145۔ 1 جیسے ولادت کے وقت بچہ یا جانور کا چوزہ ہوتا ہے، کمزور اور ناتواں۔
فَنَبَذْنٰهُ بالْعَرَاۗءِ وَهُوَ سَقِيْمٌ : ” اَلْعَرَآءُ “ چٹیل میدان، جس میں کوئی درخت اور سائے کی چیز نہ ہو۔ مچھلی نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انھیں سمندر سے باہر ایک چٹیل میدان میں اسی طرح صحیح سالم اگل دیا جس طرح نگلا تھا، مگر مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے ان کی جلد نہایت نرم و نازک ہوگئی تھی اور وہ اس وقت سخت کمزور اور بیمار تھے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے خاص احسان سے توبہ کی قبولیت کی وجہ سے ان کا مرتبہ پہلے سے بلند ہوچکا تھا۔ دیکھیے سورة قلم (٤٩، ٥٠) یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن رہے، تھوڑی دیر رہے یا تین دن یا سات دن یا چالیس دن، جیسا کہ مفسرین کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہ بات بیان نہیں فرمائی، کیونکہ جتنی مدت بھی رہے ہوں، تھوڑی ہو یا زیادہ، مچھلی کے پیٹ میں ان کا زندہ رہ جانا اور صحیح سلامت نکل آنا ہی بہت بڑا معجزہ ہے۔
فَنَبَذْنٰهُ بالْعَرَاۗءِ وَهُوَ سَقِيْمٌ (پس ہم نے ان کو میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت مضمحل تھے) العراء کے معنی ہیں کھلا میدان جس میں کوئی درخت نہ ہو۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے انتہائی کمزور ہوگئے تھے، اور جسم پر بال بھی باقی نہ رہے تھے۔
فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَاۗءِ وَہُوَسَقِيْمٌ ١٤٥ۚ- نبذ - النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص .- ( ن ب ذ) النبذ - کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔- عری - وعَرَاهُ وَاعْتَرَاهُ : قصد عُرَاهُ. قال تعالی: إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] . يقال : عَرِيَ من ثوبه يَعْرَى فهو عَارٍ وعُرْيَانٌ. قال تعالی: إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيها وَلا تَعْرى[ طه 118] ، وهو عَرُوٌّ من الذّنب .- أي : عَارٍ ، وأَخَذَهُ عُرَوَاءُ أي : رِعْدَةٌ تعرض من العُرْيِ ، ومَعَارِي الإنسانِ : الأعضاءُ التي من شأنها أن تُعْرَى کالوجه والید والرّجل، وفلانٌ حَسَنُ المَعْرَى، کقولک : حسن المحسر والمجرّد، وَالعَرَاءُ : مکان لا سترة به، قال :- فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ وَهُوَ سَقِيمٌ [ الصافات 145] ، والعَرَا مقصورٌ: النّاحيةُ «6» ، وعَرَاهُ وَاعْتَرَاهُ : قصد عُرَاهُ. قال تعالی: إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] . والعُرْوَةُ : ما يتعلّق به من عُرَاهُ. أي : ناحیته . قال تعالی: فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة 256] ، وذلک علی سبیل التّمثیل .- والعُرْوَةُ أيضا : شجرةٌ يتعلّق بها الإبل، ويقال لها : عُرْوَةٌ وعَلْقَةٌ. والعَرِيُّ والعَرِيَّةُ : ما يَعْرُو من الرّيح الباردة، والنّخلةُ العَرِيَّةُ : ما يُعْرَى عن البیع ويعزل، وقیل : هي التي يُعْرِيهَا صاحبها محتاجا، فجعل ثمرتها له ورخّص أن يبتاع بتمر «1» لموضع الحاجة، وقیل : هي النّخلة للرّجل وسط نخیل کثيرة لغیره، فيتأذّى به صاحب الکثير «2» ، فرخّص له أن يبتاع ثمرته بتمر، والجمیع العَرَايَا . «ورخّص رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم في بيع العَرَايَا»- ( ع ری ) عری - عری من ثوبہ یعریٰ ننگا ہونا چناچہ برہنہ اور ننگے شخص کو عاروعریان کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيها وَلا تَعْرى[ طه 118] یہاں تم نہ بھولے رہوگے اور نہ ننگے ۔ ھو عرومن الذنب : وہ گناہ سے عاری ہے اخذہ عرواء : برہنگی کی وجہ سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ اور انسان کے ان اعضاء کو جو عام طور پر ننگے رہتے ہیں جیسے چہرہ ہاتھ اور پاؤں المعاری کہاجاتا ہے ۔ چانچہ محاورہ ہے ۔ فلان حسن المعریٰ فلاں کے ننگے اعضاء خوبصورت ہیں ۔ جیسا کہ حسن المحسن والمجرد کا محاورہ ہے العراء کھلی جگہ جہاں کوئی چیز آڑ کے لئے نہ ہو جیسے فرمایا : فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ وَهُوَ سَقِيمٌ [ الصافات 145] پھر ہم نے اسے جبکہ وہ بیمار تھے کھلے میدان میں ڈال دیا ۔ العریٰ ( اسم مقصود ) کنارہ اور جانب کو کہتے ہیں اور عراہ واعتراہ اس کے سامنے آیا اس کی جانب قصد کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تجھ پر مصیبت ڈال دی ہے ۔ العروۃ ۔ ہر وہ چیز جسے پکڑ کر کوئی لٹک جائے اور آیت کریمہ : فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة 256] تو اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا ۔ میں ( ایمان باللہ کو ) بطور تمثیل کے ، ، مضبوط حلقہ ، ، ، سے تعبیر فرمایا ہے ۔ نیز عروۃ یا علقہ ایک قسم ( کی ) خار دار جھاڑی یا پیلو کی قسم ) کے درخت کو بھی کہتے ہیں جو اونٹوں کے لئے آخری سہارا ہوتا ہے العری والعریۃ سرد ہوا انسان کو لگ جاتی ہے ۔ نیز العریۃ کھجور کا وہ درخت جو بیع سے مستثنیٰ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ عریۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل اس کے مالک نے کسی محتاج کو ہبہ کردیا ہو شرعا اس درخت کے پھل کو خشک کھجوروں کے عوض بیچنا جائز ہے بعض کہتے ہیں کہ عربیۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو کسی آدمی کے باغ میں دوسرے کی ملکیت ہو اور اس کے آنے جانے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو شریعت نے خشک کھجوروں کے عوض ا س کا پھل خریدنے کی اجازت دی ہے ۔ اس کی جمع عرایا ہے اور آنحضرت نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے ۔- سقم - السَّقَمُ والسُّقْمُ : المرض المختصّ بالبدن والمرض قد يكون في البدن وفي النّفس، نحو :- فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [ البقرة 10] ، وقوله تعالی: إِنِّي سَقِيمٌ [ الصافات 89] فمن التّعریض، أو الإشارة إلى ماض، وإمّا إلى مستقبل، وإمّا إلى قلیل ممّا هو موجود في الحال، إذ کان الإنسان لا ينفكّ من خلل يعتريه وإن کان لا يحسّ به، ويقال : مکان سَقِيمٌ ، إذا کان فيه خوف .- ( س ق م ) السقم والسقم خاص کر جسمانی بیماری کو کہتے ہیں بخلاف مرض کے کہ وہ جسمانی اور قلبی دونوں قسم کی بیماریوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي سَقِيمٌ [ الصافات 89] اور کہا میں تو بیمار ہوں ۔ میں سقیم کا لفظ یا تو تعریض کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یا زمانہ ماضی یا مستقبل کی طرف اشارہ کے لئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس ہلکی سی بدنی تکلیف کی طرف اشارہ ہو جو اس وقت ان کو عارض تھی ۔ کیونکہ انسان بہر حال کسی نہ کسی عارضہ میں مبتلا رہتا ہے اگر چہ وہ اسے محسوس نہ کرے اور خوف ناک جگہ کو مکان سقیم کہا جاتا ہے ۔
(١٤٥۔ ١٤٦) پھر ہم نے ان کو نکال کر ایک میدان میں ڈال دیا اور وہ وقت کمزور اور لاغر تھے اور ان کا بدن بچہ کے بدن کی طرح نرم ہوگیا تھا اور ہم نے ان پر دھوپ سے حفاظت کے لیے ایک بیل دار درخت بھی اگایا۔
آیت ١٤٥ فَنَـبَذْنٰـہُ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ سَقِیْمٌ ” تو ہم نے ڈال دیا اسے ایک چٹیل میدان میں اور وہ خستہ حالت میں تھا۔ “- اس تسبیح اور استغفار (آیت کریمہ کے ورد) کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو اس مصیبت سے نجات دی اور اللہ کے حکم سے مچھلی نے آپ ( علیہ السلام) کو ساحل پر اگل دیا۔ لیکن مچھلی کے معدے میں رہنے اور اس کے معدے میں موجود انہضامی رطوبتوں ( ) کے اثرات کے باعث آپ ( علیہ السلام) کی حالت بہت خستہ (سقیم) ہوچکی تھی۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :82 یعنی جب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور وہ ایک بندہ مومن و قانت کی طرح اس کی تسبیح میں لگ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ساحل پر اگل دیا ۔ ساحل ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی روئیدگی نہ تھی ، نہ کوئی ایسی چیز تھی جو حضرت یونس علیہ السلام پر سایہ کرتی ، نہ وہاں غذا کا کوئی سامان موجود تھا ۔ اس مقام پر بہت سے عقلیت کے مدعی حضرات یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے ۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں اس نام نہاد عقلیت کے گڑھ ( انگلستان ) کے سواحل سے قریب ایک واقعہ پیش آ چکا ہے جو ان کے دعوے کی تردید کر دیتا ہے ۔ اگست 1891ء میں ایک جہاز ( ) پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے ۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو 20 فیٹ لمبی ، 5 فیٹ چوڑی اور سو ٹن وزنی تھی ، سخت زخمی کر دیا ۔ مگر اس سے جنگ کرتے ہوئے جیمز بارٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کی آنکھوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا ۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی ۔ انہوں نے بمشکل اسے جہاز پر چڑھایا اور پھر طویل جدوجہد کے بعد جب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر سے زندہ برآمد ہو گیا ۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے 60 گھنٹے رہا تھا ( اردو ڈائجسٹ ، فروری 1964ء ) ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟
27: تسبیح پڑھنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک کھلے میدان کے کنارے لاکر ڈال دے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس وقت حضرت یونس (علیہ السلام) بہت کمزور ہوچکے تھے، اور بعض روایات میں ہے کہ ان کے جسم پر بال نہیں رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر ایک درخت اگایا، بعض روایات میں ہے کہ وہ کدو کا درخت تھا اس سے انہیں سایہ بھی حاصل ہوا، اور شاید اسکے پھل کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے علاج بھی بنادیا، نیز وہاں ایک بکری بھیج دی گئی، جس کا آپ دودھ پیتے رہے، یہاں تک کہ تندرست ہوگئے۔