی جس نے انہیں بےطرح پست و ذلیل کر رکھا تھا ان کے بچوں کو کاٹ دیتا تھا ان کی لڑکیوں کو رہنے دیتا تھا ان سے ذلیل مزدوریاں کراتا تھا اور بےحیثیت بنا رکھا تھا ۔ ایسے بدترین دشمن کو ان کے دیکھتے ہلاک کیا ، انہیں اس پر غالب کر دیا ان کی زمین و زر کے یہ مالک بن گئے ۔ پھر حضرت موسیٰ کو واضح جلی روشن اور بین کتاب عنایت فرمائی جو حق و باطل میں فرق و فیصلہ کرنے والی اور نور و ہدایت والی تھی ، ان کے اقوال و افعال میں انہیں استقامت عطا فرمائی اور ان کے بعد والوں میں بھی ان کا ذکر خیر اور ثناء و صفت باقی رکھی کہ ہر زبان ان پر سلام ہی پڑھتی ہے ۔ ہم نیک کاروں کو یہی اور ایسے ہی بدلے دیتے ہیں ۔ وہ ہمارے مومن بندے تھے ۔
114۔ 1 یعنی انہیں نبوت و رسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔
[٦٨] یعنی انہیں نبوت عطا فرمائی۔ معجزات بھی دیئے اور اپنی مدد کا وعدہ دے کر انہیں فرعون کے پاس بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو فرعون کی غلامی اور طرح طرح کی تکلیفوں سے نجات دلائیں۔
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ : یعنی انھیں نبوت عطا کی اور دوسرے بیشمار احسانات فرمائے، جن میں سے بعض احسانات کا ذکر آگے فرمایا۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بھی احسان کیا (کہ ان کو نبوت اور دیگر کمالات عطا فرمائے) اور ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم (یعنی بنی اسرائیل) کو بڑے غم سے (یعنی فرعون کی جانب سے پہنچائی جانیوالی تکالیف سے) نجات دی اور ہم نے ان سب کی (فرعون کے مقابلے میں) مدد کی، سو (آخر میں) یہی لوگ غالب آگئے (کہ فرعون کو غرق کردیا گیا، اور یہ صاحب حکومت ہوگئے) اور ہم نے (فرعون کے غرق ہونے کے بعد) ان دونوں (صاحبوں) کو (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو اصالتاً اور ہارون (علیہ السلام) کو تبعاً ) واضح کتاب دی (مراد تورات ہے کہ اس میں احکام واضح طور پر مذکور تھے) اور ہم نے ان کو سیدھے رستہ پر قائم رکھا، (جس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انہیں نبی معصوم بنایا، اور ہم نے ان دونوں کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں (مدت ہائے دراز کے لئے) یہ بات رہنے دی کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام (چنانچہ دونوں حضرات کے ناموں کے ساتھ آج تک (علیہ السلام) کہا جاتا ہے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ ان کو ثناء اور دعا کا مستحق بنا دیتے ہیں) بیشک وہ دونوں ہمارے (کامل) ایمان دار بندوں میں سے تھے ( اس لئے صلہ بھی کامل عطا ہوا)- معارف ومسائل - ان آیتوں میں تیسرا واقعہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے، یہاں اس کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے اور اسے ذکر کرنے سے اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص اور اطاعت شعار بندوں کو کس طرح مدد فرماتے ہیں اور انہیں کیسے کیسے انعامات سے نوازتے ہیں۔ چناچہ یہاں حضرت موسیٰ و ہارون پر اپنے انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے، انعامات کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک مثبت انعامات، یعنی فائدے پہنچانا، وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ میں اسی قسم کے انعامات کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے منفی انعامات، یعنی نقصانات سے بچانا، اگلی آیات میں اسی قسم کی تفصیل ہے۔ آیات کا مفہوم خلاصہ تفسیر سے واضح ہوجاتا ہے۔
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ ١ ١٤ۚ- منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .
(١١٤۔ ١١٥) اور ہم نے موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) پر بھی نبوت و اسلام کے ذریعے سے احسان کیا اور ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو غرق ہونے سے نجات دی۔
آیت ١١٤ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَہٰرُوْنَ ” اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور ہارون ( علیہ السلام) پر بھی احسان فرمایا ۔ “