18۔ 1 جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ( وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ ) 27 ۔ النمل :87) سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے
[١٠] انسان کی دوبارہ زندگی کیسے ؟ کفار مکہ کے اس اعتراض اور انکار کو قرآن میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا جواب بھی کئی طرح سے دیا گیا ہے اس مقام پر بھی مذکور ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے۔ پھر وہ زندہ ہو کر مٹی یا زمین سے جدا نہیں ہوا بلکہ اس کی تمام تر ضروریات مٹی یا زمین ہی سے وابستہ ہیں۔ مر کر بھی وہ اس مٹی میں دفن ہوگا تو جب گل سڑ کر مٹی بن کر مٹی میں مل جائے گا تو زمین اس کے تحلیل شدہ اجزاء نکال کر باہر نہیں پھینک دے گی۔ بلکہ سنبھال کر اپنے اندر محفوظ رکھے گی پھر انہیں تحلیل شدہ اجزاء کو اللہ تعالیٰ پھر سے اکٹھا کرکے ان اجزاء کو اپنی پہلی حالت میں لے آئے گا۔ اس کی روح پہلے ہی مرتے وقت قبض کرلی تھی۔ اور یہی روح اس کا اصل تشخص ہے جو پہلے ہی اللہ کے قبضہ میں ہے۔ یہی روح اس کے جسم میں ڈال کر اسے پھر سے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ رہی یہ بات کہ ان کے آباء و اجداد جو مدتوں پہلے مرچکے ان میں سے کوئی بھی زندہ ہوا نہ ان کے پاس واپس آیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زمین میں پڑا ہوا بیج پڑا ہی رہتا ہے۔ جب اس کے اگنے کا موقع آتا ہے۔ اگتا وہ اسی وقت ہے پہلے نہیں اگتا۔ اسی طرح جب تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کا وقت یا موسم آئے گا اسی وقت تم بھی اور تمہارے آباء و اجداد بھی جی کر زمین سے نکل آؤ گے پہلے نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ دوبارہ زندہ ہو کر تمہارے پاس نہیں آئیں گے بلکہ تم بھی اور وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہوجاؤ گے۔
قُلْ نَعَمْ : یعنی آپ ان سے کہیں ہاں، تم اور تمہارے باپ دادا مٹی اور ہڈیاں ہونے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔- وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ : ” دَخَرَ یَدْخَرُ دُخُوْرًا “ (ف) ذلیل اور حقیر ہونا۔ یعنی تم اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ اللہ عزوجل کی قدرت کے سامنے بےبس اور حقیر ہو گے۔ تمہارا اٹھنا اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہوگا، یعنی جس طرح تمہاری پیدائش اور موت میں تمہاری اپنی مرضی کا کوئی عمل دخل نہ تھا، اسی طرح تم دوبارہ جی اٹھنے پر بھی مجبور اور بےبس ہو گے، جیسا کہ فرمایا : (وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ ) [ النمل : ٨٧ ] ” اور وہ سب اس کے پاس ذلیل ہو کر آئیں گے۔ “
قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ١٨ۚ- نعم (هاں)- و «نَعَمْ» كلمةٌ للإيجابِ من لفظ النِّعْمَة، تقول : نَعَمْ ونُعْمَةُ عَيْنٍ ونُعْمَى عَيْنٍ ونُعَامُ عَيْنٍ ، ويصحُّ أن يكون من لفظ أَنْعَمَ منه، أي : أَلْيَنَ وأَسْهَلَ.- نعم یہ کلمہ ایجاب ہے اور لفظ نعمت سے مشتق ہے ۔ اور نعم ونعمۃ عین ونعمیٰ عین ونعام عین وغیرہ ان سب کا ماخز نعمت ہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام مرکبات انعم سے ماخوذ ہوں جس کے معنی نرم اور سہل بنانے کے ہیں ۔- دخر - قال تعالی: وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل 48] ، أي : أذلّاء، يقال : أدخرته فَدَخَرَ ، أي :- أذللته فذلّ ، وعلی ذلک قوله : إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر 60] ، وقوله : يَدَّخِرُ أصله : يذتخر، ولیس من هذا الباب .- ( د خ ر ) الدخور - والد خور ۔ ( ف ) س ) کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے ذلیل کیا تو وہ ذلیں ہوگیا قرآن میں ہے وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل 48] اور وہ ذلیل ہوکر إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر 60] جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیا تے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے ۔ اور یدخر اصل میں یذ تخر تھا ( پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا پھر ذال کو دال کو دال میں ادغام کرکے یدخر بنالیا اور یہ اس باب ( د خ ر ) سے نہیں ہے ۔
آیت ١٨ قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے : ہاں (تم اٹھائے بھی جائو گے) اور تم ذلیل بھی ہوگے۔ “- نہ صرف تم سب کو اٹھا لیا جائے گا بلکہ اس وقت تمہیں اپنے اس کفر اور انکار کے باعث ذلت و خواری کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :11 یعنی اللہ جو کچھ بھی تمہیں بنانا چاہے بنا سکتا ہے ۔ جب اس نے چاہا اس کے ایک اشارے پر تم وجود میں آ گئے ۔ جب وہ چاہے گا اس کے ایک اشارے پر تم مر جاؤ گے ۔ اور پھر جس وقت بھی وہ چاہے گا اس کا ایک اشارہ تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا ۔