Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٢] سیدنا الیاس کا مرکز تبلیغ اور بعل کی پرستش :۔ سیدنا الیاس، سیدنا ہارون کی اولاد سے ہیں۔ ان کا زمانہ نبوت نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کا مرکز تبلیغ بعلبک نامی شہر تھا جو شام میں واقع تھا۔ آپ کی قوم بعل نامی بت کی پرستار تھی اور یہی بعل ہی ان کا دیوتا تھا۔ بعل کا لغوی معنی مالک، آقا، سردار اور خاوند ہے اور قرآن میں بعل کا لفظ متعدد مقامات پر خاوند کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر قدیم زمانے میں سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنوں میں استعمال کرتی تھیں۔ ان لوگوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل (یعنی دوسرے دیوتاؤں یا معبودوں کا سردار) کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی بنی اسرائیل جب فرعون سے نجات پاکر مصر سے فلسطین آکر آباد ہوئے اور ان لوگوں سے شادی بیاہ ہوئے تو یہ مرض ان میں بھی پھیل گیا۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ عوام تو درکنار فلسطین کی اسرائیل ریاست بھی بعل پرستی میں مبتلا ہوگئی تھی۔- [٧٣] یعنی اللہ کے علاوہ خالق اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً انسان میدہ، گھی اور چینی کی آمیزش اور ترکیب سے کئی قسم کی مٹھائیاں وجود میں لاتا ہے اور مادے کے خواص معلوم کرکے نت نئی قسم کی ایجادات کو وجود میں لاتا ہے۔ اسی طرح ایک مصنف چند کتابیں یا تحریریں سامنے رکھ کر ایک نئی کتاب کو وجود میں لاتا ہے۔ یہ سب تخلیقی کارنامے ہیں۔ مگر یہ سب کارنامے ایسے ہیں جن کا مواد پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق نہ مادہ کی محتاج ہے نہ اس کے اوصاف کی کیونکہ مادہ میں وصف پیدا کرنے والا وہ خود ہے پھر اس کے تخلیقی کارنامے اس لحاظ سے انسان کی بساط سے باہر ہیں کہ وہ روح پھونک کر جیتی جاگتی اور نشوونما پانے والی اشیاء تیار کرتا ہے۔ پھر اس کے تخلیقی کارنامے ایسے ہیں جنہیں انسان کا بنانا تو درکنار انسان سمجھ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً انسان کی اندرونی ساخت اور اس کے اعضاء وجوارح کے وظائف اور وہ قوتیں جو انسان میں رکھ دی گئی ہیں ایک آنکھ کے نور ہی کو لیجئے کہ وہ کیا چیز ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے اور اگر ضائع ہوجائے تو کیا کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر اسے بحال کرسکتا ہے ؟ اب سب باتوں کا جواب نفی میں ہے۔ لہذا احسن الخالقین صرف اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا : قرآن کے متعدد مقامات پر لفظ ” بَعْلًا “ شوہر کے معنی میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٢٨) اور نساء (١٢٧) اس کا معنی مالک اور آقا بھی ہے۔ مشرک اقوام اس لفظ کو رب یا معبود کے معنی میں استعمال کرتی ہیں، اس لیے الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے سب سے بڑے بت کا نام ” بعل “ رکھا ہوا تھا۔ الیاس (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ کیا تم ” بعل “ نامی بت کو پوجتے ہو ؟- وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ : اور بنانے والوں میں سب سے بہتر یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہو۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اور بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب پیدا کرنے والوں سے بہتر فرمایا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو جوڑ کر کوئی چیز بنانے پر بھی ” خلق “ کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً انسان لوہے وغیرہ سے مشینیں اور موٹریں وغیرہ بنا لیتا ہے، مگر ان سب میں وہ اللہ کے بنائے ہوئے مادے کا محتاج ہے۔ اس لیے اس کی بنائی ہوئی ہر چیز بھی اللہ ہی کی (خلق) پیدا کردہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) [ الصافات : ٩٦ ] ” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔ “ البتہ ابتدا میں کسی چیز کو پیدا کرنا یا چیزیں جوڑ کر ان میں روح ڈال دینا صرف اس پاک پروردگار کا کام ہے۔ (دیکھیے حج : ٧٣) اس لیے اسے ” اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ “ فرمایا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا (کیا تم بعل کو پوجتے ہو) بعل کے لغوی معنی شوہر اور مالک وغیرہ ہیں، لیکن یہ اس بت کا نام تھا جسے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اپنا معبود بنایا ہوا تھا۔ بعل کی پرستش کی تاریخ بہت قدیم ہے، شام کے علاقہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس کی پرستش ہوتی تھی، اور یہ ان کا سب سے زیادہ مقبول دیوتا تھا۔ شام کا مشہور شہر بعلبک بھی اسی کے نام سے موسوم ہوا اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل حجاز کا مشہور بت ہبل بھی یہی بعل ہے۔ - (قصص القرآن، ص ٨٢ ج ٢)- وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ (اور اس کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بڑھ کر بنانے والا ہے) اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں۔ اور ” احسن الخالقین “ (سب سے اچھا خالق) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ کوئی دوسرا بھی خالق ہوسکتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن جھوٹے معبودوں کو تم نے خالق قرار دیا ہوا ہے وہ ان سب سے اونچی شان والا ہے۔ (قرطبی) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں خالق اور صانع (بنانے والا) کے معنے میں استعمال ہوا ہے، یعنی وہ تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے، اس لئے کہ دوسرے صناع صرف اتنا ہی تو کرتے ہیں کہ مختلف اجزاء کو جوڑ کر کوئی چیز تیار کرلیتے ہیں، کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ان کے بس سے باہر ہے، اور اللہ تعالیٰ معدوم اشیاء کو وجود بخشنے پر قدرت ذاتی رکھتا ہے۔ (بیان القرآن)- غیر اللہ کی طرف تخلیق کی صفت منسوب کرنا جائز نہیں :- یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ” خلق “ کے معنی پیدا کرنے کے ہیں، جس کا مطلب ہے کسی شے کو عدم محض سے قدرت ذاتی کے بل پر وجود میں لانا۔ اس لئے یہ صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، کسی اور کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں، لہٰذا ہمارے زمانے میں جو رواج چل پڑا ہے کہ اہل قلم کے مضامین، شاعروں کے شعر اور مصوروں کی تصویروں کو ان کی ” تخلیقات “ کہہ دیا جاتا ہے وہ بالکل جائز نہیں، اور نہ اہل قلم کو ان مضامین کا خالق کہنا درست ہے۔ خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا، اس لئے ان کے رشحات قلم کو ” کاوش “ یا مضمون وغیرہ کہنا چاہئے ” تخلیق “ نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ۝ ١٢٥ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - بعل - البَعْلُ هو الذکر من الزوجین، قال اللہ عزّ وجل : وَهذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وجمعه بُعُولَة، نحو : فحل وفحولة . - ( ب ع ل البعل - کے معنی شوہر کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا ( سورة هود 72) اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں اس کی جمع بعولۃ آتی ہے جیسے فحل وفحولۃ - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ” کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :71 بعل کے لغوی معنی آقا ، سردار اور مالک کے ہیں ۔ شوہر کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا اور متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ، مثلاً سورہ بقرہ آیت 228 ، سورہ نساء آیت 127 ، سورہ ہود آیت 72 ، اور سورہ نور آیت 31 میں ۔ لیکن قدیم زمانے کی سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنی میں استعمال کرتی تھیں اور انہوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل کے نام سے موسوم کر رکھا تھا ۔ خصوصیت کے ساتھ لبنان کی فنیقی قوم ( ) کا سب سے بڑا نر دیوتا بعل تھا اور اس کی بیوی عستارات ( ) ان کی سب سے بڑی دیوی تھی ۔ محققین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بعل سے مراد سورج ہے یا مشتری ، اور عستارات سے مراد چاند ہے یا زہرہ ۔ بہرحال یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابل سے لے کر مصر تک پورے مشرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی ، اور خصوصاً لبنان ، اور شام و فلسطین کی مشرک اقوام بری طرح اس میں مبتلا تھیں ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین اور مشرق اردن میں آ کر آباد ہوئے ، اور توراۃ کے سخت امتناعی احکام کی خلاف ورزی کر کے انہوں نے ان مشرک قوموں کے ساتھ شادی بیاہ اور معاشرت کے تعلقات قائم کرنے شروع کر دیے ، تو ان کے اندر بھی یہ مرض پھیلنے لگا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور حضرت یوشع بن نون کی وفات کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ اخلاقی و دینی زوال رو نما ہونا شروع ہو گیا تھا: اور بنی اسرائیل نے خدا کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے ـــــــ اور وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے ( قضاۃ 2:َ11 ۔ 13 ) سو بنی اسرائیل کنعانیوں اور حتّیوں اور اموریوں اور فِرِزّیوں اور یبوسیوں کے درمیان بس گئے اور بیٹیوں سے آپ نکاح کرنے اور اپنی بیٹیاں ان کے بیٹوں کو دینے اور ان کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے ( قضاۃ 2:5 ۔ 2 ) اس زمانہ میں بعل پرستی اسرائیلیوں میں اس قدر گھس چکی تھی کہ بائیبل کے بیان کے مطابق ان کی ایک بستی میں علانیہ بعل کا مذبح بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ ایک خدا پرست اسرائیل اس حالت کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے رات کے وقت چپکے سے یہ مذبح توڑ دیا ۔ دوسرے روز ایک مجمع کثیر اکٹھا ہو گیا اور وہ اس شخص کے قتل کا مطالبہ کرنے لگا جس نے شرک کے اس اڈے کو توڑا تھا ( قضاۃ 6:25 ۔ 32 ) ۔ اس صورت حال کو آخر کار حضرت سموایل ، طالوت ، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ختم کیا اور نہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کی بلکہ اپنی مملکت میں بالعموم شرک و بت پرستی کو دبا دیا ۔ لیکن حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہ فتنہ پھر ابھرا اور خاص طور پر شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست بعل پرستی کے سیلاب میں بہہ گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani