Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 فرشتوں کی صفات ہیں۔ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ، وعظ و نصیحت کے ذریعے سے لوگوں کو ڈانٹنے والے یا بادلوں کو جہاں اللہ کا حکم ہو وہاں ہانک کرلے جانے والے اللہ کے ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنے والے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے مضموں میں یہ فرمایا ہے کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں جیسا کہ مشرکین بنائے ہوئے ہیں۔ عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئے کھائی ہے جو مشرکین اسکی واحدنیت و الوہیت کے بارے میں پھلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر چیز کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ قسم میں جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] قرآن اللہ کا کلام اور کائنات اس کا فعل ہے ان دونوں میں تضاد ناممکن ہے :۔ ان تینوں قسم کے فرشتوں کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تمہارا معبود حقیقی ایک ہی ہے یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور ذکر یا قرآن اللہ تعالیٰ کا قول یا کلام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل میں نہ اختلاف ہوسکتا ہے اور نہ تضاد۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ معبود حقیقی صرف ایک ہی ہوسکتا ہے تو لامحالہ اس کائنات کے مربوط اور منظم نظام پر غور کرنے کے بعد بھی ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسری کی تائید و توثیق کرتی ہیں اور ان میں پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ نظام کائنات میں وہ کیا کیا قابل غور باتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ معبود حقیقی یا پروردگار صرف ایک ہی ہوسکتا ہے، قرآن میں بیشمار مقامات پر مذکور ہیں جن میں سے چند باتوں کا ذکر آگے بھی آرہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اِلٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ : یعنی اللہ کے حکم سے کائنات کا نظام چلانے والے فرشتے، جو اس کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور جن کی ڈانٹ سے زمین و آسمان کے معاملات کی تدبیر ہوتی ہے اور جو پیغمبروں پر وحی نازل کرتے ہیں اور ذکر الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں، یہ سب فرشتے شاہد اور دلیل ہیں کہ کائنات کا معبود حقیقی ایک ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایک نہ ہو تو یہ کائنات ایک لمحے کے لیے قائم نہیں رہ سکتی، بلکہ ایک دوسرے سے ٹکڑا کر فنا ہوجائے گی، جیسا کہ فرمایا : (لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا) [ الأنبیاء : ٢٢ ] ” اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔ “ شاہ عبدالقادر (رض) نے ان تینوں آیات کی ایک اور بہت عمدہ تفسیر فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں : ” فرشتے کھڑے ہوتے ہیں قطار ہو کر سننے کو حکم اللہ کا، پھر جھڑکتے ہیں شیطانوں کو جو سننے کو جا لگتے ہیں، پھر جب اتر چکا، تو اس کو پڑھتے ہیں ایک دوسرے کو سنانے کو۔ “ (موضح) اگلی آیات میں اس دعوے کی مزید دلیلیں بیان فرمائی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یہاں قرآن کریم نے فرشتوں کی یہ تین صفات ذکر کر کے بندگی کے تمام اوصاف کو جمع کردیا ہے۔ یعنی عبادت کے لئے صف بستہ رہنا، طاغوتی طاقتوں کو اللہ کی نافرمانی سے روکنا، اور اللہ کے احکام و مواعظ کو خود پڑھنا اور دوسروں کو پہنچانا۔ اور ظاہر ہے۔ بندگی کا کوئی عمل ان تین شعبوں سے خالی نہیں ہو سکتا، لہٰذا چاروں کا مفہوم یہ ہوگیا کہ ” جو فرشتے تمام اوصاف بندگی کے حامل ہیں ان کی قسم، تمہارا معبود برحق ایک ہی ہے۔ “- فرشتوں کی قسم کیوں کھائی گئی ؟- اس سورت میں خاص طور پر فرشتوں کی قسم کھانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔ اس سورت کا مرکزی موضوع شرک کی اس خاص قسم کی تردید ہے جس کے تحت اہل مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ چناچہ سورت کی ابتداء ہی میں فرشتوں کی قسم کھا کر ان کے وہ اوصاف بیان کردیئے گئے جن سے ان کی مکمل بندگی کا اظہار ہوتا ہے۔ گویا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کے ان اوصاف بندگی پر غور کرو گے تو وہ خود تمہارے سامنے اس بات کی گواہی دیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا رشتہ باپ بیٹی کا نہیں، بلکہ بندہ و آقا کا ہے۔- حق تعالیٰ کا قسم کھانا اور اس کے متعلق احکام اور سوال و جواب :- قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے ایمان و عقائد کے بہت سے اصولی مسائل کی تاکید کے لئے مختلف طرح کی قسم کھائی ہے، کبھی اپنی ذات کی، کبھی اپنی مخلوقات میں سے خاص خاص اشیاء کی۔ اس کے متعلق بہت سے سوالات ہوتے ہیں۔ اسی لئے قرآن شریف کی تفسیر میں یہ ایک مستقل اصولی مسئلہ بن گیا ہے۔ حافظ ابن قیم نے اس پر ایک مستقل کتاب ” التبیان فی اقسام القرآن “ لکھی ہے۔ علامہ سیوطی نے اپنی اصول تفسیر کی کتاب ” اتقان “ میں مباحث کی سرسٹھویں نوع اس کو قرار دے کر مفصل کلام کیا ہے۔ یہاں کچھ ضروری اجزاء لکھے جاتے ہیں۔- پہلا سوال :- اللہ تعالیٰ کی قسم کھانے میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اغنی الاغنیاء ہیں، ان کو کیا ضرورت ہے کہ کسی کو یقین دلانے کیلئے قسم کھائیں ؟- اتقان میں ابوالقاسم تشیری سے اس سوال کے جواب میں یہ مذکور ہے کہ حق تعالیٰ کو تو کوئی ضرورت قسم کھانے کی نہ تھی، مگر اس کو جو شفقت و رحمت اپنی مخلوق پر ہے وہ اس کی داعی ہوئی کہ کسی طرح یہ لوگ حق کو قبول کریں اور عذاب سے بچ جائیں۔ ایک اعرابی نے جب ( آیت) وفی السماء و رزقکم وما تو عدون، فورب السماء والارض انہ لحق، سنی تو کہنے لگا کہ اللہ جیسی عظیم الشان ہستی کو کس نے ناراض کیا ہے کہ اس کو قسم کھانے پر مجبور کردیا۔- خلاصہ یہ ہے کہ شفقت علی الخلق اس کی داعی ہے کہ جس طرح دنیا کے جھگڑے چکانے اور اختلافات مٹانے کا معروف طریقہ یہ ہے کہ دعوے پر شہادت پیش کی جائے شہادت نہ ہو تو قسم کھائی جائے، اسی طرح حق تعالیٰ نے انسان کے اس مانوس طریقہ کو اختیار فرمایا ہے کہیں تو شہادت کے الفاظ سے مضمون کی تاکید فرمائی جیسے شہد اللہ انہ لا الہ الا ھو۔ الآیة، اور کہیں قسم کے الفاظ سے جیسے ای وربی انہ لحق وغیرہ۔- دوسرا سوال :- یہ ہے کہ قسم اپنے سے بہت بڑے کی کھائی جاتی ہے، حق تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کی قسم کھائی جو ہر حیثیت سے کمتر ہیں ؟- جواب یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ سے بڑی کوئی ذات نہ ہو نہ ہو سکتی ہے، تو یہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی قسم عام مخلوق کی قسم کی طرح نہیں ہو سکتی۔ اس لئے حق سبحانہ وتعالیٰ نے کہیں اپنی ذات پاک کی قسم کھائی ہے جیسے (ای و ربی) اور اس طرح ذات حق کی قسمیں قرآن میں سات جگہ آئی ہیں۔ اور کہیں اپنے افعال وصفات کی اور قرآن کی قسم کھائی ہے جیسے و السماء وما بنھا والارض وما طحہا و نفس و ما سواہا وغیرہ، اور بیشتر قسمیں اپنے مفعول و مخلوق کی استعمال ہوئی ہیں، جو معرفت کا ذریعہ ہونے کی حیثیت سے اسی کی ذات کی طرف راجع ہوجاتی ہیں۔ (کذا ذکرہ ابن قیم)- مخلوقات میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے، کہیں تو اس سے اس چیز کو عظمت و فضیلت کا بیان کرنا مقصود ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم آئی ہے ( آیت) لعمرک انہم لفی سکرتہم یعمھون، ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی مخلوق اور کوئی چیز دنیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی سے زیادہ معزز اور مکرم نہیں پیدا کی، یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں کسی نبی و رسول کی ذات کی قسم نہیں آئی، صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم آیت مذکورہ میں آئی ہے۔ اسی طرح (والطور و کتاب مسطور) کی قسم بھی طور اور کتاب کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے آئی ہے۔- اور بعض اوقات کسی مخلوق کی قسم اس لئے کھائی ہے کہ وہ کثیر المنافع ہے، جیسے ( آیت) والتین والزیتون۔ اور بعض جگہ کسی مخلوق کی قسم اس لئے کھائی ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا مظہر اور معرفت صانع عالم کا اہم ذریعہ ہے۔ اور عموماً جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے اس کو اس مضمون کے ثبوت میں کچھ دخل ضرور ہوتا ہے، جس مضمون کے لئے قسم کھائی ہے، جو ہر جگہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔- تیسرا سوال یہ ہے کہ شریعت کا مشہور حکم عام انسانوں کے لئے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں، حق تعالیٰ کی طرف سے خود مخلوقات کی قسم کھانا کیا اس کی دلیل نہیں کہ دوسروں کے لئے بھی غیر اللہ کی قسم جائز ہے ؟ اس کے جواب میں حضرت حسن بصری نے فرمایا ہے :- ” اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے وہ اپنی مخلوقات میں سے جس چیز کی چاہے قسم کھالے، مگر کسی دوسرے کے لئے اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں “- مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ جل شانہ، پر قیاس کرنا غلط اور باطل ہے، جب شریعت الٰہیہ میں عام انسانوں کے لئے غیر اللہ کی قسم ممنوع کردی گئی تو اللہ تعالیٰ کے اپنے ذاتی فعل سے اس کے خلاف استدلال کرنا باطل ہے۔- اس کے بعد آیات مذکورہ کی تفسیر پر غور فرمائیے۔- پہلی چار آیتوں میں فرشتوں کی قسم کھا کر یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود برحق ایک ہے۔ اگرچہ قسم کے دوران فرشتوں کی صفات بھی وہ ذکر کی گئی ہیں جن پر تھوڑا سا بھی غور کرلیا جائے تو وہ عقیدہ توحید ہی کی دلیل معلوم ہوتی ہیں، لیکن آگے کی چھ آیات میں توحید کی دلیل مستقلاً بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ہے :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اِلٰہَكُمْ لَوَاحِدٌ۝ ٤ۭ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ اِنَّ اِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ ” یقینا تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے۔ “- جیسے کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوا ہے ‘ ان سورتوں (زیر مطالعہ گروپ ) کا مرکزی مضمون توحید اور ردِّ شرک ہے۔ اسی لیے یہاں ان قسموں کی گواہی کے بعد جو حقیقت بیان فرمائی گئی ہے وہ معبودِ حقیقی کے اکیلے اور تنہا ہونے کے بارے میں ہے۔ البتہ اس کے بعد مکی سورتوں کے جو آخری دو گروپس ہیں ان کا مرکزی مضمون چونکہ انذارِآخرت ہے ‘ اس لیے ان گروپس کی جن سورتوں کے آغاز میں ایسی قسمیں کھائی گئی ہیں وہاں ان قسموں کے بعد مقسم علیہ کے طور پر وَاِنَّ الدِّیْنَ لَـوَاقِعٌ (الذّٰریٰت) (جزا و سزا اور حساب کتاب کا معاملہ یقینا ہونے والا ہے) جیسی آیات آئی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :2 یہ وہ حقیقت ہے جس پر مذکورہ صفات کے حامل فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات جو اللہ کی بندگی میں چل رہا ہے ، اور اس کائنات کے وہ سارے مظاہر جو اللہ کی بندگی سے انحراف کرنے کے برے نتائج انسانوں کے سامنے لاتے ہیں ، اور اس کائنات کے اندر یہ انتظام کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک پے در پے ایک ہی حقیقت کی یاد دہانی مختلف طریقوں سے کرائی جا رہی ہے ، یہ سب چیزیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انسانوں کا اِلٰہ صرف ایک ہی ہے ۔ اِلٰہ کے لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے ۔ ایک وہ معبود جس کی بالفعل بندگی و عبادت کی جا رہی ہو ۔ دوسرے وہ معبود جو فی الحقیقت اس کا مستحق ہو کہ اس کی بندگی و عبادت کی جائے ۔ یہاں الٰہ کا لفظ دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ پہلے معنی میں تو انسانوں نے دوسرے بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں ۔ اسی بنا پر ہم نے اِلٰہ کا ترجمہ معبود حقیقی کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani