اللہ تعالیٰ مشرکین کے بہتانات سے مبرا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے اپنی برات بیان فرماتا ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ جیسے اولاد شریک وغیرہ ۔ وہ بہت بڑی اور لازوال عزت والا ہے ۔ ان جھوٹے اور مفتری لوگوں کے بہتان سے وہ پاک اور منزہ ہے ۔ اللہ کے رسولوں پر سلام ہے اس لئے کہ ان کی تمام باتیں ان عیوب سے مبرا ہیں جو مشرکوں کی باتوں میں موجود ہیں بلکہ نبیوں کی باتیں اور اوصاف جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیان کرتے ہیں سب صحیح اور برحق ہیں ۔ اسی کی ذات کے لئے تمام حمد و ثناء ہے دنیا اور آخرت میں ابتدا اور انتہاء کا وہی سزا وار تعریف ہے ۔ ہر حال میں قابل حمد وہی ہے ۔ تسبیح سے ہر طرح کے نقصان سے اس کی ذات پاک سے دوری ثابت ہوتی ہے ، تو ثابت ہوتا ہے کہ ہر طرح کے کمالات کی مالک اس کی ذات واحد ہے ۔ اسی کو صاف لفظوں میں حمد ثابت کیا ۔ تاکہ نقصانات کی نفی اور کمالات کا اثبات ہو جائے ۔ ایسے ہی قران کریم کی بہت سی آیتوں میں تسبیح اور حمد کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جب مجھ پر سلام بھیجو اور نبیوں پر بھی سلام بھیجو کیونکہ میں بھی منجملہ اور نبیوں میں سے ایک نبی ہی ہوں ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث مسند میں بھی مروی ہے ۔ ابو یعلی کی ایک ضعیف حدیث میں ہے جب حضور سلام کا ارادہ کرتے تو ان تینوں آیتوں کو پڑھ کرسلام کرتے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو شخص یہ چاہے کہ بھرپور پیمانے سے ناپ کر اجر پائے تو وہ جس کسی مجلس میں ہو وہاں سے اٹھتے ہوئے یہ تینوں آیتیں پڑھ لے اور سند سے یہ روایت حضرت علی سے موقوفاً مروی ہے ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ ان تینوں آیتوں کی تلاوت کرے اسے بھرپور اجر پورے پیمانے سے ناپ کر ملے گا ۔ مجلس کے کفارے کے بارے میں بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ یہ پڑھے ۔ سبحانک اللہھم وبحمدک لا الہ الاانت استغفرک واتوب الیک ۔ میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ۔
180۔ 1 اس میں عیوب و نقائص سے اللہ کے پاکیزہ ہونے کا بیان ہے جو مشرکین اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں، مثلًا اس کی اولاد ہے، یا اس کا کوئی شریک ہے۔ یہ کو تاہیاں بندوں کے اندر ہیں اور اولاد یا شریکوں کے ضرورت مند بھی وہی ہیں، اللہ ان سب باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے۔ کیونکہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے کہ اسے اولاد کی یا کسی شریک کی ضرورت پیش آئے۔
[٩٨] یہ اس سورة کا تتمہ ہے۔ مشرکوں کے شرکیہ عقائد کی مدلل تردید کے بعد نتیجہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کی ذات وصفات کے متعلق ان لوگوں نے جو باتیں گھڑ رکھی ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کچھ عیوب اور نقص لازم آتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ایسے تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ رسولوں پر سلامتی ہو کہ وہ اپنی اپنی قوموں سے دکھ سہہ سہہ کر بھی خالص توحید کی دعوت مسلسل پیش کرتے رہے۔ انہوں نے صرف اللہ کی عیوب سے پاکیزگی کا سبق ہی نہیں دیا بلکہ یہ تعلیم بھی دی کہ ہر طرح اچھی صفات، خوبیاں اور تعریف کی مستحق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ کیونکہ وہی تمام کائنات کا پروردگار ہے۔
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ : چونکہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے متعلق کفار کے برے اقوال، مثلاً اس کی اولاد یا اس کے شرکاء بنانے کا ذکر ہے، اس لیے آخر میں ان کی ایسی تمام باتوں سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کا ذکر فرمایا۔ گویا یہ ان کے شرکیہ عقائد و اقوال کی تردید اور انبیاء اور ان کی اقوام کے احوال کے ذکر کے بعد پوری سورت کا خلاصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق ان لوگوں نے جو باتیں گھڑ رکھی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کوئی عیب یا نقص لازم آتا ہے، اللہ کی ذات ایسے تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے، کیونکہ وہ ساری عزت کا مالک ہے اور رسولوں پر سلام ہے کہ وہ اپنی اپنی قوموں سے تکالیف برداشت کرکے بھی مسلسل اللہ کی توحید پیش کرتے رہے۔ اور ہر بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ جو خوبی اور جو تعریف بھی ہے وہ اللہ کی ہے، کیونکہ وہی تمام جہانوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ کسی اور میں کوئی خوبی ہے تو بھی اسی کی ہے، کیونکہ وہ اسی کی عطا کردہ ہے۔
خلاصہ تفسیر - آپ کا رب جو بڑی عظمت والا ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ (کافر) بیان کرتے ہیں (پس خدا کو ان باتوں سے پاک ہی قرار دو ) اور (پیغمبروں کو واجب الاتباع سمجھو، کیونکہ ہم ان کی شان میں یہ کہتے ہیں کہ) سلام ہو پیغمبروں پر اور (خدا کو شرک وغیرہ سے پاک سمجھنے کے ساتھ ساتھ تمام کمالات کا جامع بھی سمجھو، کیونکہ) تمام تر خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام عالم کا پروردگار (اور مالک) ہے۔- معارف ومسائل - ان آیتوں پر سورة صافات کو ختم کیا گیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس حسین خاتمے کی تشریح کے لئے دفتر چاہئیں۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان تین مختصر آیتوں میں سورت کے جملہ مضامین کو سمیٹ دیا ہے۔ سورت کی ابتداء توحید کے بیان سے ہوئی تھی، جس کا حاصل یہ تھا کہ مشرکین جو جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں، باری تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ چناچہ پہلی آیت میں اسی طویل مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد سورت میں انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بیان کئے گئے تھے، چناچہ دوسری آیت میں ان کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد کھول کھول کر کفار کے عقائد اور شبہات و اعتراضات کی عقلی ونقلی تردید کر کے یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ غلبہ بالآخر اہل حق کو حاصل ہوگا، ان باتوں کو جو شخص بھی عقل و بصیرت کی نگاہ سے پڑھے گا وہ بالآخر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء پر مجبور ہوگا، چناچہ اسی حمد وثناء پر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔- نیز ان آیتوں میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید اور رسالت کا صراحةً اور آخرت کا ضمناً ذکر بھی آ گیا ہے جن کا اثبات سورت کا اصل مقصد تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دے دی گئی ہے کہ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ہر مضمون، ہر خطبے اور ہر مجلس کا اختتام باری تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور اس کی حمد وثناء پر کرے۔ چناچہ علامہ قرطبی نے یہاں اپنی سند سے حضرت ابو سعید خدری (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی بار سنا کہ آپ نماز ختم ہونے کے بعد یہ آیات تلاوت فرماتے تھے : (آیت) سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ الخ (قرطبی) نیز متعدد تفاسیر میں امام بغوی کے حوالہ سے حضرت علی کا یہ قول منقول ہے کہ : ” جو شخص یہ چاہتا ہو کہ قیامت کے دن اسے بھرپور پیمانے سے اجر ملے، اسے چاہئے کہ وہ اپنی ہر مجلس کے آخر میں یہ پڑھا کرے سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ الیٰ آخر السورة، یہی قول ابن ابی حاتم نے حضرت شعبی کی روایت سے مرفوعاً بھی نقل کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)- سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ- بحمد اللہ تعالیٰ آج بتاریخ 17 محرم الحرام 1392 ھ شب یکشنبہ بوقت عشاء، سورة صافات کی تفسیر مکمل ہوئی۔
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ١٨٠ۚ- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔
(١٨٠۔ ١٨١) آپ کا رب جو بڑی عظمت وقدرت والا ہے وہ ان شرکیہ باتوں سے پاک ہے جو یہ کہہ رہے ہیں اور ہماری طرف سے انبیاء کرام پر سلم ہو کہ انہوں نے تبلیغ رسالت کی۔
آیت ١٨٠ سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ” پاک ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ربّ ‘ عزت اور اقتدار کا مالک ‘ ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ “- یَصِفُوْنَ کا مادہ وصف ہے اور اسی مادہ سے لفظ ” صفت “ مشتق ہے۔ اس لفظی مادہ کے حوالے سے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اس سے مشتق مختلف الفاظ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور خوبی بیان کرنے کے لیے احادیث میں تو آئے ہیں لیکن قرآن میں ایجابی اور مثبت طور پر اللہ تعالیٰ کے لیے اس مادہ سے کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے صفاتی نام آئے ہیں اور اس حوالے سے یہ بھی فرمایا گیا : لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰیط (الحشر : ٢٤) ‘ لیکن لفظ ” صفت “ (یا وصف کے مادہ سے مشتق کسی لفظ) کے استعمال سے صراحتاً اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ اس مادہ سے قرآن میں جو بھی الفاظ (یصفون وغیرہ) استعمال ہوئے ہیں وہ لوگوں کے حوالے سے ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے جو اوصاف بیان کر رہے ہیں اور اللہ کے بارے میں جو باتیں بنا رہے ہیں اللہ اس سے پاک اور بلندو برتر ہے۔