164۔ 1 یعنی اللہ کی عبادت کے لئے۔ یہ فرشتوں کا قول ہے۔
وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبانی ان کا اعتراف ذکر فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں بلکہ اس کے کامل اطاعت گزار بندے اور ہر وقت اس کی عبادت اور تسبیح کرنے والے ہیں۔ یعنی تمہارے اس شرکیہ عقیدے کے مقابلے میں فرشتوں کا اپنا بیان یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرشتے کا ایک مقرر درجہ اور مقام ہے، جس سے آگے ہم نہیں بڑھ سکتے۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنِّي أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ ، أَطَّتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَہَا أَنْ تَءِطَّ مَا فِیْہَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلاَّ وَمَلَکٌ وَاضِعٌ جَبْہَتَہُ سَاجِدًا لِلّٰہِ ، وَاللّٰہِ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا ) [ ترمذي، الزھد، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لو تعلمون ما أعلم۔۔ : ٢٣١٢، و صححہ الألباني، أنظر تراجعات الألباني، ح : ٣٣ ] ” میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چر چرا رہا ہے اور اس کا حق ہے کہ چر چرائے۔ اس میں چار انگلیوں کے برابر جگہ نہیں مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اس میں اپنی پیشانی اللہ کے لیے سجدے میں رکھے ہوئے ہے۔ قسم ہے اللہ کی اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔ “
وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ١٦٤ۙ- مَقامُ- والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379-- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم - «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر :- 380-- واستبّ بعدک يا كليب المجلس - «2» فسمّى المستبّين المجلس .- المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔
(١٦٤۔ ١٦٦) آگے جبریل امین کا قول روایت کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کا آسمان میں ایک درجہ مقرر ہے اور ہم نماز میں صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہم اللہ کی پاکی بیان کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں۔
آیت ١٦٤ وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ” اور ہم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے لیے ایک مقام مقرر ہے۔ “- اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح بادشاہوں کے درباروں میں تمام مقربین و مصاحبین میں سے ہر ایک کا کوئی خاص عہدہ ‘ مقام اور مرتبہ مقرر ہوتا تھا۔ ان میں کوئی پنج ہزاری ہوتا تھا تو کوئی دس ہزاری اور کوئی تیس ہزاری۔ اسی طرح اللہ کے حضور فرشتوں کے بھی الگ الگ مراتب ہیں ‘ جیسے ملائکہ مقربین ‘ ملااعلیٰ ‘ ملائکہ دنیا ‘ ملائکہ اسفل وغیرہ۔ یہاں فرشتوں کا قول نقل ہوا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین ّمقام ہے ‘ اور ہم میں سے جس کا جو درجہ اور مرتبہ مقرر ہے ہم اس سے ذرہ برابر بھی تجاوز کرنے کی مجال نہیں رکھتے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :91 یعنی اللہ کی اولاد ہونا تو درکنار ، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے جس کاجو درجہ اور مرتبہ مقرر ہے اس سے ذرہ برابر تجاوز تک کرنے کی مجال ہم نہیں رکھتے ۔