[٦٩] مصر میں بنی اسرائیل کی حالت زار :۔ مصر میں بنی اسرائیل کی حالت ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر تھی۔ وہ صرف ایک محکوم قوم ہی نہ تھے۔ بلکہ ذلیل اور رسوا بھی سمجھے جاتے تھے۔ آل فرعون ان سے طرح طرح کی بیگار بھی لیتے تھے۔ پھر ان کی نسل کو ختم ہی کردینے کے درپے ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی مدد صرف یہی نہیں کی کہ ان کے پنجے سے انہیں نجات دلائی بلکہ ان کے سامنے اس ظالم کو سمندر میں غرق کرکے نیست و نابود بھی کردیا۔
وَنَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ : ” ھُمْ “ ضمیر جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ فرعون سے نجات اور اس پر اور اس کی آل یعنی قبطیوں پر فتح و نصرت صرف موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو نہیں بلکہ تمام بنی اسرائیل کو حاصل ہوئی۔
وَنَصَرْنٰہُمْ فَكَانُوْا ہُمُ الْغٰلِبِيْنَ ١١٦ۚ- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے
اور فرعون اور اس کی قوم کے مقابلہ میں ہم نے ان سب کی مدد کی سو آخر میں یہی لوگ غالب آئے۔
آیت ١١٦ وَنَصَرْنٰہُمْ فَکَانُوْا ہُمُ الْغٰلِبِیْنَ ” اور ہم نے ان کی مدد کی ‘ پھر وہی غالب ہوئے۔ “- اللہ کی مدد سے انہیں نجات ملی اور ان کا دشمن ان کے سامنے غرق ہوا۔