Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے مشرک اور شر و فساد ان سب کا وطیرہ تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِنَّهُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ : یعنی پیروی کرنے والے بھی اور پیشوا بھی، گمراہ ہونے والے بھی اور گمراہ کرنے والے بھی، سب اپنی اپنی گمراہی کے مطابق عذاب میں شریک ہوں گے، جیسے گمراہی میں شریک تھے۔ کسی کا کوئی عذر قبول کر کے اسے معافی نہیں دی جائے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(٢) (آیت) فانھم یومئذ فی العذاب مشترکون سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ناجائز کام کی دعوت دے اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تو اسے دعوت گناہ کا عذاب تو بیشک ہوگا، لیکن جس شخص نے اس کو دعوت کو اپنے اختیار سے قبول کرلیا وہ بھی اپنے عمل سے بری نہیں ہو سکتا۔ وہ آخرت میں یہ کہہ کر چھٹکارا نہیں پاسکتا کہ مجھے تو فلاں شخص نے گمراہ کیا تھا، ہاں اگر اس نے گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے نہ کیا ہو بلکہ جبر واکراہ کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لئے کرلیا ہو تو انشاء اللہ اس کی معافی کی امید ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّہُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ۝ ٣٣- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ فَاِنَّہُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ ” تو اس دن وہ سب کے سب عذاب میں شریک ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :20 یعنی پیرو بھی اور پیشوا بھی ، گمراہ کرنے والے بھی اور گمراہ ہونے والے بھی ، ایک ہی عذاب میں شریک ہوں گے ۔ نہ پیروؤں کا یہ عذر مسموع ہو گا کہ وہ خود گمراہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کیا گیا تھا ۔ اور نہ پیشواؤں کی اس معذرت کو قبول کیا جائے گا کہ گمراہ ہونے والے خود ہی راہ راست کے طالب نہ تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani