Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

158۔ 1 یہ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف کہ اللہ نے جنات کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی اللہ کی بیٹیاں، فرشتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان قرابت داری (سسرالی رشتہ) قائم ہوگیا۔ 158۔ 2 حالانکہ یہ بات کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنات کو عذاب میں کیوں ڈالتا ؟ کیا وہ اپنی قرابت داری کا لحاظ نہ کرتا ؟ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ خود جنات بھی جانتے ہیں کہ انہیں عتاب و عذاب الٰہی بھگتنے کے لئے ضرور جہنم میں جانا ہوگا، تو پھر اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت داری کس طرح ہوسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩١] جنوں اور اللہ تعالیٰ میں سسرالی رشتہ :۔ مشرکین عرب سے جب پوچھا جاتا کہ اگر فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تو ان کی مائیں کون ہیں ؟ تو وہ کہہ دیتے کہ جنوں کی عورتیں اس طرح گویا وہ ایک اور ظلم ڈھاتے تھے اور جنوں اور اللہ تعالیٰ میں دامادی اور سسرال کا رشتہ قائم کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ جن ایک مکلف مخلوق ہے۔ جو اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے۔ پھر ان کی اکثریت جہنم میں جائے گی اور تم نے انہیں اللہ کا سسر بنا ڈالا ہے۔ تمہاری بےہودگی کی کوئی انتہا ہے ؟ کیا تم یہ گوارا کرتے ہو کہ اپنے داماد کو آگ میں جھونک دو یا جس کو تم آگ میں جھونکتے ہو اسے اپنا داماد بنانا گوارا کرسکتے ہو ؟ آخر اللہ کے بارے میں تمہاری عقلوں میں اتنا فتور کیوں آجاتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا : اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان نسب بنانے سے کیا مراد ہے ؟ ابن کثیر (رض) نے اس کی تفسیر میں دو قول ذکر کیے ہیں، پہلا مجاہد کا قول کہ مشرکین نے کہا، فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ تو ابوبکر (رض) نے پوچھا، تو ان کی مائیں کون ہیں ؟ انھوں نے کہا ” بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ “ ” سردار جننیوں کی بیٹیاں۔ “ مگر اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان نسبی رشتہ قائم نہیں ہوتا، بلکہ صہری یعنی سسرالی رشتہ قائم ہوتا ہے، کیونکہ جننیوں کی بیٹیاں (نعوذ باللہ) اللہ کی بیویاں ہوں تو جنّ سسر ہوں گے۔ علاوہ ازیں مجاہد کی ابوبکر (رض) سے ملاقات بھی نہیں، اس لیے یہ منقطع ہے۔ دوسرا قول ابن عباس (رض) کا نقل کیا ہے کہ اللہ کے ان دشمنوں نے اللہ تعالیٰ اور ابلیس کو دو بھائی قرار دیا۔ مفسرین نے اس تشریح میں فرمایا کہ یہ ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ خالق دو ہیں، ایک خالق خیر، جسے ” یزداں “ کہتے ہیں اور ایک خالق شر، جسے ” اہرمن “ کہتے ہیں۔ مگر اس تفسیر میں بھی دو خرابیاں ہیں، ایک تو اس کی سند ثابت نہیں، کیونکہ یہ طبری نے عوفی عن ابن عباس کے طریق سے بیان کی ہے، جو ضعیف ہے، دوسرے اس میں اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان بھائی ہونے کے رشتے کا بیان ہے، جب کہ آیت میں عام جنوں کا ذکر ہے۔- بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں ” الْجِنَّةِ “ سے مراد فرشتے ہیں، کیونکہ جنّات کو ان کے چھپے ہوئے ہونے کی وجہ سے ” جنّ “ کہتے ہیں، جیسا کہ جنین، جنون وغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے اور فرشتے بھی چھپے ہوتے ہیں، اس لیے یہاں مراد یہ ہے کہ انھوں نے فرشتوں اور اللہ کے درمیان نسبی رشتہ قرار دیا ہے، اس طرح کہ انھیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ مگر اس میں بھی دو خرابیاں ہیں، ایک تو فرشتوں کو ” جنّ “ کہنا بہت بڑا تکلف ہے، کیونکہ جنّ آگ سے پیدا ہوئے ہیں اور فرشتے نور سے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ یہ بات تو اوپر آیت (١٥٣) میں گزر چکی ہے : (اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ ) اسے بلا ضرورت دوبارہ ذکر کرنے کا کیا فائدہ ؟ میں نے اس مسئلے میں بہت سی تفاسیر کا مطالعہ کیا، سب کا خلاصہ یہ ہے جو میں نے اوپر بیان کردیا۔ آخر میں مجھے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر سے اطمینان ہوا، وہ یہ کہ مشرکین جس طرح فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے جنوں کو اللہ کے بیٹے (یا اولاد) کہتے تھے۔ دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان ہے کہ انھوں نے اللہ کے درمیان اور جنوں کے درمیان نسب قرار دیا۔ ظاہر ہے نسب کا اطلاق سب سے پہلے بیٹوں اور بیٹیوں پر ہوتا ہے۔ مشرکوں سے یہ بات کچھ بعید نہیں اور اللہ سے زیادہ سچا راوی کون ہوسکتا ہے ؟ (واللہ اعلم)- وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ : ” مُحْضَرُوْنَ “ (حاضر کیے گئے) انھی کے متعلق کہا جاتا ہے جو خود آنا نہ چاہتے ہوں۔ یعنی یقیناً جنّوں کو معلوم ہے کہ وہ حساب کے لیے حاضر کیے جانے والے ہیں۔ کیا باپ کا اولاد کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبً آ (اور انہوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان نسبی تعلق قرار دیا ہے) اس جملے کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ یہ مشرکین عرب کے اس فاسد عقیدے کا بیان ہے کہ جنات کی سردار زادیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔ گویا معاذ اللہ جنات کی سردار زادیوں سے اللہ تعالیٰ کا زوجیت کا تعلق ہے، اور اسی تعلق کے نتیجے میں فرشتے وجود میں آئے ہیں۔ چناچہ ایک تفسیری روایت میں ہے کہ جب مشرکین عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا تو حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ ان کی ماں کون ہے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ جنات کی سردار زادیاں (تفسیر ابن کثیر، ص ٣٢ ج ٤) لیکن اس تفسیر پر یہ اشکال رہتا ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان نسبی تعلق کا ذکر ہے اور زوجیت کا تعلق نسبی نہیں ہوتا۔- اس لئے ایک دوسری تفسیر یہاں زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے جو حضرت ابن عباس، حسن بصری اور ضحاک سے منقول ہے، اور وہ یہ کہ بعض اہل عرب کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ معاذ اللہ ابلیس اللہ تعالیٰ کا بھائی ہے، اللہ تعالیٰ خالق خیر ہے اور وہ خالق شر، یہاں اسی باطل عقیدے کی تردید کی گئی ہے (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر و قرطبی و تفسیر کبیر)- (آیت) وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ (اور جنات کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ گرفتار ہوں گے) ” وہ “ سے مراد ایسے مشرکین بھی ہو سکتے ہیں جو جنات اور شیاطین کو خدا کا ہمسر قرار دیتے تھے اور خود جنات بھی۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ جن شیاطین اور جنات کو تم نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ آخرت میں ان کا برا حشر ہونے والا ہے، مثلاً ابلیس، کہ وہ اپنے انجام بد سے خوب واقف ہے، اب جو خود یہ یقین رکھتا ہو کہ مجھے مبتلائے عذاب ہونا ہے اسے خدا کا ہمسر قرار دینا کتنی بڑی حماقت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلُوْا بَيْنَہٗ وَبَيْنَ الْجِنَّۃِ نَسَـبًا۝ ٠ ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۝ ١٥٨ۙ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- نسب - النَّسَب والنِّسْبَة : اشتراک من جهة أحد الأبوین، وذلک ضربان :- نَسَبٌ بالطُّول کالاشتراک من الآباء والأبناء .- ونَسَبٌ بالعَرْض کالنِّسْبة بين بني الإِخْوة، وبني الأَعْمام . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً- [ الفرقان 54] . وقیل : فلان نَسِيبُ فلان . أي : قریبه، وتُستعمَل النّسبةُ في مقدارَيْنِ مُتجانِسَيْنِ بَعْضَ التَّجَانُسِ يختصُّ كلّ واحد منهما بالآخر، ومنه : النَّسِيبُ ، وهو الانْتِسَابُ في الشِّعْر إلى المرأة بذِكْر العشق، يقال : نَسَبَ الشاعر بالمرأة نَسَباً ونَسِيباً.- ( ن س ب ) النسب والنسبۃ کے معنی ابواین میں سے کسی ایک کی طرف سے رشتہ درای کے ہیں اور نسب دوقسم پر ہے نسب بالطول یعنی وہ رشتہ جو آباء اور ابناء کے درمیان پایا جاتا ہے : ۔ دوم نسب بالعرض یعنی وہ رشتہ جو بنو الا عمام یعنی عم زاد بھائیوں کے درمیان ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان 54] پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا ۔ فلان نسیب فلان وہ فلاں کا قریبی رشتہ دار ہے اور نسبۃ کے معنی ان دو مقدار روں کے درمیان باہمی مناسبت کے بھی آتے ہیں جن میں کسی قسم کی مجانست ہو اسی سے نسیب کا لفظ ہے جس کے معنی اشعاری میں عورت کے محاسن ذکر کر کے اس کے ساتھ عشق کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ اور یہ سب انشا عر بالمرء ۃ نسبا ونسیبا کا مصدر ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، أي :- يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور .- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بنو ملیح والوں نے تو اللہ تعالیٰ اور جنات میں رشتہ داری قرار دی ہے اور کہتے ہیں کہ جس کا ظہور فرشتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت زنادقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو ابلیس ملعون کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں کہ اللہ خالق خیر ہے اور ابلیس خالق شر ہے۔- شان نزول : وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا (الخ)- جبیر نے بواسطہ ضحاج حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آیت کریمہ قریش کے تین قبیلوں سلی، جہینہ اور خزاعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ قریش کے امراء و رؤسا کہنے لگے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا تو ان کی مائیں کون ہیں تو وہ بولے سادات جنات کی بیٹیاں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ اور ابی بن حاتم نے یزید بن ابی مالک سے روایت کیا ہے کہ لوگ الگ الگ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وانا لنحن الصافون۔ اس کے بعد ان کو صف بنانے کا حکم ہوا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٨ وَجَعَلُوْا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَبًا ” اور انہوں نے تو اللہ کے اور ِجنوں کے درمیان بھی نسبی رشتہ قائم کردیا ہے۔ “- وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ” حالانکہ جنوں کو خوب معلوم ہے کہ وہ تو گرفتارکرکے حاضر کیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :89 اصل میں ملائکہ کے بجائے الجنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، لیکن بعض اکابر مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جِنّ کا لفظ اپنے لغوی مفہوم ( پوشیدہ مخلوق ) کے لحاظ سے ملائکہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ ملائکہ بھی اصلاً ایک پوشیدہ مخلوق ہی ہیں ۔ اور بعد کا مضمون اسی بات کا تقا ضا کرتا ہے کہ یہاں الجِنہ کے لفظ کو ملائکہ کے معنی میں لیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: یہ ان مشرکین کے ایک اور بے ہودہ عقیدے کی تردید ہے۔ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں فرشتوں کی مائیں ہیں، گویا العیاذ باللہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیویاں ہیں۔