فرشتوں کے اوصاف ۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرما رہا ہے کہ تمہاری گمراہی اور شرک و کفر کی تعلیم وہی قبول کریں گے جو جہنم کے لئے پیدا کئے گئے ہوں ۔ جو عقل سے خالی کانوں سے بہرے اور آنکھوں کے اندھے ہوں جو مثل چوپایوں کے بلکہ ان سے بھی بدرجہا بدتر ہوں ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ اس سے وہی گمراہ ہو سکتے ہیں جو دماغ کے خالی اور باطل کے شیدائی ہوں ۔ ازاں بعد فرشتوں کی برات اور ان کی تسلی و رضا ایمان و اطاعت کا ذکر فرمایا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقرر جگہ اور ایک مقام عبادت مخصوص ہے جس سے نہ ہم ہٹ سکتے ہیں نہ اس میں کمی بیشی کر سکتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آسمان چر چرا رہا ہے اور واقع میں اسے چر چرانا بھی چاہئے اس میں ایک قدم رکھنے جتنی جگہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ رکوع سجدے میں پڑا ہوا نہ ہو ۔ پھر آپ نے ان تینوں آیتوں کی تلاوت کی ۔ ایک روایت میں آسمان دنیا کا لفظ ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بالشت بھر جگہ آسمانوں میں ایسی نہیں جہاں پر کسی نہ کسی فرشتے کے قدم یا پیشانی نہ ہو ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے تو مرد عورت ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد مردوں کو آگے بڑھا دیا گیا اور عورتوں کو پیچھے کر دیا گیا اور ہم سب فرشتے صفہ بستہ عبادت اللہ کی کیا کرتے ہیں ( وَالصّــٰۗفّٰتِ صَفًّا Ǻۙ ) 37- الصافات:1 ) کی تفسیر میں اس کا بیان گذر چکا ہے ۔ ولید بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے تک نماز کی صفیں نہیں تھیں پھر صفیں مقرر ہو گئیں ۔ حضرت عمر اقامت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے تھے صفیں ٹھیک درست کر لو سیدھے کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے بھی فرشتوں کی طرف صف بندی چاہتا ہے ۔ جیسے وہ فرماتے ہیں ( وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّاۗفُّوْنَ ١٦٥ۚ ) 37- الصافات:165 ) اے فلاں آگے بڑھ اے فلاں پیچھے ہٹ ۔ پھر آپ آگے بڑھ کر نماز شروع کرتے ( ابن ابی حاتم ) صحیح مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہمیں تین فضیلتیں ایسی دی گئی ہیں جن میں اور کوئی ہمارے ساتھ نہیں ۔ ہماری صفیں فرشتوں جیسی بنائی گئیں ۔ ہمارے لئے ساری زمین مسجد بنائی گئی اور ہمارے لئے زمین کی مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی ۔ ہم اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے والے ہیں اس کی بزرگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں ۔ تمام نقصانوں سے اسے پاک مانتے ہیں ۔ ہم سب فرشتے اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے سامنے اپنی پستی اور عاجزی کا اظہار کرنے والے ہیں ۔ پس یہ تینوں اوصاف فرشتوں کے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تسبیح کرنے والوں سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں اور آیت میں ہے ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88ۭ ) 19-مريم:88 ) ، یعنی کفار نے کہا اللہ کی اولاد ہے ، اللہ اس سے پاک ہے البتہ فرشتے اس کے محترم بندے ہیں اس کے فرمان سے آگے نہیں بڑھتے ، اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ان کا آگا پیچھا بخوبی جانتا ہے وہ کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے بجز اس کے جس کے لئے رحمان راضی ہو وہ تو خوف اللہ سے تھرتھراتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے جو اپنے آپ کو لائق عبادت کہے ہم اسے جہنم میں جھونک دیں ظالموں کی سزا ہمارے ہاں یہی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے ، اس سے پہلے تو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی آ جائے جو ہمیں اللہ کی راہ کی تعلیم دیتا اور ہمارے سامنے اگلے لوگوں کے واقعات بطور نصیحت پیش کرتا اور ہمارے پاس کتاب اللہ لے آتا تو یقیناً ہم مخلص مسلمان بن جاتے ۔ جیسی اور آیت میں ہے ( وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ لَّيَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا 42ۙ ) 35- فاطر:42 ) ، یعنی بڑی پختہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر کوئی نبی ہماری موجودگی میں آ جائیں تو ہم بڑے نیک بن جائیں گے اور ہدایت کی راہ کی طرف سب سے پہلے دوڑیں گے لیکن جب نبی اللہ آگئے تو بھاگ کھڑے ہوئے اور آیت میں فرمایا ( اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ ١٥٦ۙ ) 6- الانعام:156 ) ، پس یہاں فرمایا کہ جب یہ تمنا پوری ہوئی تو کفر کرنے لگے ۔ اب انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کفر کرنے کا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ :” عَلَيْهِ “ میں ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے۔ ” فَاتِنِیْنَ “ فتنے میں ڈالنے والے، بہکانے والے۔ ” صَالٍ “ صَلِيَ یَصْلٰی صِلِیًّا “ (س) (داخل ہونا) سے اسم فاعل ہے۔ یعنی اے گروہ کفار و مشرکین تم اور تمہارے باطل معبود کسی کو اللہ تعالیٰ کے خلاف بہکا کر گمراہ نہیں کرسکتے، سوائے اس کے جس نے خود ہی جہنم میں جانے کا تہیہ کر رکھا ہو۔ اس کے مخلص بندوں کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” یعنی تم انسان اور تمہارے شیطان اللہ کی مرضی کے بغیر گمراہ نہیں کرسکتے، گمراہ وہی ہوگا جس کو اس نے دوزخی لکھ دیا۔ “ (موضح)
فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ ١٦١ۙ- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
(١٦١۔ ١٦٣) سو اے اہل مکہ تم بھی اور تمہارے سارے معبود بھی کسی کو عبادت الہی سے نہیں پھیر سکتے مگر وہی ابلیس جو تمہارے ساتھ دوزخ میں بھی جائے گا یا یہ کہ مگر اسی کو جو علم الہی میں جہنم رسیدہ ہونے والا ہے۔
آیت ١٦١ فَاِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ ” پس تم اور جن کو تم پوجتے ہو۔ “