وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰى حِيْنٍ : تاکید کے لیے بات دوبارہ دہرائی، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور شاید کفار عبرت حاصل کرلیں۔ یہاں صرف ” اَبْصِرْ “ فرمایا، ” أَبْصِرْھُمْ “ نہیں فرمایا، اس لیے کہ پہلے ان کا ذکر ہوچکا ہے، یا اس لیے کہ پہلے صرف کفار مکہ کو دیکھنے کا حکم ہے، اب عموم کے لیے ” ھُمْ “ کو حذف کردیا کہ صرف کفار قریش ہی کو نہیں بلکہ سب جھٹلانے والوں کو اور ان کے ہر حال کو دیکھتے جاؤ، بہت جلد وہ بھی انجام دیکھ لیں گے۔
وَتَوَلَّ عَنْہُمْ حَتّٰى حِيْنٍ ١٧٨ۙ- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔
آیت ١٧٨ وَتَوَلَّ عَنْہُمْ حَتّٰی حِیْنٍ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رخ پھیر لیجیے ان کی طرف سے ایک وقت تک کے لیے۔ “- یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوبارہ ان سے اعراض کرنے کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نہ تو ان کے کفر اور انکار سے رنجیدہ ہوں اور نہ ہی ان کے انجام کے بارے میں فکر مند ہوں۔ قرآن میں اس حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے بار بار فرمایا گیا : وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے معاملے میں بالکل رنجیدہ نہ ہوں اور سورة الشعراء میں تو بہت ہی ُ پرزور انداز میں فرمایا گیا : لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو ‘ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے۔ “