فرشتوں کا تذکرہ ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں ۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں ۔ مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے ۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں ۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے ۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے ۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ہم سے فرمایا تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں ۔ ہم نے کہا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں ۔ ڈانٹنے والوں سے مراد سدی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں ۔ ربیع بن انس وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں ۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے ( فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا Ĉ ۙ ) 77- المرسلات:5 ) یعنی وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔ ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود بر حق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے ۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے ، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں ۔ مشرقوں کا ذکر کرکے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ۔ دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے ( رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ 17ۚ ) 55- الرحمن:17 ) یعنی جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے ۔
وَالصّــٰۗفّٰتِ صَفًّا : قسم عموماً تاکید کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جب مخاطب کسی بات کا منکر ہو۔ بعض اوقات کسی بات کی عظمت اور اہمیت واضح کرنے کے لیے بھی قسم اٹھائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی اکثر قسموں پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قسم عموماً اس بات کی دلیل ہوتی ہے جو قسم کے بعد بیان ہوتی ہے۔ ” الصّــٰۗفّٰتِ “ ” صَافَّۃٌ“ کی جمع ہے، صف بنانے والی جماعت۔ ان جماعتوں سے اکثر مفسرین نے فرشتے مراد لیے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفت خود ان کی زبانی بیان فرمائی ہے، فرمایا : (وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّاۗفُّوْنَ ۔ وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ ) [ الصافات : ١٦٥، ١٦٦ ] ” اور بلاشبہ ہم، یقیناً ہم صف باندھنے والے ہیں۔ اور بلاشبہ ہم، یقیناً ہم تسبیح کرنے والے ہیں۔ “ حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلاَثٍ ، جُعِلَتْ صُفُوْفُنَا کَصُفُوْفِ الْمَلَاءِکَۃِ وَ جُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ کُلُّہَا مَسْجِدًا وَ جُعِلَتْ تُرْبَتُہَا لَنَا طَہُوْرًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ ) [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ : ٥٢٢ ] ” ہمیں دوسرے لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں اور ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے اور ہمارے لیے اس کی مٹی پاک کرنے والی بنادی گئی ہے جب ہمیں پانی نہ ملے۔ “ اور جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلَا تَصُفُّوْنَ کَمَا تَصُفُّ الْمَلَاءِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا ؟ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ تَصُفُّ الْمَلَاءِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا ؟ قَالَ یُتِمُّوْنَ الصُّفُوْفَ الْأُوَلَ وَیَتَرَاصُّوْنَ فِي الصَّفِّ ) [ مسلم، الصلاۃ، باب الأمر بالسکون في الصلاۃ۔۔ : ٤٣٠ ] ” کیا تم اس طرح صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں ؟ “ ہم نے کہا : ” اے اللہ کے رسول فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صفیں بناتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ (پہلے) پہلی صفیں مکمل کرتے ہیں اور صف میں چونا گچ ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - قسم ہے ان فرشتوں کی جو (عبادت میں یا حق تعالیٰ کا حکم سننے کے وقت) صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں (جیسا اسی سورت میں آگے آئے گا وانا لنحن الصافون) پھر (قسم ہے) ان فرشتوں کی جو (شہاب ثاقب کے ذریعہ آسمانی خبریں لانے سے شیاطین کی) بندش کرنے والے ہیں (جیسا کہ اسی سورت میں عنقریب آ رہا ہے) پھر (قسم ہے) ان فرشتوں کی جو ذکر (الٰہی تسبیح و تقدیس) کی تلاوت کرنے والے ہیں (جیسا کہ اسی سورت میں آئے گا، وانا لنحن المسبحون، غرض ان سب کی قسم کھا کر کہتے ہیں) کہ تمہارا معبود (برحق) ایک ہے (اور اس توحید کی دلیل یہ ہے کہ وہ) پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے (یعنی ان کا مالک اور متصرف) اور پروردگار ہے (سب ستاروں کے) طلوع کرنے کے مواقع کا (اور) ہم ہی نے رونق دی ہے اس طرف والے آسمان کو ایک عجیب آرائش یعنی ستاروں کے ساتھ اور (انہی ستاروں کے ساتھ اس آسمان کی یعنی اس کی خبروں کی) حفاظت بھی کی ہے ہر شریر شیطان سے (جس کا طریقہ آگے بیان کیا گیا ہے۔ اور اسی حفاظت کے انتظام کی وجہ سے) وہ شیاطین عالم بالا (یعنی ملائکہ) کی (باتوں کی) طرف کان بھی نہیں لگا سکتے (یعنی اکثر تو مار کھانے کے ڈر سے دور ہی دور رہتے ہیں) اور (اگر کبھی اتفاقاً اس کی کوشش کرتے بھی ہیں تو) وہ ہر طرف سے (یعنی جس طرف بھی جو شیطان جائے) مار کر دھکے دے دیئے جاتے ہیں (یہ عذاب اور ذلت تو انہیں فی الحال ملتی ہے) اور (پھر آخرت میں) ان کے لئے (جہنم کا) دائمی عذاب ہوگا (غرض کوئی آسمانی خبر سننے سے پہلے ہی انہیں مار بھگایا جاتا ہے، وہ سننے کا ارادہ لے کر آتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں) مگر جو شیطان کچھ خبر لے ہی بھاگے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ لیتا ہے (کہ اس کو جلا کر پھونک دیتا ہے، لہٰذا جو کچھ سنا ہے اسے دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ تمام تر انتظامات وتصرفات توحید خداوندی پر دلالت کرتے ہیں)- معارف ومسائل - سورت کے مضامین :- یہ سورت مکی ہے، اور دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا بنیادی موضوع بھی ایمانیات ہیں اور اس میں توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد کو مختلف طریقوں سے مدلل کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مشرکین کے عقائد کی تردید بھی ہے، اور آخرت میں جنت دوزخ کے حالات کی منظر کشی بھی۔ جو عقائد تمام انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت میں شامل رہے ان کو مدلل کرنے اور کفار کے شبہات و اعتراض کو دور کرنے کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ماضی میں جن لوگوں نے ان عقائد کو تسلیم کیا ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ کیا رہا ؟ اور جنہوں نے کفر و شرک کی راہ اختیار کی ان کا کیا انجام ہوا ؟ چناچہ اس ضمن میں حضرت نوح، حضرت ابراہیم، اور ان کے صاحبزادگان، حضرت موسیٰ و ہارون حضرت الیاس، حضرت لوط اور حضرت یونس (علیہم السلام) کے واقعات کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں۔- مشرکین مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، آخر میں اس عقیدے کی مفصل تردید کی گئی ہے۔ اور سورت کے مجموعی طرز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں شرکت کی اس خاص قسم (یعنی فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینے) کی تردید بطور خاص پیش نظر رہی ہے۔ اسی لئے سورت کو فرشتوں کی قسم کھا کر اور ان کے اوصاف بندگی کو ذکر کر کے شروع کیا گیا ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔ - پہلا مضمون توحید :- سورت کو عقیدہ توحید کے بیان سے شروع کیا گیا ہے۔ اور پہلی چار آیتوں کا اصل مقصد یہ بیان کرتا ہے کہ (آیت) ان الہکم لواحد (بلاشبہ تمہارا معبود ایک ہے) لیکن اس بات کو بیان کرنے سے پہلے تین قسمیں کھائی گئی ہیں۔ ان قسموں کا ٹھیٹھ لفظی ترجمہ یہ ہے :- ” قسم صف باندھ کر کھڑے ہونے والوں کی، پھر قسم بندش کرنیوالوں کی، پھر قسم ذکر کی تلاوت کرنے والوں کی “- یہ ” صف باندھ کر کھڑے ہونیوالے “ ، ” بندش کرنیوالے “ اور ” ذکر کی تلاوت کرنیوالے “ کون ہیں ؟ قرآن کریم کے الفاظ میں اس کی صراحت نہیں ہے، اس لئے اس کی تفسیر میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ان سے مراد اللہ کے راستے میں جہاد کرنیوالے وہ غازی ہیں جو صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں تاکہ باطل کی قوتوں پر ” بندش “ لگائیں اور صف آرا ہوتے وقت ” ذکر “ و تسبیح اور تلاوت قرآن میں بھی مشغول رہتے ہیں۔- بعض نے کہا کہ ان سے مراد وہ نمازی ہیں جو مسجد میں صف باندھ کر شیطانی افکار و اعمال پر ” بندش “ عائد کرتے ہیں، اور اپنا پورا دھیان ” ذکر و تلاوت “ پر مرکوز کردیتے ہیں۔ (تفسیر کبیر و قرطبی) اور اس کے علاوہ بھی بعض تفسیریں بیان کی گئی ہیں، جو الفاظ قرآن کے ساتھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتیں۔- لیکن جمہور مفسرین کے یہاں جس تفسیر کو سب سے زیادہ قبول عام حاصل ہوا۔ وہ یہ ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں، اور یہاں ان کی تین صفات بیان کی گئی ہیں :- پہلی صفت الصفٰت صفا ہے۔ یہ لفظ ” صف “ سے نکلا ہے اور اس کے معنی ہیں ” کسی جمعیت کو ایک خط پر استوار کرنا “ (قرطبی) لہٰذا اس کے معنی ہوئے ” صف باندھ کر کھڑے ہونے والے “- فرشتوں کی صف بندی کا ذکر اسی سورت میں آگے چل کر بھی آیا ہے۔ فرشتے خود اپنے بارے میں کہتے ہیں و انا لنحن الصافون ”(یعنی بلاشبہ ہم سب صف باندھے کھڑے رہتے ہیں “ ) یہ صف بندی کب ہوتی ہے ؟ اس کے جواب میں بعض حضرات مفسرین مثلاً حضرت ابن عباس، حسن بصری اور قتادہ نے یہ فرمایا کہ فرشتے ہمیشہ فضا میں صف باندھے اللہ کے حکم کے لئے گوش بر آواز رہتے ہیں، اور جب کوئی حکم ملتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ (مظہری) اور بعض حضرات نے اسے عبادت کے وقت کے ساتھ مخصوص کیا ہے، یعنی جب فرشتے عبادت اور ذکر و تسبیح میں مشغول ہوتے ہیں تو صف باندھ لیتے ہیں۔ (تفسیر کبیر) - نظم و ضبط دین میں مطلوب ہے :- اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر کام میں نظم و ضبط اور ترتیب وسلیقہ کا لحاظ رکھنا دین میں مطلوب اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یا اس کے احکام کی تعمیل، یہ دونوں مقصد اس طرح بھی حاصل ہو سکتے تھے کہ فرشتے صف باندھنے کے بجائے ایک غیر منظم بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجایا کریں، لیکن اس بدنظمی کے بجائے انہیں صف بندی کی توفیق دی گئی، اور اس آیت میں ان کے اچھے اوصاف میں سب سے پہلے اسی وصف کو ذکر کر کے بتادیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند ہے۔- نماز میں صفوف کی درستی اور اس کی اہمیت :- چنانچہ انسانوں کو بھی عبادت کے دوران اس صف بندی کی ترغیب و تاکید کی گئی ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا : ” تم (نماز میں) اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور کرتے ہیں ؟ “ صحابہ نے پوچھا : ” فرشتے اپنے رب کے حضور کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟ “ آپ نے جواب دیا : ” وہ صفوں کو پورا کرتے ہیں اور صف میں پیوست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں (یعنی بیچ میں خالی جگہ نہیں چھوڑتے) “ - (تفسیر مظہری)- نماز میں صفوں کو پورا کرنے اور سیدھا رکھنے کی تاکید میں اتنی احادیث وارد ہوئی ہیں کہ ان سے ایک پورا رسالہ بن سکتا ہے۔ حضرت ابو مسعود بدری فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں ہمارے کندھوں کو ہاتھ لگا کر فرمایا کرتے تھے : ” سیدھے رہو، آگے پیچھے مت ہو، تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔ “ (جمع الفوائد بحوالہ مسلم و نسائی ص ٢٩ ج ١)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَالصّٰۗفّٰتِ صَفًّا ١ۙ- صف - الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً- [ طه 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ :- ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف .- ( ص ف ف ) الصف - ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔
(١۔ ٤) قسم ہے ان فرشتوں کی جو آسمان میں اس طرح صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسا کہ مومنین نماز میں کھڑے ہوتے ہیں۔- اور پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو کہ ذکر الہی کی تلاوت کرتے ہیں یا یہ کہ تلاوت قرآن حکیم کی قسم ہے۔
آیت ١ وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ” قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو قطار در قطار صفیں باندھے حاضر رہتے ہیں۔ “- گویا وہ بارگاہِ خداوندی میں ہمہ وقت حاضر رہنے والے خادمین ہیں جو احکامات کی تعمیل کے لیے ہر لمحہ کمربستہ رہتے ہیں۔
1: اﷲ تعالیٰ کو اپنی کسی بات کی تصدیق کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ نے مختلف چیزوں کی جو قسمیں کھائی ہیں، وہ اوّل تو عربی زبان کی فصاحت وبلاغت کا ایک اُسلوب ہے جس سے کلام میں زور اور تأثیر پیدا ہوتی ہے، دُوسرے جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے، اُن پر اگر غور کیا جائے تو وہ اُس دعوے کی دلیل ہوتی ہے جو اِن قسموں کے بعد مذکور ہوتا ہے اور ہمارے لئے جائز نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کے سوا کسی اور چیز کی قسم کھائیں۔ 2: اکثر مفسرین کے مطابق اس سے مراد فرشتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے وقت یا اﷲ تعالیٰ کا حکم سننے کے لئے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، لیکن الفاظ میں فرشتوں کا نام نہیں لیا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے یہ ہدایت دینی مقصود ہے کہ کسی اجتماعی کام کے وقت لوگوں کا ایک غیر منظّم بھیڑ کی شکل میں جمع ہونا اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے، بلکہ ایسے موقع پر صف اور قطار بنا کر نظم و ضبط کا مظاہرہ اﷲ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اسی لئے نماز میں بھی صف بندی کی بڑی تاکید کی گئی ہے، او رجہاد کے وقت بھی صف بنانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔