Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] مشارق ومغارب کتنے ہیں ؟ مشارق سے مراد بیشمار مشرق ہیں۔ سورج ہمیشہ عین مشرقی سمت سے ہی طلوع نہیں ہوتا بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سرکتا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف۔ سورج کے مشرق کا زاویہ ہر روز جداگانہ ہوتا ہے اس لحاظ سے سورج کے سال بھر میں ٣٦٥ مشرق ہوئے۔ پھر اس کائنات میں صرف سورج ہی گردش نہیں کر رہا اور بھی ہزاروں سیارے محو گردش ہیں۔ اور ان کے اپنے اپنے مشرق یا طلوع ہونے کے مقامات ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے مشرقوں میں بھی سورج کے مشرقوں کی طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے مشرقوں کی تعداد ہمارے حساب سے باہر ہوجاتی ہے۔- اور اللہ تعالیٰ کے رب المشارق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام سیاروں کی نقل و حرکت کا وہی مالک ہے اور ان پر اسی کا کنٹرول ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مشارق کا مالک ہے مغارب کا بھی ہے۔ مغارب کا یہاں تو ذکر نہیں تاہم سورة معارج کی آیت نمبر ٤٠ میں مغارب کا بھی ذکر آگیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا : مراد اس سے پوری کائنات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اپنے اکیلے رب ہونے کو اکیلا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ جب ہر چیز کا مالک اور رب میں ہوں اور تم بھی مانتے ہو کہ ہر چیز پیدا میں نے کی اور اس کی پرورش بھی میں ہی کرتا ہوں، تو عبادت کسی اور کی کیوں ہو ؟ داتا اور دستگیر کوئی اور کس طرح بن گیا ؟ مصیبت کے وقت کسی اور کو پکارا کیوں جائے ؟- وَرَبُّ الْمَشَارِقِ : ” الْمَشَارِقِ “ ” مَشْرِقٌ“ کی جمع ہے، طلوع ہونے کی جگہ۔ سورج ہمیشہ مشرقی سمت کے درمیان سے طلوع نہیں ہوتا، بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سرکتا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف اور ہر روز سورج کے طلوع ہونے کی جگہ الگ ہوتی ہے، اس لحاظ سے سال بھر میں سورج کے ٣٦٥ مشرق ہوتے ہیں۔ پھر اس کائنات میں صرف سورج ہی گردش نہیں کرتا، چاند اور بیشمار سیارے طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے طلوع ہونے کے اپنے اپنے مقامات ہیں، جن میں سورج کے مشرقوں کی طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے مشرقوں کی تعداد ہمارے حساب سے باہر ہے۔ یہاں صرف مشارق کے ذکر پر اکتفا فرمایا، کیونکہ ظاہر ہے کہ جو مشرقوں کا رب ہے مغربوں کا رب بھی وہی ہے۔ سورة معارج (٧٠) میں مشارق و مغارب دونوں کے رب کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رب المشارق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور ان تمام سیاروں کی نقل و حرکت کا مالک وہی ہے، کسی اور کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ ” رَبُّ الْمَشَارِقِ “ میں ایک اور نکتہ بھی ہے کہ سورج اپنی روزانہ کی گردش میں اس زمین کے مختلف حصوں پر ایک دوسرے کے بعد پے در پے طلوع ہوتا ہے۔ جہاں زمین کا کوئی حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہی اس کا مشرق ہے۔ اس لحاظ سے بھی نہ مشرقوں کا شمار ہے نہ مغربوں کا۔ (الوسیط)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

( آیت) رب السموٰت والارض و ما بینھما و رب المشارق (وہ پروردگار ہے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں ان کا اور پروردگار ہے مشرقوں کا) تو جو ذات اتنی عظیم مخلوقات کی خالق و پروردگار ہو، عبادت کی مستحق بھی وہی ہے، اور یہ ساری کائنات اس کے وجود اور وحدانیت کی دلیل ہے یہاں المشارق، مشرق کی جمع ہے، اور چونکہ سورج سال کے ہر دن میں ایک نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے، اس لئے اس کی مشرقیں بہت ساری ہیں، اسی بنا پر یہاں جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ۝ ٥ۭ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق .- والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو آسمانوں اور زمین اور تمام مخلوقات کا خالق ہے اور پروردگار ہے سردی گرمی کے لانے کا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ” جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اور تمام مشرقوں کا۔ “- یہاں ” مشارق “ کے بعد ” مغارب “ کا ذکر نہیں ہوا٭۔ اس لیے کہ زمین کا ہر مقام اور ہر نقطہ مشرق بھی ہے اور مغرب بھی۔ یعنی اگر ہم کسی وقت سورج کو کسی مقام پر غروب ہوتا دیکھ رہے ہیں تو عین اسی وقت اسی مقام سے کسی دوسرے علاقے کے لوگ اسے طلوع ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے سورج کے طلوع و غروب کے حوالے سے مشرق اور مغرب کا ذکر الگ الگ بھی ہوسکتا ہے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمین کے تمام مقامات مشارق ہی ہیں۔ یعنی ہر جگہ سے کسی نہ کسی وقت سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :3 سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے ۔ نیز ساری زمین پر وہ بیک وقت طابع نہیں ہو جاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے ۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا ، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے ، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں ( المعارج ۔ 40 ) ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :4 ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے ، اور وہی درحقیقت معبود ہو سکتا ہے ، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے ۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب ( یعنی مالک اور حاکم اور مربی و پروردگار ) کوئی ہو اور الٰہ ( عبادت کا مستحق ) کوئی اور ہو جائے ۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر ، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا ، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے ، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے ۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت کرنا ، دونوں صریح خلاف عقل و فطرت ہیں ۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے ۔ رہیں بے اقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے ، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے ، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کارروائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں ۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani