19۔ 1 یعنی وہ اللہ کے ایک ہی حکم اور اسرافیل (علیہ السلام) کی ایک ہی پھونک (نفخہ ثانیہ) سے قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑے ہونگے۔ 19۔ 2 یعنی ان کے سامنے قیامت کے ہولناک مناظر اور میدان محشر کی سختیاں ہوں گی جنہیں وہ دیکھیں گے، نفخے یا چیخ کو زجرہ (ڈانٹ) سے تعبیر کیا، کیونکہ اس سے مقصود ڈانٹ ہی ہے
[١١] یعنی تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کا موسم یا وقت وہ ہوگا جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا۔ صور کی آواز بالکل ایک ڈانٹ کی طرح ہوگی۔ جیسے کوئی شخص سوئے ہوئے آدمی کو ڈانٹ کر کہتا ہے اب اٹھتے کیوں نہیں ہو اتنا دن چڑھ آیا ہے۔ تو وہ خواہ کیسی گہری نیند لے رہا ہو، بیدار ہوجاتا ہے۔ یہی تمہاری کیفیت ہوگی۔ اور تمہاری یہ کیفیت اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہوگی۔ یعنی جس طرح تمہاری پیدائش اور تمہاری موت میں تمہاری اپنی مرضی کا کوئی عمل دخل نہ تھا اسی طرح تم دوبارہ جی اٹھنے پر بھی مجبور اور بےبس ہوگے۔
فَاِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ : اس سے مراد دوسرا نفخہ ہے۔ یعنی انھیں دوبارہ اٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ صور کی ایک پھونک ایسی زبردست ڈانٹ اور اٹھ جانے کا اعلان ہوگی کہ سب قبروں سے نکل کر زمین کے اوپر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۔ فَاِذَا هُمْ بالسَّاهِرَةِ ) [ النازعات : ١٣، ١٤ ] ” پس وہ تو صرف ایک ہی ڈانٹ ہوگی۔ پس یک لخت وہ زمین کے اوپر ہوں گے۔ “ - فَاِذَا هُمْ يَنْظُرُوْنَ : یعنی اس ایک ہی ڈانٹ سے سب مردے خواہ مٹی ہوچکے ہوں، یکایک زندہ ہو کر قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔
خلاصہ تفسیر - پس قیامت تو بس ایک للکار ہوگی (یعنی دوسرا صور) سو (اس سے) سب یکایک (زندہ ہو کر) دیکھنے بھالنے لگیں گے اور (حسرت سے) کہیں گے ہائے ہماری کم بختی یہ تو وہی روز جزا (معلوم ہوتا) ہے (ارشاد ہوگا کہ ہاں) یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (آگے قیامت ہی کے بعض واقعات کی تفصیل ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوگا) جمع کرلو ظالموں کو (یعنی جو کفر و شرک کے بانی اور مقتدا تھے) اور ان کے ہم مشربوں کو (یعنی جو ان کے ساتھ تابع تھے) اور ان معبودوں کو جن کی وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے (یعنی شیاطین اور بت) پھر ان سب کو دوزخ کا رستہ بتلاؤ (یعنی ادھر لے جاؤ) اور (پھر یہ حکم ہوگا کہ اچھا) ان کو (ذرا ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھا جائے گا (چنانچہ ان سے یہ سوال ہوگا) کہ اب تم کو کیا ہوا کہ (عذاب کا حکم سن کر) ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے (یعنی کافروں کے بڑے بڑے رہنما انسان ہو یا شیاطین اپنے تابعین کی مدد نہیں کرتے، جس طرح دنیا میں ان کو بہکایا کرتے تھے ؟ مگر سوال کے بعد بھی وہ مدد نہ کرسکیں گے) بلکہ وہ سب کے سب اس روز سرافگندہ (کھڑے) ہوں گے۔- معارف ومسائل - آخرت کے امکان و ثبوت کے بعد باری تعالیٰ نے ان آیتوں میں حشر و نشر کے کچھ واقعات بیان فرمائے ہیں، اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو جو حالات پیش آئیں گے ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔- سب سے پہلی آیت میں مردوں کے زندہ ہونے کا طریق کار بیان فرمایا ہے کہ فانما ھی زجرة واحدة (یعنی قیامت تو بس ایک للکار ہوگی، زجرة کا لفظ زجر کا اسم مرہ ہے اور اس کے عربی زبان میں کئی معنی آتے ہیں۔ ان میں ایک معنی ہیں ” مویشیوں کو چلنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایسی آوازیں نکالنا جنہیں سن کر وہ اٹھ کھڑے ہوں “ یہاں اس سے مراد وہ دوسرا صور ہے جو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرنے کے لئے پھونکیں گے، اور اسے ” زجرة “ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح مویشیوں کو اٹھا کر چلانے کے لئے کچھ آوازیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے کے لئے یہ صور پھونکا جائے گا۔ (تفسیر قرطبی)- اگرچہ باری تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ صور پھونکے بغیر مردوں کو زندہ کر دے، لیکن یہ صور حشر ونشر کے منظر کو پرہیبت بنانے کے لئے پھونکا جائے گا (تفسیر کبیر) اس صور پھونکنے کا اثر کافروں پر یہ ہوگا کہ (آیت) فاذا ھم ینظرون (پس اچانک وہ دیکھنے بھالنے لگیں گے) یعنی جس طرح دنیا میں وہ دیکھنے پر قادر تھے اسی طرح وہاں بھی دیکھ سکیں گے، اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ حیرانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں گے۔ (قرطبی)
فَاِنَّمَا ہِىَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمْ يَنْظُرُوْنَ ١٩- زجر - الزَّجْرُ : طرد بصوت، يقال : زَجَرْتُهُ فَانْزَجَرَ ، قال : فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات 13] ، ثمّ يستعمل في الطّرد تارة، وفي الصّوت أخری. وقوله : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات 2] ، أي : الملائكة التي تَزْجُرُ السّحاب، وقوله : ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر 4] ، أي : طرد ومنع عن ارتکاب المآثم . وقال : وَقالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ [ القمر 9] ، أي : طرد، واستعمال الزّجر فيه لصیاحهم بالمطرود، نحو أن يقال : اعزب وتنحّ ووراءک .- ( زج ر ) الزجر ۔ اصل میں آواز کے ساتھ دھتکارنے کو کہتے ہیں زجرتہ میں نے اسے جھڑکا ، روکا ۔ انزجر ( جھڑکنے پر ) کسی کام سے رک جانا ۔ یہ زجر کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات 13] اور قیامت تو ایک ڈانٹ ہے ۔ پھر کبھی یہ صرف دھتکار دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آواز کیلئے اور آیت کریمہ : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات 2] سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ڈانٹ کر چلاتے ہیں اور آیت :۔ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر 4] جس میں ( کافی ) تنبیہ ہے ۔ میں مزدجر سے ایسی باتیں مراد ہیں جو ارتکاب معاصی سے روکتی اور سختی سے منع کرتی ہیں اور آیت ؛۔ وَازْدُجِرَ [ القمر 9] اور اسے جھڑکیاں دی گئیں ۔ کے معنی ہیں ڈانٹ کر نکال دیا گیا یہاں زجر کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مار بھگانے کے وقت تہدید آمیز کلمات استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے جا چلا جا دور ہوجا وغیرہ ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
(١٩۔ ٢٠) قیامت تو صرف ایک للکار ہوگی یعنی دوسرا صو تو اس سے سب قبروں سے اٹھ کر دیکھنے بھالنے لگیں گے کہ ان کو کیا حکم دیا جارہا ہے۔- اور قبروں سے کھڑے ہونے کے بعد کہیں گے ہائے ہماری کمبختی یہ تو وہی حساب کا دن ہے۔
آیت ١٩ فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمْ یَنْظُرُوْنَ ” بس وہ ایک زور کی ڈانٹ ہوگی ‘ تو جبھی وہ (زندہ ہو کر) دیکھنے لگیں گے۔ “- ہماری طرف سے ایک زور دار ڈانٹ کی صورت میں حکم دیاجائے گا جس کی تعمیل میں تمام انسانوں کے ذرات اجسام آنِ واحد میں مجتمع ہو کر جیتے جاگتے انسانوں کی صورت اختیار کرلیں گے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :12 یعنی جب یہ بات ہونے کا وقت آئے گا تو دنیا کو دوبارہ برپا کر دینا کوئی بڑا لمبا چوڑا کام نہ ہو گا ۔ بس ایک ہی جھڑکی سوتوں کو جگا اٹھانے کے لیے کافی ہو گی ۔ جھڑکی کا لفظ یہاں بہت معنیٰ خیز ہے ، اس سے بعث بعد الموت کا کچھ ایسا نقشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک جو انسان مرے تھے وہ گویا سوتے پڑے ہیں ، یکایک کوئی ڈانٹ کر کہتا ہے اٹھ جاؤ اور بس آن کی آن میں وہ سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔