فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا : ” فاء “ اس بات کی دلیل ہے کہ ان سے مراد بھی فرشتے ہیں، جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہے۔ ” زَجْرًا “ تاکید کے لیے ہے، یعنی پھر ان فرشتوں کی قسم جن کی ڈانٹ معمولی نہیں بلکہ ایسی زبردست ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات، خواہ کتنی بےپناہ قوت کی مالک ہوں، ان کے سامنے دم نہیں مار سکتیں، مثلاً موت کے فرشتے۔ (دیکھیے انعام : ٩٣) ہواؤں اور بادلوں پر مامور فرشتے جو انھیں ہانکتے اور چلاتے ہیں۔ (دیکھیے رعد : ١٣) پہاڑوں پر مامور فرشتہ، جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طائف سے واپسی پر اللہ کے حکم سے آپ کو پیش کش کی کہ اگر آپ فرمائیں تو میں آپ کی قوم کے کفار کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر ملیامیٹ کر دوں۔ صور میں پھونکنے والا فرشتہ، جس کی ایک ہی ڈانٹ سے تمام لوگ قبروں سے نکل کر زمین کے اوپر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۔ فَاِذَا هُمْ بالسَّاهِرَةِ ) [ النازعات : ١٣، ١٤] ” پس وہ تو صرف ایک ہی ڈانٹ ہوگی۔ پس یک لخت وہ زمین کے اوپر موجود ہوں گے۔ “
فرشتوں کی دوسری صفت فالزجرأت زجراً بیان کی گئی ہے۔ یہ لفظ ” زجر “ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں روکنا، ڈانٹنا، پھٹکارنا۔ حضرت تھانوی نے اس کا ترجمہ ” بندش کرنیوالے “ سے کیا ہے، جو لفظ کے ہر ممکن مفہوم کو جامع ہے۔ فرشتے کس چیز پر بندش عائد کرتے ہیں ؟ قرآن کریم کے سیاق کے پیش نظر زیادہ تر مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہاں ” بندش عائد کرنے سے “ مراد فرشتوں کا وہ عمل ہے جس کے ذریعہ وہ شیاطین کو عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں، اور جس کا تفصیلی ذکر خود قرآن کریم میں آگے آ رہا ہے۔
فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا ٢ۙ- زجر - الزَّجْرُ : طرد بصوت، يقال : زَجَرْتُهُ فَانْزَجَرَ ، قال : فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات 13] ، ثمّ يستعمل في الطّرد تارة، وفي الصّوت أخری. وقوله : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات 2] ، أي : الملائكة التي تَزْجُرُ السّحاب، وقوله : ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر 4] ، أي : طرد ومنع عن ارتکاب المآثم . وقال : وَقالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ [ القمر 9] ، أي : طرد، واستعمال الزّجر فيه لصیاحهم بالمطرود، نحو أن يقال : اعزب وتنحّ ووراءک .- ( زج ر ) الزجر ۔ اصل میں آواز کے ساتھ دھتکارنے کو کہتے ہیں زجرتہ میں نے اسے جھڑکا ، روکا ۔ انزجر ( جھڑکنے پر ) کسی کام سے رک جانا ۔ یہ زجر کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات 13] اور قیامت تو ایک ڈانٹ ہے ۔ پھر کبھی یہ صرف دھتکار دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آواز کیلئے اور آیت کریمہ : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات 2] سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ڈانٹ کر چلاتے ہیں اور آیت :۔ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر 4] جس میں ( کافی ) تنبیہ ہے ۔ میں مزدجر سے ایسی باتیں مراد ہیں جو ارتکاب معاصی سے روکتی اور سختی سے منع کرتی ہیں اور آیت ؛۔ وَازْدُجِرَ [ القمر 9] اور اسے جھڑکیاں دی گئیں ۔ کے معنی ہیں ڈانٹ کر نکال دیا گیا یہاں زجر کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مار بھگانے کے وقت تہدید آمیز کلمات استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے جا چلا جا دور ہوجا وغیرہ ۔
آیت ٢ فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا ” پھر قسم ہے ان کی جو ڈانٹنے والے ہیں۔ “- یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بستی پر عذاب کا حکم دیتا ہے تو فرشتوں کی ایک ڈانٹ (صَیحَۃ) سے وہ بستی تباہ اور متعلقہ قوم ہلاک ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں ایک قوم کے بارے میں فرمایا گیا : اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ ” وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ تو اسی وقت وہ سب بجھ کر رہ گئے۔ “
3: یعنی وہ فرشتے شیطانوں کو عالم بالا میں داخل ہونے اور شرارت کرنے سے روکتے ہیں۔