[١٥] مطیع اور مطاع کا قیامت کے دن مکالمہ :۔ ایسے عابد اور معبود جنہیں جہنم میں داخل کردینے کا حکم دیا جائے گا۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ انہیں ذرا روک لو پہلے ان سے ایک بات تو پوچھ لیں۔ ان مجرموں میں ہر قسم کے عابد اور ہر قسم کے معبود ہوں گے۔ مشرکین اور ان کے معبودوں کا تو پہلے ذکر ہوچکا۔ ان میں چودھری اور رئیس بھی ہوں گے اور ان کے پیروکار بھی، سیاسی لیڈر بھی اور ان کی پارٹی کے لوگ بھی۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے اور خدائی کو منوانے والے بھی اور ماننے والے بھی۔ گورو جی اور ان کے چیلے چانٹے بھی، اعلیٰ حضرت بھی اور ان کی شفاعت پر بھروسہ کرنے والے مریدان باصفا بھی۔ اور یہ سب جوڑے اس دن ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہونگے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ آج تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ آج تم ایک دوسرے سے بےتعلق کیوں ہوگئے ہو۔ اور وہ تمہاری شیخیاں اور تمہارے بلند بانگ دعوے کہاں گئے دنیا میں جو تم نے آپس میں مل کر جتھے بنا رکھے تھے یا ایک دوسرے کی مدد کے دعوٰے کیا کرتے تھے۔ آج وہ تمہارے وعدے کہاں گئے انہیں پورا کیوں نہیں کرتے ؟
مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ :” تَنَاصَرُوْنَ “ (تفاعل) اصل میں ” تَتَنَاصَرُوْنَ “ ہے، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کردی ہے۔ باب تفاعل میں تشارک ہوتا ہے، ” تَنَاصَرَ “ ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ اعمال کے محاسبے کے ساتھ ساتھ انھیں ذلیل کرنے کے لیے اور ان کے خداؤں کی بےبسی ظاہر کرنے کے لیے ایک سوال یہ ہوگا کہ تم تو کہا کرتے تھے : (اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَــصِرٌ) [ القمر : ٤٤ ] ” ہم ایک جماعت ہیں جو بدلا لے کر رہنے والے ہیں۔ “ یا جیسا کہ تمہارا دعویٰ تھا کہ قیامت کے دن ہمارے معبود ہمیں بچا لیں گے، اب تمہیں کیا ہوا کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کر رہے ؟
مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ ٢٥- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
(٢٥۔ ٣٠) ان سے اس چیز کے بارے میں سوال ہوگا۔ کہ اب تمہیں کیا ہوا کہ اب تم عذاب الہی کو کیوں نہیں ہٹاتے اور کیا ہوا کہ تم ایک دوسرے کی کیوں نہیں مدد کرتے یا یہ کہ ان سے کلمہ لا الہ الا للہ کے انکار کے بارے میں سوال ہوگا۔ بلکہ قیامت کے دن یہ سب عابد و معبود اللہ کے سامنے سر نیچے کیے شرمندہ کھڑے ہوں گے اور اچھی طرح جان لیں گے کہ حق اللہ ہی کے لیے ہے اور انسان شیاطین کی طرف اور ادنی درجہ کے لوگ سرداروں کی طرف متوجہ ہو کر سوال جواب کرنے لگیں گے۔- چناچہ انسان شیاطین سے کہیں گے کہ تم ہمیں دین سے گمراہ کرتے تھے۔ شیاطین جواب میں کہیں گے بلکہ تم خود ہی اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائے تھے ہم پر ناحق کا الزام ہے ہمارا تم پر کوئی زور تو تھا ہی نہیں کہ تم سے زبردستی کرسکتے بلکہ تم خود ہی اللہ کا انکار کرتے تھے۔
آیت ٢٥ مَالَـکُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ ” یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ‘ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کر رہے ہو ؟ “- دُنیا میں تو تمہارے جتھے ّبہت طاقتور تھے ‘ وہاں تو تمہیں اپنی محفلوں اور ان کے شرکاء پر بڑا غرور تھا ‘ وہاں تو یہ ابو جہل بہت فخر سے کہا کرتا تھا کہ دیکھو میری مجلس کس قدر آباد ہے (مریم : ٧٣) اور دیکھو میرے ہاں کیسے کیسے لوگ آکر بیٹھتے ہیں۔ تو آج وہ تمہارے جتھے دار اور حمایتی سب کے سب بےبس کیوں ہوگئے ہیں ؟ اب تم ایک ہی حکم پر جہنم کی طرف کیوں چل پڑے ہو ؟ اب تم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کر رہے ہو ؟