شیاطین اور کاہن ۔ آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا ۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں ۔ اس کے ستاروں کی ، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيْرِ Ĉ ) 67- الملك:5 ) ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ ۔ اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی ۔ اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے ۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے ، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے ، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ۔ یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے ۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے ۔ اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت ( حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 23 ) 34- سبأ:23 ) ، کی تفسیر میں بیان کردی ہیں ، جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں ، جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے ۔ ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہدیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے ۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں ، ثاقب سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے ، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ شیاطین پہلے جاکر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آکر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا ، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلادیا جاتا ہے ، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے چنانچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جاکر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا ۔ اس کی پوری تحقیق اللہ نے چاہا تو آیت ( وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا Ďۙ ) 72- الجن:8 ) ، کی تفسیر میں آئے گی ۔
[٤] آسمانوں کا وجود ایک ٹھوس حقیقت ہے :۔ نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے اس میں ہیرے اور زمرد جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس خوشنما منظر کو دیکھنے سے ہی انسان راحت محسوس کرتا ہے۔- موجودہ دور کے ہیئت دان کسی آسمان کے قائل نہیں۔ ان کے خیال کے مطابق آسمان صرف حد نگاہ کا نام ہے۔ جبکہ کتاب و سنت میں صراحت سے مذکور ہے کہ آسمان ایک ٹھوس حقیقت ہے اور ان کی تعداد سات ہے۔ آج کے ماہرین فلکیات کئی ستاروں کا زمین سے لاکھوں اور کروڑوں میل کا فاصلہ بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان ستاروں کی روشنی ذاتی نہیں ہوتی بلکہ انعکاس روشنی کے اصول کے تحت سورج کی روشنی سے ہی یہ منور اور روشن اور چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ہمارے چاند کی روشنی بھی سورج کی روشنی ہی کی مرہون منت ہے۔ اب قرآن یہ کہتا ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ماہرین کی تمام تر تحقیقات تاحال آسمان دنیا کے بھی نیچے ہیں۔ اور باقی آسمانوں کی تو اس کے بعد ہی باری آسکتی ہے۔ جو شاید انسان کی بساط سے باہر ہے۔
اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ :” الدُّنْيَا “ ” اَلْأَدْنٰی “ کی مؤنث ہے، سب سے قریب، یعنی جو آسمان ہماری زمین سے دکھائی دیتا ہے۔ ” زِیْنَۃٌ“ پر تنوین تنکیر کی ہے، اس لیے ترجمہ ” ایک انوکھی زینت “ کیا ہے۔ ” الْكَـوَاكِبِ “ ” زِیْنَۃٌ“ سے بدل ہے، ترجمے میں اسے ملحوظ رکھا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ستاروں کی پیدائش کی بیشمار حکمتوں میں سے ایک آسمان دنیا کی آرائش و زیبائش ہے۔ اگر ستارے نہ ہوں تو نہ آسمان کا یہ حسن ہو نہ زمین پر روشنی ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں چراغ بھی فرمایا ہے : (وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاب السَّعِيْرِ ) [ الملک : ٥ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “
( آیت) انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب، اس میں السماء الدنیا سے مراد نزدیک ترین آسمان ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس نزدیک والے آسمان کو ستاروں کے ذریعے زینت بخشی ہے، اب یہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ ستارے ٹھیک آسمان کے اندر ہوں، بلکہ اگر اس سے جدا ہوں تب بھی زمین سے دیکھا جائے تو وہ آسمان پر ہی معلوم ہوتے ہیں، اور ان کی وجہ سے آسمان جگمگاتا نظر آتا ہے۔ بتلانا صرف اس قدر ہے کہ یہ تاروں بھرا آسمان اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود بخود وجود میں نہیں آ گیا بلکہ اسے پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے، اور جو ذات اتنی عظیم الشان چیزوں کو وجود میں لا سکتی ہے اسے کسی شریک اور ساجھی کی کیا ضرورت ہے ؟ نیز جب یہ بات مشرکین کے نزدیک بھی طے شدہ ہے کہ ان تمام فلکی اجسام کا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو یہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ خالق ومالک تو وہ ہو اور عبادت کسی اور کی کی جائے ؟- رہا یہ مسئلہ کہ ستارے قرآن کی رو سے آسمان میں جڑے ہوئے ہیں یا اس سے الگ ہیں ؟ نیز قرآن کریم کا علم ہیئت کے ساتھ کیا ربط ہے ؟ اس موضوع پر مفصل بحث سورة حجر میں گزر چکی ہے۔
اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَۃِۨ الْكَـوَاكِبِ ٦ۙ- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- كب - الْكَبُّ : إسقاط الشیء علی وجهه . قال عزّ وجل : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ- [ النمل 90] . والإِكْبَابُ : جعل وجهه مَكْبُوباً علی العمل . قال تعالی: أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] - والکَبْكَبَةُ :- تدهور الشیء في هوّة . قال : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] . يقال كَبَّ وكَبْكَبَ ، نحو : كفّ وكفكف، وصرّ الرّيح وصرصر .- والکَوَاكِبُ :- النّجوم البادية، ولا يقال لها كواکب إلّا إذا بدت . قال تعالی: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76] ، وقال : كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] ، إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] ، وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] ويقال : ذهبوا تحت کلّ كوكب : إذا تفرّقوا، وكَوْكَبُ العسکرِ : ما يلمع فيها من الحدید .- ( ک ب ب ) الکب ( ن ) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل 90] تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ الاکباب ۔ کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا ۔ ( اور کنایہ ازہمہ تن مشغول شدن درکا ر ے ) اسی سے قرآن میں ہے : أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو ۔ وہ سیدھے رستے پر ہے ۔ یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے ۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ قرآن میں ہے : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] تو وہ اور گمراہ ( یعنی بت اور بت پرست ) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ کب وکبکب ( ثلاثی درباعی ، دونوں طرح آتا ہے مثل ۔ کف وکفکف وصرالریح وصر صر الکواکب ظاہر ہونے والے ستارے ، ستاروں کو کواکب اسی وقت کہاجاتا ۔۔۔ جب نمودار اور ظاہر ہوں ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76]( یعنی ) جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سے ) ڈھانپ لیا ( تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا ۔ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت س مزین کیا ۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] اور جب ( آسمان کے ) ستارے جھڑ پڑیں گے ۔ محاورہ ہے : ذھبوا تحت کل کوکب وہ منتشر ہوگئے ۔ کوکب العسکر لشکر میں اسلہ کی چمک
(٦۔ ٧) ار ہم ہی نے رونق دی ہے اس سے پہلے آسمان کو ایک عجیب آرئش یعنی ستاروں کے ساتھ اور ان ہی ستاروں کے ساتھ اس آسمان کی حفاظت بھی کی ہے ہر شریر شیطان سے۔
آیت ٦ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ ” ہم نے مزین کردیا ہے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی زیبائش سے۔ “- السَّمَائَ الدُّنْیَا مرکب توصیفی ہے ‘ یعنی سب سے قریب والا آسمان۔ دَنَا یَدْنُو کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور اسی سے ادنٰیہے یعنی ” قریب ترین “ جبکہ ” دُنْیَا “ کا لفظ اس کا مونث ہے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :5 آسمان دنیا سے مراد قریب کا آسمان ہے ، جس کا مشاہدہ کسی دوربین کی مدد کے بغیر ہم برہنہ آنکھ سے کرتے ہیں ۔ اس کے آگے جو عالم مختلف طاقتوں کی دوربینوں سے نظر آتے ہیں ، اور جن عالَموں تک ابھی ہمارے وسائل مشاہدہ کی رسائی نہیں ہوئی ہے ، وہ سب دور کے آسمان ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ سماء کسی متعین چیز کا نام نہیں ہے بلکہ قدیم ترین زمانے سے آج تک انسان بالعموم یہ لفظ عالَمِ بالا کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے ۔